قومیں تعلیم اور انسانوں سے بنتی ہیں سونے چاندی سے نہیں، ڈاکٹر دلاور حسین نے سیکرٹری تعلیم سے سے اپنی لکھی ہوئی پالیسی واپس لی اور گھر آگئے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:11
ڈاکٹر دلاور حسین اور تعلیمی پالیسی؛
انکل شاہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا؛”تمھارے دادا جب انگلستان سے تعلیم حاصل کرکے واپس آئے تو سارا علاقہ انہیں ”صاحب رشید“ کے نام سے پکارنے لگا۔ وہ سر پر ”سولہ ہیٹ“ پہنتے تھے۔وہ بارعب، خوش گفتار،خوش لباس شخصیت تھے۔سجان پور سے پٹھانکوٹ ۸/۰۱ میل تھا۔ چار میل کے فاصلے پر مولانا مودودی کی لائیبری اور گھر ”دارالاسلام“ تھا۔ میرے والد اور تمھارے دادا کے ان سے قریبی مراسم اور نیاز مندی تھی۔“ ان کی بات سن کے مجھے یاد آیا والد بتایا کرتے تھے؛”بیٹا! میں تمھارے دادا کے ساتھ کئی بار مولانا مودوی کو ملا تھا۔“ انکل پھر بتانے لگے؛”ہم نے پرائمری تعلیم سجان پور سے ہی حاصل کی جبکہ میٹرک میں نے پٹھانکوٹ اور تمھارے والد نے شاہ پور صدر سرگودھا سے کی جہاں تمھارے دادا کی پوسٹنگ تھی۔تمھارے والد ایم اے او کالج امرتسر(اس کا پرانا نام سنا تھم دھرم کالج تھا) میں داخلہ لیا۔ اسی طرح اسلامیہ کالج کا پرانا نام ڈی آئی وی کالج تھا۔(Dayanand Anglo Vedic College تھا)چلے گئے اور میں گورنمنٹ کالج لاہور۔پاکستان بننے کے بعد تیرے والد ایم اے او کالج لاہور آگئے جہاں ان کے کالج کے نسپل ڈاکٹر دلاور حسین سے بڑا احترام اور محبت کا رشتہ قائم ہوا اور آخری دنوں تک قائم رہا۔ابا جی مرحوم نے مجھے بتایا تھا؛ بیٹا! ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرا بہت احترام کا رشتہ تھا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر بھی جب کبھی لاہور آنا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب سے ضرور ملاقات ہوتی تھی۔ ایک دفعہ آیا تو کہنے لگے؛”برخودار!(بر خودار ڈاکٹر صاحب کا تکیہ کلام تھا۔)میرے ساتھ آؤ۔ سیکرٹری تعلیم کو ملنا ہے۔“ میں ساتھ چلا گیا۔ اس نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ؛”سر! پنجاب کے لئے تعلیمی پالیسی لکھ دیں۔“ ڈاکٹر صاحب نے وہ پالیسی بنائی اور اسے دینے دفتر آئے تھے۔ جاتے ہوئے سیکرٹری تعلیم نے ایک لفافہ ڈاکٹر صاحب کو دیتے کہا’سر!یہ پالیسی میں نے لکھی ہے اس پر بھی نظر دوڑا لیں۔“ ہم واپس آگئے۔ چند دن بعد پھر ملاقات ہوئی تو کہیں جانے کی تیاری میں تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے؛”برخودار! اچھا ہوا تم آ گئے۔ میرے ساتھ سیکرٹریٹ چلو۔“ ہم وہاں پہنچے اور سیکرٹری تعلیم کے پاس گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک فائل اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا؛”آپ کی تعلیمی پالیسی ٹھیک ہے۔ یہ لے لیں اور میرے والی واپس کر دیں۔“ اس سے اپنی لکھی ہوئی پالیسی واپس لی اور واپس آگئے۔ میں نے پوچھا؛”سر! یہ آپ نے کیا ظلم کیا۔ اپنی پالیسی واپس کیوں لی؟“ جواب دیا؛”او جھلیا؛”تعلیمی پالیسی اس کی نافذ ہونی ہے اور بدنامی میری۔ اسے کیا پتہ تعلیمی پالیسی کیا ہوتی ہے لیکن چلنی اسی کی ہے۔ اس لئے میں نے اپنی پالیسی واپس لے لی ہے۔ برخودار آنے والے وقت میں ساری پالیسیاں افسر شاہی کی چلیں گی اور شعبوں کے ماہر ین کی کوئی سنے گا نہیں۔“ تعلیم کے میدان میں ہمارا المیہ اسی دن شروع ہو گیا تھا۔ تعلیمی پالیسی لکھی کل کے نوجوان نے جس کا تعلیم سے تعلق صرف اس کی اپنی ڈگری کی حد تک ہی تھا۔ تعلیم کا یہی حال ہونا ہی تھا جو آج اس ملک میں ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ وہاں کی تعلیم کا معیار دیکھ لیں۔ دنیا کے بہترین دماغ پیدا ہو رہے ہیں۔ قومیں تعلیم اور انسانوں سے بنتی ہیں سونے چاندی سے نہیں۔دکھ کی بات ہے کہ ہمارے سرکاری سکول جو اسی(80) کی دہائی تک زندگی کے تمام شعبوں میں بہترین دماغ پیدا کرتے تھے اب اپنے معیار کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔وجہ حکومت کی ناعاقبت اندیشی اور بابوؤں کے ہاتھ ملکی پالیسیاں ہیں۔ اب ساری ٹاپ پوزیشن پرائیویٹ سکولوں کے طالب علم لے جاتے ہیں اور سرکاری سکولوں کے طالب علم اللہ کے رحم و کرم پر ہی ہیں۔ لاکھوں بچوں میں چند ہی خوش قسمت ہیں جو ان پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں مہنگی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔