سیرت رحمت عالم ﷺ (1)
رب قدیر نے کائنات کی تخلیق کا فیصلہ نہیں کیا تھاکہ ثنائے محمدؐ کی صدا پہلے دے دی۔ اہل علم کہتے ہیں لفظاً نہ سہی معناً روایت درست ہے:
فرمان باری تعالیٰ کا ترجمہ : ’’پیارے محبوب اگر میں نے تجھے پیدا نہ کرنا ہوتا تو میں یہ کائنات بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ ارض و سماء، شجر حجر، فرشتے، جاندارچرند و پرنداور جن و انسان کی تخلیق سب رسول اکرمﷺ کی بعثت کی تمہید ہیں۔دنیا میں سیرت کا موضوع سدا بہار ہے۔ جس پر کبھی خزاں نہیں۔ جو ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا۔ یہی وہ موضوع ہے جس میں رب کائنات خود بھی شریک اللسان ہے:
’’اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓءِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ‘‘جب رب کائنات ہی شریک صلوٰۃ بر محمدؐ ہے تو پھر باقی کیا ہے جو رہ گیا ہو گا۔ انسان نسیان کا پتلا ہے، شاید تغافل غالب آ جائے اس لیے اللہ نے قیامت تک کے لیے یاد دہانی کرا دی ۔ ’’اے ایمان والو! کسی بھی لمحے چوک نہ جانا، میرے پیارے نبی پرمستقل صلوٰۃ و تسلیم کرتے رہنا ‘‘ یہ نماز کا حصہ بھی ہے، اذان کا حصہ بھی ہے، ساری دنیا میں جہاں اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ پکارا جائے گا وہاں اشھد ان محمد رسول اللّٰہکی آواز بھی عطر بیز رہے گی اور قیامت تک رہے گی۔
مبالغہ نہیں حقیقت ہے از آدم تاایں دم کائنات کی ہر چیز ثناخواں محمد ہےﷺ۔ یہ بھی یاد رہے ثنائے محمد ﷺ میں صرف مسلم ہی نہیں غیر مسلم بھی شریک ہیں جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے۔
دور حاضر میں راجہ بھگوان داس(سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان)جیسے ہندو نام بھی اس میں شامل ہیں۔ خود علامہ اقبال اسی حوالے سے فرماتے ہیں:
کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوٰۃ و درود لب پہ صلوٰۃ و درود
اسی شہر کے ایک عارف باللہ شاعر صفت نعت گو کہتے ہیں:
مداح تیری ذات گرامی کے ہیں سارے
حوریں بھی فرشتے بھی انساں بھی خدا بھی
اے زائر درگاہ نبیؐ جائے ادب ہے
آئے نہ تیرے دل کے دھڑکنے کی صدابھی
ابتدائے آفرینش سے شروع ہونے والاتذکار سیرت محمدﷺ کا یہ عمل آج تک جاری ہے اور انتہائے آفرینش تک جاری رہے گا۔
اسی تسلسل کی ایک کڑی ’’السیرۃ النبویۃالصحیحہ‘‘ہے۔
کتاب کے سر ورق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل کتاب عربی زبان میں لکھی گئی۔ کتاب مذکور کو اُردوکا قالب جناب خدا بخش کلیار نے دیا ہے۔خدابخش کلیار صاحب پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ عمر بھرقانون کی گتھیاں سلجھاتے رہے۔ جب وکالت کے پیشے میں جھوٹ کی آمیزش بڑھی پھر جھوٹ ہی اصل وکالت بن گئی تو انہیں وکالت سے گھن آنے لگی اوراس پیشے سے علیحدہ ہو گئے۔ اور قلم و قرطاس کے ہو کر رہ گئے۔ اب تک ان کی سات ضخیم کتابیں چھپ کر آ چکی ہیں۔ اہل علم سے داد سخن حاصل کر چکی ہیں اور ان کتب میں اسلام میں عبادت کا حقیقی مفہوم، فلسفہ قرآن و سائنس۔ انسان اعظم سیرت پاک کا معطر جھونکا اور اسلام کا نظام سیاست بڑی معرکہ والی تصانیف ہیں۔ جب تک علم اور اہل علم زندہ ہیں یہ کتب آپ کو علمی دنیا میں دوامی زندگی عطا کرتی رہیں گی۔قانون کے علاوہ اللہ نے آپ کو دینی علمی ذوق کا بھی وافر حصہ عطاکیا ہے۔ عربی زبان پر بھی خوب عبور رکھتے ہیں۔ آپ کی زندگی متدّین اور اتقا کا نمونہ ہے۔اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے۔
مصنف کتاب اور مترجم کتاب کے حالات کا تذکرہ پوری کتاب میں کہیں نظر نہیں آتا۔ جو دونوں حضرات کے متدّین اور تقویٰ و طہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صرف کتاب کے سرورق پر یہ الفاظ ملتے ہیں۔ یہ الفاظ بھی ان کے اپنے نہیں ہیں۔ کسی اور کا تبصرہ ہے، فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب عالم عرب میں سیرت نبویؐ کے عظیم استاد ضیاء العمری کی تیس سالہ محنت و ریاضت کا ثمرہ ہے جو اپنے منہج سیرت، اسلوب تحقیق، واقعاتی صحت و استشہاد حدیث و تاریخ میں تطبیق مستشرقین کے اعتراضات کی مدلل تردید اور محدثانہ سیرت نگار کا ایک جامع شاہکار ہے۔‘‘
مصنف کے بارے میں ہماری معلومات اسی سر ورق کی عبارت سے مستنبط ہیں۔اس تحریر کے علاوہ پوری کتاب میں آپ کا نام و پتا کہیں نہیں ملتا۔ کسی شاعر نے کہا تھا:
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
مصنف و مترجم دونوں حضرات اسی شعر کے مصداق ہیں۔مصنف کتاب ضیاء العمری موصوف بیس برس تک جامعہ بغداد میں تدریس سیرتؐ کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی کلاسز کو پڑھایا۔ اس دوران انہوں نے اپنے لیکچرز کی تیاری میں کئی وقیع مقالات لکھے جوشائع بھی ہوئے۔ کتاب کے آغا ز میں طویل مقدمہ ہے جو 75 صفحات تک ممتدہے۔ جس میں آغاز اسلام میں تاریخ نویسی کے اسلوب پر بحث کی گئی ہے۔ نیز سیرت نبوی کے مصادر کو زیر بحث لایا گیا ہے۔مقدمہ میں مصنف نے مشورہ دیا ہے کہ روایت میں اسناد کی تنقید کے حوالے سے غفلت برتی گئی ہے اور متون کی تنقید پر اکتفا باہم متعارض روایات کے معاملے میں تشکیک پیدا کر سکتا ہے۔(1)وہ فرماتے ہیں کہ اسناد کی تنقید میں ایک محقق کوحتمی طور پر محدثین کا طریق کار ہی اختیار کرنا چاہیے مگر تاریخی تذکروں میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں جن کا حل مشکل ہو گا۔
ان کے نزدیک محدثین کا منہج اسناد پر ہے جبکہ مغرب والوں نے تنقیدی منہج کو اپنایا ہے۔ یہاں وہ مغربی قلم کاروں کو اسلامی نظریہ کی خصوصیات اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں نے اپنے اسلاف سے وہ کچھ حاصل کیا جو مغربی مؤرخین کو اپنے اسلاف سے نہیں ملا۔
صاحب کتاب مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’ہماری تاریخ کی تدوین اسلامی اسلوب تحریر کے ساتھ پیش کیے جانے کی محتاج ہے۔‘‘
دوسری قوموں کی تاریخ ان قوموں کی آئندہ نسلوں نے خود لکھی۔ اگرچہ اس میں غیروں کا بھی کچھ حصہ ہے اور اصولی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی تاریخ اپنے ہاتھوں مدون کرنے کی ذمہ داری قبول کریں اور یہ کہ ہم اپنی تہذیب، اصولوں اور قدروں کو اپنے مفہوم کے مطابق متعارف کروائیں۔اگرچہ اس کی تدوین میں ہمارے ساتھ دوسروں نے بھی کسی حد تک حصہ لیا ہے مگر ہمارے خیال میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ۔اس لیے کہ اس نے ہمیں دنیا کی نظروں کے سامنے جس طرح پیش کیا ہے، وہ مبنی بر حقیقت نہیں۔
اس سلسلے میں ہم صاحب کتاب کے پورے مؤید ہیں۔ اس لیے اگر صرف تاریخی معلومات ہی کو مد نظر رکھا جائے تو قدم قدم پر الجھاؤ پیدا ہوتا ہے او رہر لمحے حقیقت کے دریچے بند ہونے لگتے ہیں۔یہی چیز فرقہ بندی کے دریچوں کو کھولتی محسوس ہوتی ہے۔اس لیے ہمیں تاریخ سے استشھاد کرنے کی بجائے کتاب وسنت ہی سے استشھاد کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ تاریخ کی وضاحت کے لیے اسلامی تصور کی خصوصیات کو چھ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
1۔ قرآن کریم میں بیان کردہ آفاقی حقائق
2۔ صدر اسلام میں مسلمانوں کے طرز عمل کی حرکات
3۔ اللہ کے ساتھ تعلق کے معیار پر تہذیب کی جانچ پرکھ
4۔ صدر اسلام کی تاریخ کی وضاحت میں جواز کی منطق کو بنیاد بنانے کی تردید
5۔ تدوین تاریخ میں شرعی اصطلاحات کا استعمال
اس طویل مقدمے کے بعد مؤلف نے سیرت کے اصل موضوعات پر قلمی وضاحت کی ہے۔اس حوالے سے ان کی کتاب کے عناوین اس طرح ہیں:
1۔ رسول اللہﷺ مکہ میں
اس عنوان کے تحت آپ کی پیدائش سے قبل یعنی بطن مادر سے لے کر مدینہ منورہ ہجرت تک کے تفصیلی واقعات ہیں جن کو نقد و نظر کی چھلنی سے گزارا گیا ہے۔
الفصل الثانی:
اس فصل کا عنوان’’رسول اللہﷺ مدینہ میں‘‘ہے۔اس میں مدنی معاشرے کی خصوصیات، اس کے ابتدائی انتظامات او ریہودیوں کی جلا وطنی جیسے مباحث ہیں۔
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے جس کی طرف ہمارے معاشرے کی توجہ نہیں ہے۔صاحب کتاب کے مطابق آج کل فصلوں میں سپرے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ یہ ادویات عموماً یورپی ممالک کی ایجاد ہیں جس کے نقصانات اب سامنے آنے لگے ہیں۔رسول اللہﷺ نے لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے باغوں کی کھجوروں کا صدقہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان پھلوں کو پہنچنے والی بیماری سے بچائے۔(3) کاش ہمارے زمیندار اس علاج کی طرف توجہ کریں۔ کتاب میں ایسے جدید مسائل کا حل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں اجاگر کیا گیا ہے۔ کمیونزم میں اس بات کا بہت شور مچایا گیا کہ دنیا میں غربت کیوں ہے۔ اگر اللہ رازق ہے تو اس کی مخلوق میں سب انسانوں کو یکساں ہونا چاہیے اس کا جواب صاحب کتاب نے قرآن سے تلاش کیا۔
ترجمہ : ’’اگر اللہ اپنے سب بندوں کو کھلا رزق دے دیتاتو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کر دیتے مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہے نازل کرتا ہے یقیناًوہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور ان پر نگاہ رکھتا ہے۔‘‘(جاری ہے)
صاحب کتاب نے بیان کردہ روایات کو جمع کرنے میں بڑی دقت نظر سے کام لیا ہے۔ وہ اہل صفہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اہل صفہ کے بارے میں سب سے پہلے لکھنے والے محمد بن سعد المتوفی 230 ھ ہیں۔انہوں نے جوکچھ بیان کیا ہے وہ واقدی سے لیا ہے۔ لیکن واقدی کی کتاب مغازی میں یہ نصوص موجود نہیں ہیں۔ ان کے مطابق شاید یہ معلومات ان کی دوسری کتاب طبقات سے لی گئی ہوں جبکہ وہ کتاب نایاب ہے۔
اسی طرح کی مثال میثاق مدینہ کے حوالے سے بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے جس سے مؤلف کی دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے جو انہوں نے کسی بھی تحریر کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں اختیار کیں۔
وثائق کے بارے میں صاحب کتاب نے لکھا ہے کہ یہ دو وثیقہ جات تھے۔ ایک وہ جو یہودیوں کے ساتھ ہوا، یہ معاہدہ بدر اولیٰ سے پہلے مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے وقت لکھا گیا۔ دوسرا مہاجرین و انصار کے ساتھ ہوایہ بدر کے بعد لکھا گیا۔ صاحب کتاب کے مطابق مؤرخین نے دونوں معاہدات کو یکجا کر دیاہے۔
تیسری فصل کا عنوان ’’مشرکین کے خلاف جہاد‘‘ ہے۔
اس کے آغاز میں جہاد کے احکام کا تذکرہ ہے۔ اس ضمن میں صاحب کتاب فرماتے ہیں کہ: ’’سب سے پہلے مستشرقین نے اپنی تحریروں میں جہاد کے خلاف غلط بیانی سے کام لیا اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔‘‘
قلم و قرطاس کے واقعے کو بعض لوگوں نے غیر معمولی اہمیت دی ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں آج تک فرقہ بندی ہے۔صاحب کتاب نے اس واقعہ کو غیر معمولی نہیں بلکہ معمولی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق رسول اللہﷺ نے اپنی وفات سے چار روز قبل قلم اور کاغذ طلب فرمایا لیکن اس وقت بیماری کا حملہ شدید تھا۔ اس لیے صحابہ میں دو طبقے ہو گئے ایک طبقے کا خیال تھا کہ اب رسول اللہﷺ کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ یہ رائے غالب آئی۔ صاحب کتاب کا کہنا ہے کہ کاغذ قلم منگوانے کا معاملہ اتنا اہم اگر ہوتا تو آپ چار روز میں دوبارہ بھی منگوا سکتے تھے۔ لیکن آپ کا پھر مطالبہ نہ کرنا اس بات کو معمولی قرار دینے کے لیے کافی ہے۔
چوتھی فصل کا عنوان رسالت اور رسولﷺ ہے۔آخری باب میں صاحب کتاب نے دو باتوں کی خاص طور پر وضاحت کی ہے۔ ایک بشریت رسول اور الوہیت رب۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں میں انسانوں کو فرق رکھنا چاہیے۔ (ایسا محسوس ہوتا ہے) دوسری اہم ترین بات انہوں نے ختم نبوت اور رسالت اسلامی کا عموم کہ صاحب کتاب نے یہ دونوں باتیں برصغیر پاک و ہند کے تناظر میں لکھی ہیں۔
اوّل الذکر مسئلے کے حوالے سے برصغیرمیں دو مضبوط نظریات نے جنم لیا اور مضبوط دھڑے قائم ہوئے۔ جن میں خلیج بڑھتی ہی جا رہی ہے جبکہ مؤخر الذکر نے تو گمراہی کے دریچے کو وا کیا جس کی بیخ کنی میں کم و بیش ایک صدی درکار ہوئی۔بالآ خر یہ معرکہ سر ہوا۔ 1974 ء میں اس طبقے کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی اس کی بازگشت سنائی دی گئی اور اوّل الذکر کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’بلاشبہ انبیاء علیہ السلام انسانوں میں سب سے زیادہ الوہیت کی حقیقت اور معبود حقیقی کی عبادت کے استحقاق کی معرفت کا شعور رکھنے والے ہوتے ہیں اور وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی الہٰی کے علم کے لیے مختص کیا ہوتاہے چنانچہ وہ اس فرق سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے حق کیا ہے۔لہٰذا قرآن کریم نے انبیاء علیہ السلام کو منع فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی بجائے لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف متوجہ کریں۔انہوں نے استشھاد میں قرآن کی اس آیت کو پیش کیا:
’’مَاکَانَ لِبَشَرٍاَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ‘‘(آل عمران: 79)
اس ضمن میں صاحب کتاب یہ بھی لکھتے ہیں کہ: ’’اسلام کی طویل تاریخ میں نبی کی حقیقت کے بارے میں کبھی کوئی ابہام پیدا نہیں ہوا جبکہ نصرانیت کی تاریخ میں المسیح کی حقیقت کا مقدمہ کھڑا ہوا کہ کیا وہ الوہیت ہیں یا بشریت یا دونوں کا مجموعہ ہیں۔(8)
یہاں اس بات کا تذکرہ ہرگز غیر ضروری نہیں کہ بعض مقامات پر مترجم نے عجمی الفاظ خصوصاً ہندی الفاظ کواستعمال کیا ہے جن کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو تھوڑی دقت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً
وہ امام بخاری کی نسبت اپنی کتاب کی توضیحات کے مطابق روایت کو تقسیم کرنے کی طرف دھیان کم دیتے ہیں۔ یہاں لفظ دھیان کی بجائے توجہ استعمال کیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ اس قسم کی مثالیں چند اور مقامات پر بھی ملتی ہیں۔
بہر حال ’’السیرۃ النبویۃالصحیحہ‘‘سیرۃ پر لکھی انتہائی اہم دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ سلیس اور بامحاورہ ہے۔ جو عربی سے نابلد حضرات کے لیے انتہائی اہم ہے۔اور عربی عبارت کی تفہیم میں بہت ممدو معاون ہے۔ ہماری دانست میں کتاب ’’السیرۃ النبویۃالصحیحہ‘‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے لیے مالا بدمنہ کا درجہ رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ کتاب کے مؤلف اور مترجم دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کی مساعی کو شرف قبول عطا کرے۔