دور سے چٹانوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سارے ہاتھی دریا میں غسل کر رہے ہیں، گاڑی خالی ہوگئی، میں موقع غنیمت جان کر بوگی میں گھس گیا

 دور سے چٹانوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سارے ہاتھی دریا میں غسل کر ...
 دور سے چٹانوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سارے ہاتھی دریا میں غسل کر رہے ہیں، گاڑی خالی ہوگئی، میں موقع غنیمت جان کر بوگی میں گھس گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:83
دوسری طرف کے پلیٹ فارم پر بڑی رونق تھی اور یہ قدرے صاف ستھرا بھی تھا۔ کسی نے بتایا کہ وہاں سیاحوں کی ایک خصوصی ٹرین قاہرہ سے براستہ الأقصر یہاں پہنچنے والی تھی جو کوئی پرائیویٹ کمپنی مصری ریلوے کے تعاون سے چلا رہی تھی۔ جگہ جگہ گائیڈ اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے کھڑے آپس میں خوش گپیاں کر رہے تھے۔ یہ نوجوان لڑکے تھے جن پر ہوٹلوں کی طرف سے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور انہیں بحفاظت اپنی منزلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری تھی۔
ایک بار پھر شور مچا اور کچھ ہی دیر بعد ایک بہت ہی خوبصورت اور ایئرکنڈیشنڈ گاڑی آہستگی سے سٹیشن میں داخل ہوئی اور باوقار انداز میں پلیٹ فارم پر لگ کر کھڑی ہوگئی۔ دروازے کھلے اور اس میں سے غیر ملکی سیاح جوق در جوق باہر نکلنے شروع ہوئے۔ میزبان لڑکے اپنے اپنے پلے کارڈ لئے خارجی دروازے کے قریب ایک قطار میں کھڑے ہوگئے۔ جیسے ہی کوئی سیاح وہاں اپنا نام لکھا دیکھ کر اس طرف بڑھتا تو وہ لڑکامسکرا کر اس کا استقبال کرتا اور اس کا سامان اٹھا کر اپنے ساتھ لئے باہر چلا جاتا۔ 
چند ہی لمحوں میں سارے مسافر چلے گئے اور گاڑی خالی ہوگئی۔ میں موقع غنیمت جان کر ایک بوگی میں گھس گیا تو دیکھا کہ اندر بہت ہی یخ بستہ اور صاف ستھرا ماحول تھا۔ آرام دہ نشستیں اور بستر لگے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس میں مغربی طرز کے ڈائننگ روم بھی تھے۔ جہاں حفظان صحت کے مطابق کھانے پینے کا بہترین انتظام تھا۔ یہ یقیناً ایک بین الا قوامی معیار کی بہت ہی اعلی درجے کی ٹرین تھی۔ کچھ دیر بعد میں بھی باہر نکل آیا۔
ہاتھیوں کا جزیرہ
گھوڑا گاڑی والے سے استفسار کیا کہ اور قریب ترین قابل دید کونسی جگہ ہے، جہاں مختصر وقت میں جایا جاسکتا ہے۔ اس نے سر ہلا کر مجھے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ”اب میں آپ کو دریائے نیل کے ایک کشتی گھاٹ پر لے جاؤں گا، جہاں سے آپ دوسرے سیاحوں کے ہمراہ دریائے نیل کے کنارے کنارے کشتی رانی کرتے ہوئے سنگلاخی چٹانوں کی طرف سفر کریں گے۔ وہاں دریائے نیل بڑا ہی خوبصورت ہے اور بہت حسین نظارہ پیش کرتا ہے۔ دور سے ان چٹانوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سارے ہاتھی دریا میں گھسے ہوئے غسل کر رہے ہیں۔ اسی مشابہت کی وجہ سے چٹانوں کے اس سلسلے کو Elephantino Rocks  کہتے ہیں“۔ گھوڑا گاڑی والے نے مجھے ایک جگہ اُتار دیا اور دُور سے اشارہ کرکے وہ جگہ دکھا دی جہاں سے مجھے کشتی ملنا تھی۔وہ وہیں ٹھہر گیا تھا۔وہاں اسی کی طرح کے اور بھی کئی لوگ موجود تھے۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -