دو خبریں،دو ہی اہم مسئلے!

 دو خبریں،دو ہی اہم مسئلے!
 دو خبریں،دو ہی اہم مسئلے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 دل بہت اُداس ہے، یقین مانیں، جی لکھنے پر بھی آمادہ نہیں، صبح سے سوچتا چلا جا رہا ہوں، سوچیں ہیں کہ تھم نہیں رہیں،ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کاش یہ سب کچھ نہ ہوتا، ہم تو مسلسل مفاہمت کی بات کرتے چلے آ رہے ہیں اور اب تو مولانا فضل  الرحمن نے بھی فریقین سے تحمل کی اپیل کی،انہوں نے حکمرانوں کو آئینی ترامیم اور پی ٹی آئی والوں سے احتجاج ملتوی کرنے کو بھی کہا، لیکن شور اتنا ہے کہ ان کی آواز بھی دب گئی۔بہت ہی غم کاحملہ ہے، ایسا تو اُس وقت اور دن بھی نہیں ہوا،جب بھارت نے رات کی تاریکی میں ہماری سرزمین پاک پر حملہ کر دیا تھا،سوچا کیوں نہ آج اپنے اس سکھ بھائی والی تجویز پر عمل کروں،جنہوں نے تین سوئمنگ پول بنائے اور ایک خالی تھا،اس کا جواز یہ دیا کہ ”کبھی نہانے کو دل نہیں بھی چاہتا“ لیکن کیا کِیا جائے ذمہ داری نبھانا اور کاغذ کا پیٹ بھی بھرنا ہے،میں تو مستقل خیر کی دُعا مانگتا چلا آ رہا ہوں،اپنے سخت اور شدید تحفظات اور معلومات کے باوجود احتیاط کی ہے کہ اپنے صحافتی ضابطہ اخلاق سے روگردانی نہ کروں،ورنہ دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے تو بہت کچھ ہے۔بہرحال آج بکھرے خیالات کا اظہار ہی سہی۔

صبح دو مختلف خبریں نظر سے گذریں اور ذہن پر عدالتی ہتھوڑے برسنے کا احساس ہوا، سوچا معمول سے ہٹ کر ان پر ہی بات کر لی جائے،خبر اور تحریر کا ذریعہ بننے والے دونوں حضرات محترم ہیں، بیرسٹر سیف کی سیاست کا سفر ہمارے سامنے ہے، آج کل وہ خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات ہیں،حکومت کی مشاورت تو شاید تنخواہ اور مراعات کے لئے ہے کہ وہ تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی وکالت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔شاید یہ ذمہ داری انہوں نے اپنی وکالت کے عوض قبول کی ہے کہ اس منصب پر رہ کر وہ عدالتوں کے روبرو تو پیش نہیں ہو سکتے۔ بہرحال ذکر تھا، ان کی طرف سے جاری تازہ ترین بیان کا، وہ فرماتے ہیں: بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے آئیں گے تو ہم ان کو خوش آمدید کہیں گے اور اپنے احتجاج میں آنے کی دعوت دیں گے اور کہیں گے کہ وہ بھی پاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے ہمارے احتجاج میں شامل ہو جائیں۔بیرسٹر سیف کی طرف  سے  احتجاج کرنے والوں  کی طرف سے تمام شرکاء اجلاس کو بھی دعوت دینے اور چاء پلانے کا اعلان کیا گیا۔ان کا یہ بیان گذشتہ روز(جمعہ) جاری ہوا اور آج کے اخبار میں موجود ہے،شاید وہ توقع کر رہے تھے کہ ان کے محبوب وزیراعلیٰ اب تک ڈی چوک پہنچ کر اسلام آباد پر ”قبضہ“ کر چکے ہوں گے جو 15،16اکتوبر تک جاری رہے گا اور شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس انہی کی چھتر چھاؤں میں ہو گا۔میرے پاس ان بیرسٹر صاحب کے ایسے بیان پر تبصرہ کرنے کے لئے الفاظ ہی نہیں ہیں،اس لئے فیصلہ قارئین!آپ خود کر لیں کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

میں تو رات بھر مختلف ذرائع سے علی امین گنڈا پور کے قافلے کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن قافلے کی ویسی رفتار نہیں تھی، جو ڈی چوک پہنچنے والی ہونا چاہئے۔بہرحال ان کو ان کے حال پر چھوڑیئے اور یہ غور فرمائیں کہ اپنے وزیر داخلہ/کم صحافی محسن نقوی، آج (ہفتہ) ڈی چوک کے دورے اور ہسپتال میں زخمی پولیس والوں کی عیادت کے لئے گئے تھے۔وہ کہتے ہیں، علی امین کے قافلہ والوں کی طرف سے پولیس پر فائرنگ کی گئی اور85پولیس والے زخمی ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ سوچ سمجھ لیں، جارحیت کے جواب کے لئے ہم تیار ہیں۔وزیر داخلہ نے اس پر تشویش کا اظہار کیا کہ گذشتہ روز128 سے زیادہ افغان باشند پکڑے گئے اور ان سے برآمدگی بھی ہوئی ہے۔وہ ڈی چوک میں بات کر رہے تھے تو علاقہ خالی اور  ویران پڑا تھا۔البتہ سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے کہ ڈی چوک میں ہزاروں انصافیوں کا اجتماع ہے اور وہ پرچم اٹھائے نعرے لگا رہے ہیں،میں سوچ رہا ہوں کاش یہ سب نہ ہو،اس سے ہم سب کو کیا فائدہ ہوا،یہ تو بدنامی اور نقصان کی بات ہے،میں کسی بھی طرف کے بیانات سے متاثر نہیں کہ زندگی بھر متحارب حضرات کے ایسے ہی بیانات اور الزامات سنتا آیا ہوں تاہم صرف اور صرف ایک بات اور دلیل میں وزن محسوس ہوتا ہے کہ2014ء کا دھرنا چینی صدر کی متوقع آمد کے وقت تھا اور موجودہ تحریک شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے پہلے  شروع کی گئی ہے۔اس تحریک کا کوئی عوامی ایجنڈا بھی سامنے نہیں، بلکہ ”مرشد“ کی رہائی ہی پیش نظر ہے۔اِس سلسلے میں،میں عمران خان کی ہمشیرگان اور دوسری خواتین کی حراست پر بھی دُکھ کا اظہار کرتا ہوں کہ ہر خاتون معزز ہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر،بات ختم کرتے ہیں، اور یہ عرض ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے تازہ ترین  بیان پر غور کر لیں،جو اسرائیل اور تحریک انصاف کی تحریک کے حوالے سے ہے۔

دوسری خبر میرے بڑے ہی محترم، قابل ترین عالم اور افسر ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کے خطاب سے لی گئی اور میرے اخبار میں سرخی ہے۔”علماء کرام! ڈینگی کے تدارک کے لئے مستعد ہیں۔ڈاکٹر طاہر بخاری بڑے مستعد اور متحرک افسر ہیں جو اپنی اہلیت اور محنت کے بل بوتے پر صوبائی سیکرٹری کے منصب پر فائز ہیں وہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار مبارک سے    لے کر صوبے بھر کے بزرگوں اور مساجد کی خدمت کے لئے سرگرم رہتے ہیں، وہ باعلم شخصیت ہیں اور میں نے حال ہی میں ان کی تحریر پڑھی جو میرے پرانے شہر اور اس کے باہر ڈیروں / تکیوں کے حوالے سے تھی۔انہوں نے بتایا کہ مغلوں کے دور میں رات کو شہر کے تیرہ دروازے (بارہ دروازے+تیرھویں موری) بند کر دیئے جاتے اور شہری چین کی نیند سوتے تھے، شہر کی فصیل کے باہر بزرگ حضرات کے تکیے/ ڈیرے تھے جو مسافر رات تاخیر سے لاہور پہنچتے اور شہر میں داخلے سے محروم رہتے ہیں وہ ان ڈیروں /تکیوں سے مستفید ہوتے،رات بسر کرتے اور کھانا بھی کھاتے، ڈاکٹر صاحب کی تحریر کے مطابق یہ ڈیرے بتدریج تم ہوتے چلے گئے اور اب لاہور کی مہمان نوازی کا سارا بوجھ حضرت علی ہجویریؒ کی درگاہ پر ہے جہاں لنگر جاری رہتا ہے اور کئی بے سہارا یہاں رات بھی بسر کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض ایسے محنت کش اور زیرک حضرات بھی گزرے،جنہوں نے شب بسری اور لنگر سے مستفید ہو کر اپنا مستقبل سنوار لیا۔

میں نے ذکر ڈاکٹر موصوف کی تقریر کے حوالے سے کیا جو انہوں نے ڈینگی کے مقابلے کی خاطر علماء کرام کے مستعد ہونے کے حوالے سے کی، میرا خیال ہے کہ علماء کرام تو دُعا ہی فرمائیں گے اور دعاؤں سے تو کشمیر فتح نہیں ہوا، چہ جائیکہ ڈینگی مچھر مر جائے،اس کے لئے تو ہمیں شہباز سپیڈ کی ضرورت ہے، جس نے پھیلتی وباء کا خاتمہ کر دیا تھا،لیکن حالیہ اطلاعات کے مطابق تو ڈینگی کا مرض پھیل رہا، ہر روز مریض بڑھ رہے ہیں،لیکن شہباز سپیڈ کہیں نظر نہیں آ رہی،نہ تو اینٹی ڈینگی/ملیریا سٹاف متحرک ہے نہ ہی سپرے ہو رہا اور نہ ہی مختلف نشیبی جگہوں سے جمع پانی نکالا جا رہا اور نہ ہی ضرورت کے مطابق صفائی ہو رہی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ مریم نواز صاحبہ اور ان کی ٹیم بھی سیاسی جھمیلے میں الجھی ہوئی ہے اور یہ شعبہ نظر انداز ہو رہا ہے،مریض بڑھ رہے اور انسدادِ و تحفظ والا عملہ ”ہڈ حرامی“ پر اُترا ہوا ہے،حالانکہ یہ ہر سال اور ہر موسم کا معاملہ ہے،کسی نئی ہدایت کی ضرورت نہیں ہوتی،شاید اسی لئے علماء کرام کی مستعدی کا ذکر کیا گیا کہ اب ہر کام دُعا ہی سے ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -