اس اسلامی ریاست کا اصل مسئلہ کیا ہے؟
عیسائی ریاستوں کو اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے میں کافی دیر لگ گئی، لیکن آخر کار قرون ِ وسطیٰ میں عروج پانے والی پاپائیت کا دور اپنے اختتام کو پہنچا اور علم اور آگاہی کی نشاة ِ ثانیہ نے ذہن کو بالیدگی عطاکرنا شروع کر دی ۔ احیائے علو م کی اس تحریک نے تحقیق اور جستجو کے فکری دھاروں کو رواں کر دیا اور پرانے نظریات و عقائد پر سوالات اٹھائے گئے۔ لوتھر کنگ نے چرچ میں جو اصلاحات لانے کی کوشش کی، اس کے نتیجے میں عیسائیت تقسیم ہو گئی، لیکن اسے نے ہی یورپ میں علم کی تحریک پھیلنے میں مدد کی۔ لوتھر نے پرانے نظریات پر سوالات اٹھائے اور سوالات ہی علم اور آگاہی کی طرف پہلا قدم ہوتے ہیں۔ مغرب علم اور آگاہی کے راستے پر گامز ن ہو گیا، لیکن اس نے مذہب کو مسترد نہیں کیا ۔ اس کی بجائے اس نے مذہب کو ایک الگ مقام دیتے ہوئے عمدہ ترین یونیورسٹیاں قائم کیں اور خوبصورت چرچ بھی۔ اس طرح ایک دوسرے میں مداخلت کئے بغیر سائنس اور مذہب متوازی خطو ط پر چلتے رہے ۔ دین و دنیا کی اس تفاوت پر چند ایک پیشہ ور قدامت پسندوں کے سوا کوئی بھی پریشان نہیں ہوا۔ چرچ فادرز دنیاوی گناہوں پر گرجتے برستے رہے، لیکن صر ف اتوار کو، کیونکہ آخروی معاملات کے لئے صرف یہی دن مخصوص تھا ، جبکہ باقی دن دنیا کے معاملات کے لئے تھے اور ان میں چرچ مداخلت نہیں کرتا تھا، تاہم اسلامی دنیا میں ایسا نہیں ہوا۔
اسلام کے ابتدائی دور میں کسی حد تک عوامی ریاست کے خدوخال نمایاں ہونا شروع گئے تھے، لیکن اس ریاست پر ایک قبیلے، قریش، کی حکمرانی تھی۔ چوتھے خلیفہ ؓ کی شہادت کے بعد انسانی مساوات پر یقین رکھنے والے نظام میں امارت کے خدوخال نمایا ں ہونا شروع ہو گئے۔ جب خلافت کی جگہ امارت نے لے لی تو پہلا دور بنو امیہ کے ہاتھ رہا، جبکہ دوسرے دور میں اقتدار بنو عباس کے ہاتھ آیا۔ اگلی چودہ صدیوں تک اسلامی دنیا میں سلطنت، بادشاہت اور امارت حکومت اور اقتدار کے پیمانے رہے، یہاں تک کہ نوآبادیاتی دورنے امارت اور خلافت کی اس شیشہ گری میں دراڑیں ڈال دیں اور ایک مرتبہ پھر عوامی ریاست کے خدوخال نمایا ں کر دئیے۔ اس ضمن میں صرف ترکی کو یہ استثنا حاصل ہے کہ اس میں عثمانی خلافت کا خاتمہ اور جمہوری حکومت کا آغاز نوآبادیاتی قوتو ں کی بجائے مصطفی کمال کے ہاتھوں سرانجام پایا، تاہم موجودہ حکمران پارٹی کے پھیلائے ہوئے اسلامی جذبات کے باوجود ترکی مصطفی کمال کے نظریات کی وجہ سے بہت سے معاملات میں ممتاز ہے۔
پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ علم کی شمع کچھ دیر تک مسلمانوںکے ہاتھ بھی رہی۔ اس میں مسلمانوں نے گراں قدر اضافہ بھی کیا، لیکن پھر علمی اور فکری چراغوں کی روشنی ماند پڑنا شروع ہو گئی۔ جس طرح گوہر ِ علم یونانیوں کے ہاتھوںسے نکل کر باقی دنیا کے ہاتھ میں پہنچا تھا، اسی طرح یہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر دیگر قوموں کے ماتھے کا جھومر بن گیا۔ جب انتہا پسندانہ اور کٹر نظریات کو تقویت ملنا شروع ہو گئی تو تحقیق ، جو علم کی اساس ہے، کے سوتے خشک ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی علم کی بنیادیں بھی ڈھے گئیں ۔ اسلامی دنیامیں علم کی شمع ہنوز روشن نہیں ہوئی ، ہر طرف جہالت اور غرور کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے۔ اس دوران مسلمانوں کی عالیشان سلطنتوں، جیسا کہ مغلیہ سلطنت، کے عروج و زوال کا سلسلہ جاری رہا ،لیکن علمی و فکری جستجو کی تحریک شروع نہ ہو سکی۔ اس کے نتیجے میں دنیاوی مسائل سے عہدہ برا¿ہونے کی سکت دم توڑ گئی، چنانچہ دوسری دنیا کے معاملات زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے۔
جب سکندر ِ اعظم فتوحات کرتا ہواٹیکسلا تک آیا تو ، جیسا کہ مشہور مورخ پلوٹرچ (Plutarch) ہمیں بتاتا ہے، وہاں ہندو جوگیوں کو کڑے گیان میں دیکھ کر یونانی حیران رہ گئے ۔ بہرحال ان کی دیوتاﺅں پر مرکوز کڑی توجہ یونانیوں کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکی ۔ اسی طرح جب نو آبادیاتی قوتوں نے اسلامی ریاستوں پر قبضہ جمانا شروع کیا تو مسلمانوں کے اخروی زندگی کے انتہائی عقائد ان کا تحفظ نہ کر سکے، حتیٰ کہ جب برطانیہ نے مصر پر قبضہ جمایا تو اُنہوںنے الازہر یونیورسٹی کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فتوے دینے سے نہیں روکا۔ جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو وہاں کے مفتی ِ اعظم بدستور خطبات دیتے رہے۔ اسی طرح انڈیا پر قبضے کے دوران انگریزوں نے مدرسہ ِ دیوبند میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکمران قوتوں کو دنیاوی، نہ کہ اخروی ، معاملات سے سروکار تھا۔ جب اُنہوں نے انڈیا پر اپنا اقتدار قائم کیا تو اُنہوںنے اسے ”عیسائیت کا قلعہ “ قرار نہیں دیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تاریخ ہمارے لئے شجر ِ ممنوعہ ہے، ہم نے پہلی ہی فرصت میں اپنے وطن کو ”اسلام کا قلعہ “ قرار دے ڈالا، اور آج تک اسے نکلنے کے لئے تیار نہیںہیں۔
کچھ ایسے معاملات ہیں، جنہیںہم درست نہیں کر سکتے ہیں۔ مصر میں قائم ہونے والی جمہوریت اور اس کا انجام ظاہر کرتا ہے کہ ہم ابھی جمہوریت کی روح کو نہیں اپناسکے ۔ فرعون کے دورسے لے کر اب تک، مرسی مصر کی تاریخ کے واحد منتخب مرسی حکمران تھے ، لیکن وہ صرف ایک سال ہی اقتدار میں رہ سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے اسلامی عقید ے کو حکمرانی سے الگ نہ رکھ سکے۔ اُنہوںنے اپنی توجہ عوام کی وسیع تر حمایت حاصل کرنے کی بجائے صرف ”اخوان المسلمین “ کے ہاتھ مضبوط کرنے تک محدود رکھی۔ اس کے نتیجے میں سیکولر جماعتوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا اور جب ایک مرتبہ پھر تحریر چوک احتجاجی نعروں سے گھونجنے لگا تو فوج بھی مداخلت کئے بغیر نہ رہ سکی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اخوان المسلمین والے کیا چاہتے تھے ؟صدرمرسی اُن کے آدمی تھے۔ کیا یہ کامیابی کافی نہیں تھی ؟کیا اُنہیں اب احتیاط سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے تھا ؟اور فوج نے بھی اقتدار پر قبضہ جمانے کا کیا موقع ڈھونڈا ہے ، کیونکہ بظاہر نظر تو یہی آتا ہے کہ اس نے جمہوریت کے لئے ایسا کیا ہے، لیکن ہم پاکستانیوں کو اس بات کا بہت تجربہ ہے کہ فوج کا کسی بھی بہانے سے آنا آسان ہوتا ہے ، جانے کے لئے کوئی بہانہ نظر نہیںآتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا فوج کی طرف سے جمہوریت کی بحالی کے لئے دیا گیا ٹائم ٹیبل طوالت پکڑتا ہے یا یہ ڈرامہ کوئی اور منظر دکھاتا ہے ؟ مصر میں جمہوریت کو صرف دوسال ہی ہوئے تھے کہ اس کا ڈھانچہ زمین بوس ہو گیا۔ ہو سکتا ہے کہ اخوان المسلمین میں سے بہت سے جوشیلے جوان ہتھیار اُٹھا کر القاعدہ کی راہ پر چلنے کا سوچ رہے ہوں۔ جب مرسی اقتدار میں تھے تو اُن سے اپنے ملک کے معاملات تو سنبھالے نہیں جارہے تھے، لیکن وہ عالمی سیاست دان کا کردار ادا کرنے سے باز نہ آئے اور شام کے بشار الاسد کو استعفا دینے کا مشورہ دے ڈالا۔ اس افسوس ناک کامیڈی میں مزید ستم ظریفی دیکھنے میں اُس وقت آئی جب فوج کے حرکت میں آتے ہی شام کی طرف سے مرسی کے لئے بھی ایسا ہی مشورہ آیا۔
اس وقت عرب دنیا کی عجیب صورت ِ حال ہے۔ قطر کے رہنما پہلے لیبیا میں ملوث تھے، جبکہ اب ان کی سرگرمیوں کا محور شام ہے۔ معمر قذافی کے بعد اب لیبیا اسلامی انتہا پسندوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ، جبکہ سعودی عرب کو دنیا میں صرف دومسائل ہی دکھائی دیتے ہیں، ایک ایران اور دوسرا حزب اﷲ۔ امریکیوں کا شکریہ، کہ ان کی وجہ سے عراق ایک مستقل مقتل بن چکا ہے۔ اسی دوران ترکی کے وزیر ِ اعظم نے ، جو اسلامی دنیا کے نئے ہیرو ہیں ، شام میں مداخلت کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ دنیا کے ہمارے خطے میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر دیوانوںکی طرح الزامات کی بوچھاڑ جاری رکھتے ہیں۔” سو جوتے اور اتنے ہی پیاز کھانا“ ہمارا قومی شغل بن چکا ہے، یعنی ہمارے ذہن سے افغانستان کا خبط جاتا دکھائی نہیں دیتا ۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہم دنیا کو قسمیں کھا کھا کر بتا رہے تھے کہ ہمارا افغان طالبان سے کوئی سروکار نہیں، لیکن اب ہم دنیا کو اشارتاً جتا رہے ہیں کہ ہم طالبان کو قطر میں مذاکرات کی میز پر لا سکتے ہیں۔ چونکہ طالبان کے نظریات غیر متبدل ہیں، اس لئے جب اُنہوںنے قطر میں دفتر کھولا تو ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ یہ ”اسلامی امارت افغانستان “ کا دفتر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کرزئی حکومت کو روندتے ہوئے افغانستان میں اپنی امارت (کچھ ہمارے ہاں بھی) قائم کرنے کے خیال سے باہر نہیں آسکے ہیں۔
پاکستان کے معاملات بھی ذہن کو ماﺅف کر دینے والے ہیں۔ اس کی نئی حکومت نے ببانگ ِ دہل اعلان کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط قبول نہیں کرے گی ، بلکہ اپنی شرائط پر قرضہ حاصل کرے گی۔ شاید معاشی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہونے جارہا تھا کہ قرضہ مانگنے والے بھی اپنی شرائط منوالیتے، لیکن یہ حقائق کی دنیا ہے اور یہاں ہم نے دیکھا کہ اس کی معاشی ٹیم آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کرنے کے لئے کس طرح ”سر ِ بازار می رقصم “ کی عملی تصویر بن گئی۔جس دوران کشکول توڑ کر سادگی اپنانے کی باتیں ہو رہی تھیں، نئے وزیر ِ اعظم قومی اسمبلی میں چار ملین ڈالر کی گھڑی پہن کر آتے دکھائی دئیے۔ یہ بات ناقابل ِ یقین لگتی ہے کہ ایک گھڑی کی مالیت اتنی زیادہ ہو اور یہ کہ ایک سیاسی شخصیت اسے پہن کر اس کی نمائش کرنے میںفخر محسوس کرے۔ اسے حماقت کہیں یا حوصلہ، اس وقت پاکستان ان دونوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یہ حماقت صرف اس ملک کے وزیر ِ اعظم تک ہی محدود نہیں ہے، انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تمام اسلامی ممالک گزشتہ پانچ صدیوںسے علمی اور فکری ترقی کی دوڑ میں باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اب ان دونوں دنیاﺅں میں کوئی مطابقت نہیں۔ وہ علمی سربلندی کی نئی نئی منازل طے کررہے ہیں، جبکہ ہم اپنی جہالت کی ریت میں سر دئیے بیٹھے ہیں۔ اس پر مستزاد، کٹر عقائد نے فہم و فراست کی تمام راہیں مسدود کر دی ہیں۔ درحقیقت علم کی وہ شمع ہم کور چشموںکے لئے ہے بھی نہیں۔
اس وقت جنرل (ر) پرویز مشرف سے باز پرس کی جارہی ہے۔ دراصل ان کا اصل گناہ یہ نہیں تھا کہ اُنہوںنے آئین کی خلاف ورزی کی، بلکہ اُنہوںنے ملنے والے موقع کو گنوا دیا۔ وہ ضیاءالحق دور میں بوتل سے آزاد ہونے والے تاریکی کے دیو کو واپس بند کر سکتے تھے، جہادی کلچر کا خاتمہ کر سکتے تھے ، حدود آرڈنینس کو منسوخ کر کے معاشرے کو گھٹن سے آزاد کر سکتے تھے۔ اپنے اقتدار کے پہلے تین سال میں وہ بہت مضبوط تھے، جبکہ اُن کے مخالفین کمزور تھے، تاہم درست تصورات کی کمی کی وجہ سے اُنہوںنے وہ موقع گنوا دیا ۔ اب پاکستان کو اگلے سو سال تک بھی ایسا موقع نہیں ملے گا۔
مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔ ٭