معلوماتی سفرنامہ۔۔۔اکتیسویں قسط
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
خدا کو سجد ہ کرنا بڑی بات ہے۔ پہلے زمانے میں اس کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑتی تھی۔ اس دور میں الحمدللہ ایسا نہیں ہوتا مگر بعض اوقات یہ قیمت دوسری شکلوں میں دینی پڑجاتی ہے۔ ایک لطیفے میں یہ بات اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ایک صاحب جوتیاں آگے رکھے نماز پڑھ رہے تھے۔کسی نے ان سے کہا کہ حضرت جوتیاں آگے رکھنے سے نماز نہیں ہوتی۔ ان صاحب نے جواب دیا کہ جوتیا ں پیچھے رکھنے سے جوتیاں نہیں ہوتیں۔اپنی شادی کے بعد پہلی مرتبہ میں بیگم کے ساتھ حرم آیا۔انہوں نے شاید نماز نہ ہونے والی بات سن رکھی تھی۔ اس لیے نماز کے وقت جوتیاں پیچھے رکھیں۔لیکن اپنا پرس آگے ہی رکھا کیونکہ اس سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ پہلی رکعت میں جب وہ پہلا سجدہ کرکے اٹھیں تو سجدہ ہوگیا مگر پرس نہیں رہا تھا۔وہ غریب یہاں نئی تھی اس لیے یہ سمجھ کر کہ حرم سے پرس کیسے چوری ہوسکتا ہے، آگے پیچھے ہوگیاہوگا، اطمینان سے نماز پوری کی۔موصوفہ تواس سانحے کے بعد رو دھوکر فارغ ہوگئیں مگر ان کی اس سادگی کے نتائج مجھے اور میرے سسر کو اگلے دو مہینے تک بھگتنے پڑے۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔تیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جہاں ہر طرف منڈلاتے گدھ لوگوں کی محفوظ جیبوں کو نہیں چھوڑتے وہ زمین پر رکھے ہوئے، ’’دعوتِ گناہ‘‘ دیتے پرس کو کیا چھوڑتے۔پرس میں زیادہ رقم تو نہ تھی مگر اقامہ (سعودی عرب میں قیام کا اجازت نامہ)موجود تھا۔ ان کا نیا اقامہ بننے کی فیس ، جو اس پرس کے ساتھ گیا تھا، تقریباََ 53ہزار پاکستانی روپے کے برابر پڑی۔ اس کے علاوہ پولیس رپورٹ اور دیگر خواری اپنی جگہ تھی۔ بہرحال ہرشخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیسوں اور چیزوں کے معاملے میں محتاط رہے اور اپنی جیب کے بجائے چیزیں احرام کی بیلٹ (Pouch)میں رکھے۔ اس کے علاوہ اگر جیب میں کچھ ہے تو بار بار اپنی جیب کو بھی چیک کرتا رہے۔
بھاگتے چورکی لنگوٹی
چوتھی چیز جو حر م میں معمول بن گئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان سے آئے ہوئے بعض بدبخت وہاں موجود لوگوں کو کوئی فرضی دکھ بھری کہانی سناکر ان سے رقم اینٹھتے ہیں۔ یہ کہانی کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہے کہ میں عمرہ کرنے پاکستان یا سعودی عرب کے کسی دوسرے شہر سے آیا ہوں۔ میرا پرس اور سامان چوری ہوگیاہے۔ خدا کے لیے میری مدد کرو۔ یہ لوگ بالعموم گروہ کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ماں ، بہن ، بھائی، اولاد پوری فیملی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات چوری کے کاغذی ثبوت یعنی پولیس رپورٹ بھی ساتھ لے کر گھومتے ہیں۔ اتنا پکا کیس بناتے ہیں کہ نئے آدمی کو کہیں بھی جھول نظر نہیںآسکتا۔ پچھلے رمضان میں ایسی ایک فیملی کو میں 200ریال دے چکا تھا۔ مگر اُس روز اسی جگہ بیٹھے بیٹھے جب دو مزید ایسے ہی کیس سامنے آئے تو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ تو فراڈ ہوتے ہیں۔
اس دفعہ بھی میں جب عمرہ کرکے فارغ ہوا اور مروہ سے واپس حرم کی طرف جارہا تھا تو احرام پہنے ایک لڑکا میرے پاس آیااور پوچھا کہ آپ یہیں رہتے ہیں۔ میں نے کہا آپ کام بتاؤ۔ جواب میں اس نے تفصیلات کے معمولی فرق کے ساتھ اوپر والی کہانی دہرادی۔ میں خاموشی سے سنتارہا۔ جب وہ خاموش ہوگیا تو میں نے کہا کہ نوجوان تم نے یہ تو پوچھ لیا کہ میں کہاں رہتا ہوں مگر یہ نہیں پوچھا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ میں تم جیسے لوگوں کو پکڑنے کی خصوصی ڈیوٹی پر ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے زور سے اس کا بازو پکڑ لیا۔ میں نے پولیس والوں کے انداز میں اس سے کہاکہ اپنا اقامہ نکالو۔ وہ بری طرح گھبراگیا۔کہنے لگا کہ میری امی کے پاس ہے۔ میں نے کہا کہ چلو پہلے تمہاری اماں کے پاس چلتے ہیں پھر دونوں کو جیل میں ڈالیں گے۔ اس کو اندازہ ہوگیا کہ آج وہ بہت برا پھنس گیا ہے۔ میری منت سماجت کرنے لگا۔ مگر میں اسے بھرپور سبق دینا چاہتا تھا تاکہ آئندہ خدا کے گھر میں دھوکہ دہی کا کام نہ کرے۔ جب اس نے دیکھ لیا کہ اب بچنے کی امید نہیں ہے تو کہنے لگا بھائی میرا ہاتھ چھوڑ دو تم جہاں کہوگے میں چلوں گا۔ میں نے جیسے ہی اس کا ہاتھ چھوڑا وہ کمان سے نکلے تیر کی طرح دوڑا اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ بھاگتے ہوئے وہ اپنے احرام کی چادر بھی چھوڑ گیا۔ جب جان کے لالے پڑے ہوں تو چادر کون دیکھتا ہے۔
بہرحال یہ چار چیزیں جو میں نے عرض کی ہیں۔ ان کے ضمن میں محتاط رہنا چاہیے۔ ان تمام کے بارے میں براہِ راست مجھے ، میرے بھائیوں یا جاننے والوں کو بہت تلخ تجربات ہوچکے ہیں۔ میں نے سعودی عرب میں تین چار سال قیام کیا ہے اور الحمد للہ حرم میں بہت وقت گزارا ہے۔ اس لیے مجھے بہت سے ایسے معاملات کا علم ہے جو نئے آنے والوں کو بالکل نہیں ہوتا۔ میں نے کتنی دفعہ ایسی حرکتوں کے مرتکبین کو پولیس کے ہاتھوں پٹتے اور ان کے ستائے ہوئے لوگوں کو روتے دیکھا ہے۔ ان کے شر سے بچنے کا طریقہ احتیاط ہی ہے۔
حرم میں یاد رکھنے والی باتیں
میرے پیکج میں تین دن مکہ کی رہائش تھی اور تین دن مدینے کی۔ مگر مکہ میں میرا قیام پورے ایک ہفتے رہا۔ دراصل کینیڈ امیں میں نے ایجنٹ کو بتادیا تھا کہ میں آپ کے ہوٹل میں نہیں ٹھہروں گا۔اس لیے ایجنٹ نے میرا سارا قیام مکہ کا رکھ دیا تھا۔ اب یہاں آکر ان لوگوں نے اہلیہ کو ساتھ رہنے کی اجازت دے دی اس لیے میں ان کے ہوٹل میں رک گیا۔جیسا کہ پیچھے عرض کیا کہ یہ ہوٹل حرم سے ڈیڑھ دو کلومیٹر دور تھا۔ جولائی اگست سعودی عرب کے گرم ترین مہینے ہوتے ہیں۔ صحرا میں درجۂ حرارت 50ڈگری تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ جبکہ شہروں میں پچاس کے آس پاس ہوتا ہے۔ میرا قیام اگست کے پہلے ہفتے میں تھا۔ ان حالات میں ہوٹل سے حرم تک جانا ایسا قیامت خیز مرحلہ تھا کہ حد نہیں۔ مجھے ان لوگوں نے ابتدامیں یہی بتایاکہ مکہ میں آپ کا قیام تین دن کاہے۔ میں نے سوچا ایک دن گزرگیا ہے دو دن اور گزر جائیں گے۔ تین دن کے بعد پتا چلا کہ سات دن کا قیام ہے۔ اس طرح میں نے ساتوں دن اسی ہوٹل میں گزارے۔
میں قرآن سے بہت معمولی سہی مگر شد بد رکھتاہوں۔ مجھے پتا ہے کہ اس سفر میں انسان کو تکلیف دہ باتیں اور کئی طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔ شیطان کی خواہش ہوتی ہے کہ آدمی کا ذہن ان مسائل میں الجھ جائے۔ وہ غصے میں آکر لوگوں سے لڑنے لگے۔ خدا کے گھر میں فسا د برپا کرے تاکہ خدا کی کسی رحمت میں سے اسے کوئی حصہ نہ مل سکے۔ کائنات کا سب سے بڑا بدنصیب وہ ہے جو خدا کے گھر آئے اور خدا کی رحمت کے بجائے اس کاغضب سمیٹ کر لوٹے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی بنا پر زائرین کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے: ’’حج کے مہینے معروف ہیں۔ جو شخص ان میں حج کا عزم کرے اس کے لیے کوئی شہوانی رویہ، کوئی بدکرداری، کو ئی لڑائی جھگڑا جائز نہیں‘‘ ، ( البقرہ 2:197)۔
اس آیت میں لڑائی جھگڑے کے علاوہ دو چیزوں کا اور تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک چیز فسق یعنی بدکرداری ہے۔ یعنی انسان جب یہاں آئے تو اپنے ذہن ، اپنی نیت، اپنے اعمال کو ہر اس چیز سے پاک کردے جس میں اس کے رب کی نافرمانی کا کوئی شائبہ بھی پایا جاتا ہو۔ یہاں وہ نیکی کا حریص بن کر آئے۔ اگر یہ نہ کرسکے توکم از کم گناہ سے ہی خود کو محفوظ رکھے۔ وگرنہ یہاں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔بہت سے لوگ یہاں کے تھکادینے والے اور مشکل حالات میں ذہنی طور پر بہت منتشر ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد ان میں وہ کیفیات پیدا نہیں ہوپاتیں جو اس جگہ کا تقاضہ ہیں۔ لیکن خدا کی رحمت سے امید ہے کہ محض یہاں حاضری کے صلے اور مشقت اٹھا نے کے بدلے میں بندہ رب کی عنایات کا مستحق ہوجائے گا۔ لیکن جس شخص نے اس سفر میں یا اس جگہ پر خدا کی معصیت کا ارتکاب کیا تو اس نے اپنی بربادی کا پورا انتظام کرلیا۔
دوسری چیز رفث یعنی شہوانی حرکات ورویہ ہے۔ اس کا پس منظر بھی وہی ہے جو جدال یعنی لڑائی جھگڑے کا ہے۔ جس طرح تکلیف دہ باتوں پر یہاں آدمی کے مشتعل ہونے کا پورا امکان ہوتا ہے اسی طرح احرام کی ان پابندیوں کی بنا پر جن میں انسان تعلقِ زن و شو قائم نہیں کرپاتا، بہت ممکن ہوتا ہے کہ اس کے دل میں خیالاتِ فاسدہ پیدا ہوجائیں۔ اس کے علاوہ حرم میں خواتین کی بڑی کثرت ہوتی ہے۔ وہ بھی ملک ملک سے آئی ہوئی رنگ برنگی خواتین۔جگہ جگہ مرد و زن کے اختلاط کا موقع ہوتا ہے۔ ایسے میں انسان خود پر قابو نہ پائے تو اس کے سفلی جذبات اسے خدا کے حضور مردود کرواسکتے ہیں۔
حرم میں کبڈی
ایک چیز اور ہے جس کا تذکرہ کرنا میں بہت ضروری خیال کرتا ہوں۔ بہت سے لوگ حرم میں آکر ایسے کام کرتے ہیں جو ان کی دانست میں نیکی کے اعمال ہوتے ہیں مگر درحقیقت وہ خدا کی ناراضی کو دعوت دینے والے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان میں لوگوں کی ایذا رسانی کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ ان میں سب سے پہلی چیز حرم میں کبڈی کھیلنا ہے۔ آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ حرم میں کبڈی کون کھیلے گا۔مگر حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش میں لوگ جو کچھ کرتے ہیں اس کی قریب ترین مشابہت صرف کبڈی کے کھیل میں پائی جاتی ہے۔ جو دھکم پیل ، چھینا جھپٹی اور مارا ماری اس موقع پر ہوتی ہے اس کا تصور وہ شخص نہیں کرسکتا جس نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ کسی بھی شریف آدمی کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ان حالات میں اپنی جان، مال، عزت و آبرو کو خطرے میں ڈالے بغیر حجر اسود کو بوسہ دے۔ حد یہ ہے کہ اس معرکہ آرائی میں بعض اوقات خواتین بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ میرے جیسے لوگ صرف جمعہ کے دن عصر کی نماز سے قبل ہی بوسہ دے پاتے ہیں جب پولیس والے مار پیٹ کر لوگوں کی لائن بنوادیتے ہیں۔
دوسری چیز مقامِ ابراہیم کے پیچھے طواف کے بعد پڑھے جانے والے نوافل ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے بعد یہاں نوافل پڑھے تھے۔ لوگوں نے اس بات کو لے لیا اور وہاں نوافل پڑھنا لازمی خیال کرلیا۔ حالانکہ اکثر اوقات وہاں نوافل پڑھنے سے طواف کرنے والوں کا راستہ رکتا ہے۔ میں نے کتنی دفعہ تو یہ بھی دیکھا کہ دو چار لوگ وہاں نوافل پڑھ رہے ہیں اور ان کے آٹھ دس رشتے دار طواف کرنے والوں کا راستہ روک کر کھڑے ہیں۔ طواف کرنے والو ں کا راستہ روکنا کوئی نیکی نہیں۔ نفل کہیں بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ حتیٰ کے مقامِ ابراہیم سے ذرا اور پیچھے چلے جائیں تو وہ بھی اس کے عقب میں ہی شمار ہوگا۔یہی معاملہ مطاف میں فرض نماز کے لیے بیٹھنے والوں کا ہے۔ طواف کرنے والوں کا رش جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے مطاف ان سے بھرتا جاتا ہے۔ مگرحرم کے سامنے بیٹھنے کے شوقین عملاََ ان کا راستہ روک دیتے ہیں۔ حرم کے سامنے بیٹھنا اچھی بات ہے مگر جب طواف کرنے والوں کو تکلیف ہو تو پھر یہ بری بات بن جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جب سیدناابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیل ؑ کو حرم پاک صاف رکھنے کا حکم دیا تو سب سے پہلے طواف کرنے والوں کا تذکرہ کیا ہے، (البقرہ 2:125 ، الحج 22:26 )۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرم پر پہلا حق طواف کرنے والوں کا ہے۔ اور انہی کی فضیلت سب سے زیادہ ہے۔ دوسروں کے لیے جائز نہیں کہ ان کا راستہ روکیں۔
اس ضمن میں آخری چیز بلند آواز میں دعا کرنا ہے۔ دورانِ طواف بعض لوگ گروپ کی شکل میں اس طرح چلتے ہیں کہ ایک آدمی بہت بلند آواز میں دعائیں پڑھتا جاتا ہے اور بقیہ لوگ پرجوش طریقے سے اس کے الفاظ دہراتے جاتے ہیں۔ ایسی دعائیں کروانے والے بعض پیشہ ور ہوتے ہیں اور بعض وہ جو اپنے ملکو ں سے گروپ کی شکل میں آتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ اپنے اہل خانہ کو اس طرح دعا کرواتے ہیں۔ یہ لوگ شاید اس بات سے واقف نہیں کہ رب کو تو گڑگڑاکر چپکے چپکے پکارا جاتا ہے یہی قرآن کا حکم ہے ،(الاعراف 7: 55)۔ اور یہی اس عزت والی بارگاہ کا ادب ہے۔ اجتماعی دعاکے مواقع اور ہوتے ہیں۔ اس پُر شور دعا میں ایذا رسانی کا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ اپنے رب کو گڑگڑا کر چپکے چپکے پکاررہے ہوتے ہیں و ہ اس چیخ و پکار سے پریشان ہوجاتے ہیں۔
جاری ہے۔ بتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)