جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر81

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر81
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر81

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے وضو کیا اور مطلوبہ سامان جو میں نے دن میں ہی خریدلیا تھا لے کر باہر آگیا۔ وظیفہ کھلے آسمان تلے پڑھناتھا۔ میں اللہ کا نام لے کر پڑھائی میں مگن ہوگیا۔ وظیفہ ختم کرتے کرتے دو بج گئے۔ میں کمرے میں تو صائمہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔
’’کہاں چلے گئے تھے ؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’نیند نہیں آرہی تھی اور تم جانتی ہو کہ میں سگریٹ پینے باہر چلا جاتا ہوں‘‘ میں نے کہا۔’’لیکن تم کیوں جاگ رہی ہو؟‘‘
’’ابھی آنکھ کھلی ہے میں تو بے خبر سو رہی تھی‘‘ اس نے جمائی لیتے ہوئے بتایا۔میں چاہتا تھا سونے سے پہلے شاور لے لوں اس لئے میں باتھ روم جانے لگا۔
’’جلدی سے نہا کر سو جائیں صبح آپ نے آفس بھی جانا ہے‘‘ وہ انگڑائی لیتے ہوئے بولی۔
’’بس دو منٹ میں آیا‘‘ ابھی میں باتھ روم کے دروزے تک بھی نہ پہنچا تاکہ پیچھے سے صائمہ کی آواز آئی۔

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر80  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’موہن!‘‘
اگر ساتوں آسمان ایک ساتھ میرے سر پر گر پڑتے تو بھی میں اتنا حیران نہ ہوتا جتنا صائمہ کی آواز سن کر ہوا تھا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے مڑا۔ صائمہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’’پی۔۔۔تت۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ میں ہکلا کر رہ گیا۔وہ چونک کرمیری طرف دیکھنے لگی۔
’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا‘‘ وہ جما ہی لیتے ہوئے بولی۔
’’ابھی تم نے کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔
’’میں کہہ رہی تھی جلدی سے نہا کر سوجائیں آپ نے صبح آفس جاناہے۔‘‘ اس نے وہی بات دہرائی جو تھوڑی دیر پہلے کہہ چکی تھی۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا وہ یوں بے نیاز نظر آرہی تھی جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلی تھیں۔ جب میں باتھ روم سے فارغ ہو کر باہر آیا تو وہ گہری نیند میں تھی۔ کہیں یہ سب کچھ جان بوجھ کر تو نہیں کررہی؟ میں نے سوچا۔ لیکن رادھانے بھی کہا تھا کہ صائمہ پر کوئی طاقتور جن قابض ہوگیاہے ہوسکتا ہے رادھا اپنے مقصد کے لئے کہہ رہی ہو کہ اس طرح میں اسکا محتاج بنا رہوں۔میرے دل میں خیال آیا۔ لیکن ملنگ توجھوٹ نہیں بول سکتا۔ پھر یہ سب کیا ہے؟ میرا دماغ چکرا رہا تھا۔ صائمہ کا مجھے موہن کہنا نہ سمجھ میں آنے والی بات تھی۔
’’یا خدا میں کن مصائب میں پھنس گیا ہوں؟‘‘ میں نے دکھتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ صائمہ بے خبر سو رہی تھیا ورنیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ ملنگ نے کہا تھا کہ وظیفہ مکمل کرنے کے بعد سوجاؤں اورجو کچھ خواب میں نظر آئے وہ محمد شریف کو بتا دوں لیکن نیند پرکسے اختیار ہے؟ میں جاگتا رہا۔ آخر کار نیند مجھ پرمہربان ہوگئی۔ خواب میں دیکھا ایک ویران سی جگہ ہے جہاں میں صائمہ کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔ میں اسے آوازیں دیتا ہوں لیکن اس کا کہیں پتا نہیں۔ اتنے میں ایک بزرگ نظر آتا ہے جوایک گٹھڑی اٹھائے جا رہا ہے۔ میں اسے آواز دیتاہوں وہ مڑ کرمیری طرف دیکھتا ہے میں اس کے نزدیک جا کر اسے سلام کرتاہوں۔ وہ گٹھڑی زمین پر پھینک دیتا ہے۔ میرے سلام کا جواب دے کر وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ میں اسے بتاتا ہوں میں اور میری بیوی کسی کام سے ادھر آئے تھے اب وہ کہیں نظر آرہی۔ کیا آپ نے اسے دیکھا ہے؟ وہ مسکراتاہے۔
’’یہ گٹھڑی اٹھا کر میرے گھر پہنچا دو تو میں تمہیں تمہاری بیوی کا پتا بتا دوں گا‘‘ وہ گٹھڑی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میں گٹھڑی اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ بہت بھاری ہوتی ہے۔ باوجود کوشش کے میں کامیاب نہیں ہوتا بے بسی سے اس بزرگ کی طرف دیکھتاہوں۔
’’بابا جی! میرے بچے گھر میں اکیلے ہیں شام ہو رہی ہے اگرمیں جلدی گھر نہ پہنچا تو وہ پریشان ہوں گے۔ مہربانی کرکے آپ مجھے صائمہ کا پتا بتا دیں‘‘ آخر کار ناکام ہو کرمیں اس بزرگ سے درخواست کرتا ہوں۔
’’جو کچھ میں نے کہا ہے اگر کر سکتے ہو تو کہو نہیں تو میں جاتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ گٹھڑی اٹھانے لگتا ہے۔ میں جلدی سے جھک کر دوبارہ کوشش کرنے لگتاہوں۔ لیکن گٹھری بہت وزنی ہوتی ہے۔ میری کوشش کو ناکام ہوتے دیکھ کر وہ کہتا ہے۔
’’آیۃ الکرسی پڑھ کر اٹھاؤ‘‘ میں اس کی ہدایت پر عمل کرتا ہوں اس بار وہ گٹھڑی مجھے بہت ہلکی محسوس ہوتی ہے وہ مسکرا کر چل پڑتا ہے میں جلدی سے اسکا پیچھا کرتا ہوں۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک کوٹھڑی آجاتی ہے بوڑھا اسکے سامنے رک کر کہتا ہے۔
’’اس کے اندر لے جا کر رکھ دو‘‘ میں جلدی سے اندر داخل ہوتا ہوں اور گٹھڑی زمین پر پھینک کر باہر نکلتاہوں تو وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن چاروں طرف دیکھتا ہوں لق دوق میدان ہے کوئی بندہ نا پرندہ۔میں اس بزرگ کو آوازیں دیتا ہوں لیکن کوئی ہو تو سنے۔ آخر کار تھک ہارکرمیں وہیں بیٹھ جاتا ہوں میرا دل اپنی بے بسی کے احساس سے بھر آتا ہے اورمیری آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ میں جی بھرکر روتا ہوں۔ اتنے میں کیا دیکھتاہوں سفید لباس اور بڑی سی چادرمیں ملبوس ایک نہایت حسین لڑکی آتی ہے اس کے پاکیزہ چہرے پرملکوتی مسکراہٹ ہے۔
’’کیا بات ہے کیوں پریشان ہو؟ ‘‘ وہ مجھ سے پوچھتی ہے۔
’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سے سوال کرتا ہوں۔
’’میں رادھا ہوں‘‘ وہ کہتی ہے۔
’’رادھا۔۔۔؟ تم رادھا کیسے ہو سکتی ہو؟‘‘ میں حیرت بھرے لہجے میں سوال کرتا ہوں۔
’’میں رادھا ہی ہوں۔۔۔تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ وہ پوچھتی ہے۔
’’میری بیوی کہیں چلی گئی ہے مجھے گھر جانا ہے شام ہو رہی ہے بچے گھرمیں اکیلے ہیں۔ ایک بزرگ مجھے یہاں یہ کہہ کر لایا تھاکہ وہ مجے میری بیوی کے بارے میں بتا دے گا لیکن وہ کہیں چلا گیا۔ اسنے اپنا کام نکلوا لیا اب غائب ہوگیا ہے میری بیوی کاپتا بھی نہیں بتایا‘‘ میں اسے بتاتا ہوں۔
’’یوں نہیں کہتے وہ بزرگ بڑا نیک انسان ہے جھوٹ نہیں بولتا۔ اگر اس نے کہا ہے کہ وہ تمہیں بتا دے گا تو ضرور بتائے گا اور ہاں میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔ کیونکہ تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے‘‘
’’میں نے تم پر کیا احسان کیا ہے‘‘ میں حیران ہو کر پوچھتا ہوں۔
’’وقت آنے پر بتا دوں گی۔ چلو اٹھو۔‘‘
وہ کہتی ہے اور واپس مڑ کر روانہ ہو جاتی ہے۔ میں اس کے پیچھے چل پڑتاہوں ۔ کسی نے جھنجھوڑ کر مجھے جگا دیا۔
’’فاروق‘‘ اٹھیں دیکھیں ساڑھے سات بج گئے ہیں بچوں نے سکول جانا ہے‘‘ صائمہ میرے اوپر جھکی کہہ رہی تھی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔
’’جلدی سے تیار ہو جائیں میں ناشتہ لگاتی ہوں‘‘ اسنے کہا اور کچن کی طرچ چلی گئی۔ میری فجر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔ بچے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر پہنچ چکے تھے۔ میں نے جلدی سے وضو کیا اور قضا نماز ادا کی پھر تیار ہو کر ناشتہ کرکے بینک روانہ ہوگیا۔ میں جلد از جلد محمد شریف کو اپنا خواب سنانا چاہتا تھا۔ جس کی مجھے قطعاً سمجھ نہ آئی تھی۔ بینک پہنچ کر میں نے سب سے پہلے محمد شریف کو بلوایا۔ اسے ساری بات بتائی اس کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔
’’اللہ تعالیٰ بڑا مہربان اور زبردست قدرت والا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’محمد شریف میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا۔ اس خواب کی کیا تعبیر ہے؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ۔
’’آج را ت میں حضرت صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا مجھے اللہ پاک سے امید ہے کہ بہت جلد آپ کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔‘‘ اس نے کہا اور جانے کی اجازت چاہی۔
’’محمد شریف کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔ اس خواب کی کیا تعبیرہے؟‘‘ میں نے اسے اٹھتے دیکھ کر جلدی سے پوچھا۔
’’آپ یقین کریں جناب عالی! مجھے بھی کچھ معلوم نہیں میں آج رات حضرت صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا اگر اللہ کے حکم سے کامیاب ہوگیا تو انہیں سب کچھ بتا دوں گا پھر وہ جیسا حکم کریں گے اس پر عمل کرنا ہوگا۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے لیکن یاد سے رابطہ کرلینا۔ میں اس معاملے میں سخت پریشان ہوں‘ میں نے اسے تاکید کی۔
’’آپ بے فکر ہو جائیں اللہ تعالیٰ کرم کرے گا۔‘‘ مجھے تسلی دے کر وہ باہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں کام میں مصروف ہوگیا۔ لیکن دل کسی شے میں نہ لگ رہا تھا۔ بار بار صائمہ کا خیال آرہا تھا۔ صبح اس کی طبیعت ٹھیک تھی لینک ۔۔۔خدانخواستہ پھر خراب نہ ہوگئی ہو میں نے سوچا اور گھر کا نمبر ڈائل کیا۔ حسب معمول گھنٹی بجتی رہی لیکن اسنے فون نہیں اٹھایا۔ کئی بار کوشش کرنے پر نتیجہ وہی رہا تو میں گاڑی کی چابی اٹھا کر جلدی سے باہر نکل آیا۔(جاری ہے )

جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر82 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

رادھا -