گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 71
تقسیم سے پہلے ایک سکھ آئی سی ایس مسٹر ایس پرتاپ سنگھ تھے جنہوں نے اپنے کیس کٹوالئے تھے اور اس طرح گویا انہوں نے سکھ شعار سے بغاوت کی تھی۔ انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ مغلوں کے زمانہ میں دیندار مسلم اکابر اکثر مسلمانوں کو دہلی سے باہر مختلف علاقوں میں اس غرض سے بھیجتے تھے کہ وہ نومسلموں میں روپیہ تقسیم کریں۔ ایک ایسا ہی مسلمان لدھیانہ آیا اور ایک بوڑھے سکھ کے پاس پہنچا جو کھیت میں کام کررہا تھا۔ بوڑھے نے اسلام کی دعوت قبول کرنے میں ایک منٹ کا بھی توقف نہیں کیا اور کہا کہ میرے کچھ بھتیجے اور بھتیجیاں بھی ہیں ،اگر اجازت ہو تو انہیں مشرف باسلام ہونے کے لئے بلالاؤں۔ مسلمان اس اطلاع پر بہت خوش ہوا۔ جب قبولیت اسلام کی جملہ رسوم ادا ہوئیں تو ان نو مسلموں میں پچاس روپے فی کس تقسیم کئے گئے۔ اس پر بوڑھے سکھ نے احتجاج کیا اور کہا ’’ابھی پچھلی بار جب ہمیں مسلمان کیا گیا تھا تو اس وقت فی کس سو روپے دئیے گئے تھے‘‘ یہ حکامتی بڑی پرلطف ہے لیکن محض حکایت ہے کیونکہ اگر مسلمانوں نے پیسے کا لالچ دے کر لوگوں کو مسلمان کیا ہوتو تو دہلی کے مضافت میں سینکڑوں میل تک ہندوؤں کی بستیاں موجود نہ ہوتیں۔ ہندوستان میں اسلام کو ان مسلمان بزرگوں کی کوششوں سے فروغ ملا جو آج ڈیرہ غازی خان، لاہور، پاکپتن، اجمیر اور شمال مغربی علاقوں کے متعدد مقامات پر آسودہ خاک ہیں۔ اسلام کی توسیع میں دنیاوی ترغیبات کو ہرگز کسی طرح کا دخل نہ تھا۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 70 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
موجودہ مسیحی مشنری کا ایک پہلو نہایت اہم ہے۔ اوّل یہ کہ مشنری آبادی کے ایسے کمتر درجہ کا انتخاب کرتے ہیں جنہیں خود ان کے ہموطنوں نے نظر اندازکردیا ہوتا ہے۔ تقسیم کے وقت جبکہ مسلمان غافل تھے۔ انہوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے بڑی پھرتی دکھائی۔ یہ مشنری لاہور کے خاکروبوں کے پاس گئے اور انہیں مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دی۔ خاکروبوں کے پاس گئے اور انہیں مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دی۔ خاکروبوں نے سوچا کہ نیچ ذات کے ہندو ہونے کی بنا پر ممکن ہے وہ مارے جائیں۔ لہٰذا انہوں نے مسیحی عقیدہ قبول کرلیا۔ اس کے بعد مسیحی مشن کی طرف سے انہیں تعلیم دلائی گئی۔ مقامی سکولوں کے مقابلہ میں ان کے لئے بہتر سکولوں کا انتظام کیا گیا۔ ملازمت کے حصول میں ان کی مدد کی گئی اور یوں سماجی طور پر ان کی حیثیت بلند کی گئی۔ عیسائی ہونے کے بعد کوئی شخص اچھوت نہیں رہتا، کیونکہ تعلیم یافتہ ہندو بھی بے تکلف اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ شروع میں جو لوگ نئے نئے عیسائی بنے تھے مشنریوں نے ان کا انگریزی نام رکھ دیا تھا۔ چنانچہ چند نسلوں کے بعد مسٹر جونز کو یہ گمان ہونے لگتا تھا کہ ان کے اجداد ویلز سے آئے تھے لیکن ہندوستان کی قیامت خیز گرمی میں ایک زمانہ گزارنے کے بعد ان کا رنگ کالا ہوگیا۔
یہ پالیسی حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے اور اب عیسائی اپنا اسلامی یا ہندو نام، جو بھی ہو، برقرار رکھتے ہیں۔ بہت سے دیسی عیسائیوں نے ریلوے میں ملازمتیں کرلی تھیں۔ جہاں اینگلو انڈین ملازم پہلے ہی موجود تھے۔ 1920ء او راس کے بعد کے برسوں میں ٹرین کے اندر یورپی لوگوں کے ڈبے مخصوص تھے اور کوئی ہندوستانی، خواہ وہ کتنا ہی عالی مرتبہ کیوں نہ ہو، اس میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ انہی دنوں ایک انتہائی سیاہ فام عیسائی، فرض کرلیجئے مسٹر جونز، ٹرین میں سفر کررہے تھے۔ راستے میں وہ ایک گورے چٹے کشمیری برہمن سے جھگڑ پڑے، جو گورے لوگوں کے ڈبے میں گھسنے کی کوشش کررہا تھا۔ ہوتے ہوتے ان میں ہاتھاپائی ہونے لگی۔ بیچارے مسٹرجونز فرش پر گرپڑے اور ’’نیٹو‘‘ نے ان کے اوپر سوار ہوکر خوب پٹائی کی۔ اینگلو انڈین سٹیشن ماسٹر نے جو یہ قصہ دیکھا تو بھاگا ہوا آیا اور اس نے بھی مسٹر جونز کو دھننا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کر مسٹر جونز کے ملازم نے شور مچادیا کہ ’’صاحب، انگریز تو وہی ہے جسے آپ ماررہے ہیں۔‘‘
متحدہ ہندوستان میں عیسائیوں کی مشنری سرگرمیوں کے خلاف ایک طرح کا تعصب پایا جاتا تھا۔ لوگوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ہندومسلم اختلافات کے علاوہ ایک تیسری طاقت بھی تیار کی جارہی ہے۔ مدارس کے اچھوت تیزی سے عیسائی بنائے جارہے تھے۔ چنانچہ اندیشہ تھا کہ چند لاکھ باشندوں کی ایک مضبوط طاقت جس کے مضبوط تر ہونے کا امکان موجود تھا، تیار کرلی جائیگی۔ مسٹر گاندھی اس صورتحال سے خاص طور پر خفا تھے۔ یہ سوال قریب قریب سبھی ایشیائی اقوام کے ذہنوں میں جاگزیں ہے کہ آیا انکا عیسائی عنصر اپنی غیر مسیحی حکومت کا وفادار رہے گا یا ان کی ہمدردیاں اپنے غیر ملکی عیسائی بھائیوں کے ساتھ ہوگی۔ مذہبی تعصبات بظاہر اب تک خاصی شدت کے ساتھ موجود ہیں اور ایشیائی ملکوں کے بہت سے سیاسی لیڈروں کا یہ خیال ہے
کہ عیسائی مشنری ادارے، ان ملکوں کے متعلق نہایت مفید اطلاعات اپنے ہم مذہب عیسائیوں کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں۔ البتہ عرب عیسائی اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ داخلی امورمیں وہ مسلمان عربوں سے زیادہ عرب دوست ہیں۔(جاری ہے)