علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر2
تحریر: پیر ابو نعمان
ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ وہ جامعہ میں پہنچا تو پیر صاحب کے معتمد خاص حضرت جی نے بتایا کہ اس وقت پیر صاحب کسی سے نہیں ملتے۔
۔۔۔۔۔۔ حضرت پیرمحمد رمضان رضوی سیفی کی داستان طریقت سنتے ہوئے میں انکے جوش و جذبہ اور اخلاص کو جانچ رہا تھا۔انکی آنکھیں اپنے ماضی کی یادوں کے چراغ روشن کرکے اشکبار ہورہی تھیں۔وہ کہہ رہے تھے’’ اس روز میں ڈگمگا جاتااور واپس چلا جاتاتو شاید آج میرے نصیب میں اس نعمت سے محرومی ہی لکھی ہوتی۔مجھے فیض باطن نصیب نہ ہوتا۔میں نے واپس جانے کی بجائے پیر صاحب کی اقتداء میں نماز ظہر ادا کی ۔ یہ نماز کیا تھی لطافت اور انہماک سے بھرپور تھی۔ نماز کے بعد پیر صاحب نے مجھ نووارد کو دیکھا تو اشارے سے پاس بلایا اور سامنے بٹھا کر توجہ فرمائی۔ اس وقت میرے دل میں آیا کہ آج میں نے جو نماز ادا کی ہے اس کا ذائقہ کیوں بدل گیا ہے۔ اس میں اتنا سکون کیوں ملا ہے۔ میرے دل نے گواہی دی کہ مجھے کسی بڑے پیر سے بیعت ہونا چاہیے۔ میں نے دل میں یہ خواہش چھپا کر پیر صاحب سے گزارش کی۔’’ حضور میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر1 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیر صاحب نے اُجلی چمکتی نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور ہلکا سا مسکرائے۔ ’’ جاؤ کسی بڑے پیر سے بیعت کرو۔‘‘ پیر صاحب کی بات سن کر مجھ پر کیفیت سی طاری ہو گئی۔
عرض کیا ’’ حضور میں تو آپ کا خادم اور مرید بننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’لیکن ابھی نہیں۔ تم جاؤ اور کسی بڑے پیر کو تلاش کرو۔‘‘ یہ کہہ کر پیر صاحب نے مجھے واپس بھیج دیا۔ اس دوران میں نے پیر صاحب سے رابطہ رکھنے کی کوشش کی لیکن پیر صاحب نے مجھے بیعت نہیں کیا۔ تقریباً تین سال بعد 2001ء میں شب برات کے موقع پر میں نے دستار لی اور لاہور آ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ اس رات پیر صاحب سے بیعت کی درخواست کروں گا تو وہ قبول کر لیں گے۔ میں جب جامعہ جیلانیہ پہنچا تو معلوم ہوا پیر صاحب خطاب کیلئے فقیر آباد شریف گئے ہوئے ہیں۔ میں انجان تھا تاہم میں فقیر آباد شریف پہنچ گیا۔مگر اس وقت تک خاصی دیر ہو چکی تھی۔ پنڈال خالی ہو رہا تھا۔ وہاں ایک پٹھان سالک سے ملاقات ہوئی تو میں نے پیر صاحب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو تقریر کے بعد واپس جا چکے ہیں۔ میں بہت پریشان ہو ا تو اسکے دریافت کرنے پر اپنے معاملات سے آگاہ کیا۔ وہ مجھے حضرت مولانا حمید جان صاحب کے پاس لے گیا۔ مولانا صاحب نے مجھ پر بہت شفقت فرمائی اور میں نے جب عرض حال بیان کیا تو آپ دھیرے سے مسکرا دیئے اور مجھے توجہ فرمانے لگے۔ میں اس وقت تک نہ مولانا صاحب کے مقام ولایت سے آگاہ تھا نہ مجھے فقیر آباد شریف کی فضیلت معلوم تھی۔ میرے دل میں تو صرف پیر صاحب بسے ہوئے تھے۔ اس وقت آدھی رات ہو چکی تھی۔ نہ میں جامعہ جا سکتا تھا نہ ادھر ٹھہر سکتا تھا۔ لہٰذا میں تلونڈی واپس چلا گیا۔ واپس جانے کے بعد میری طبیعت میں بے قراری بڑھتی چلی گئی۔ میں پہروں اس بات پر غور بھی کرتا اور نماز کے بعد دعا بھی کرتا کہ اے قادر مطلق میں تری رضا، ترے قرب کا طلب گار ہوں اور معرفت کے ذریعہ سے جس قرب کی فضیلت و لطافت و لذت کا بزرگان سے سنتا آیا ہوں اسے حقیقت میں پانے کے لیے تیرے ایک ولی کے پاس جاتا ہوں لیکن وہ مجھے بار بار ردّ کر رہے ہیں۔ میرے اللہ میری نیت میں کھوٹ نہیں ہے پھر مجھے قبول کیوں نہیں کیا جا رہا۔۔۔؟
پانچ سال کی تک مسلسل رابطہ رکھنے کے بعد میں نے2007ء میں فیصلہ کرلیا تھا اگر اس رمضان شریف میں بھی پیر صاحب نے مجھے بیعت نہ کیاتو پھر میں خودکشی کر لوں گا۔ مایوسی، نا امیدی گناہ ہوتی ہے ،یہ موت حرام موت کہلاتی ہے لیکن میں جس کرب سے گزر رہا تھا اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس آزمائش سے دوچار ہوتا ہے۔ اللہ نے مجھ پر احسان فرمایا اور بالآخر پیر صاحب نے مجھے بیعت فرما لیا۔۔۔وہ رات اور آج کا دن۔۔۔برسوں گزر گئے ہیں۔ پیر صاحب کی دعا نے ذرّے کو تابناکی عطا کی اورکہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ۔ مرشد حضرت پیر محمدعابد حسین سیفی کے حکم پر میں نے تلونڈی سے لاہور ہجرت کی۔ آپ کے زیر سایہ تربیت حاصل کرکے میں نے تلونڈی میں اشاعت حق کا سلسلہ شروع کیا اور بہت کم عرصہ میں ایک بڑا حلقہ قائم کر لیا تھا۔ لیکن پیر صاحب نے جب یہ فرمایا ’’رمضان لاہور کو تمہاری ضرورت ہے۔۔۔‘‘ تومیں نے کچھ نہیں دیکھا اور سرکار کے حکم پر لاہور میں آکر مدرسہ قائم کر لیا۔ یہ کرایہ کی عمارت میں تھا۔ یہ میرے دادا پیر حضرت اخندزادہ مبارک صاحب کی خدمت کا صلہ ہے کہ آج ہم متلاشیان علم وحکمت کے لئے جامعہ جیلانیہ رضویہ حسنین آباد میں عمارت تعمیر کرچکے ہیں جہاں تین سو کے قریب بچے اور بچیاں دینی و باطنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔حال ہی میں بچیوں کے لئے الگ جامعہ تعمیر کررہے ہیں جو پہلی عمارت کے قریب ہی ہے۔
طریقت میں اپنے شیخ کی خدمت کا درجہ بہت افضل ہے۔ اس کے بغیر باطن نہیں کُھلتا نہ فیض میں لذت و روانی ہوتی ہے۔بے ادب بے کیف رہتا ہے۔خادم خدمت بجا لا کر مخدوم بن جاتااور درغفوروغنی کا مقبول بندہ بن جاتا ہے۔ حضرت معین الدین چشتیؒ کے حوالہ سے معروف واقعہ ہے کہ ایک بار آپؒ نے فرمایا کہ ایک بزرگ سو سال تک اللہ تبارک تعالٰی کی عبادت کرتے رہے، دن کو روزہ رکھتے، رات کو قیام فرماتے اور ہر آنے جانے والے کو عبادت الہٰی عزوّجل کی تلقین کرتے۔ ان کے وصال کے بعد لوگوں نے خواب میں ان کو جنت میں دیکھا تو احوال پوچھا۔ وہ بزرگ بولے۔
’’میری رات دن کی عبادت جنت میں داخلے کا سبب نہیں بنی۔ بلکہ اللہ عزوّجل نے مجھے اپنے مرشد کی خدمت کی بدولت بخش دیا ہے‘‘
یہ واقعہ بیان کر کے حضرت خواجہ اجمیریؒ رونے لگ پڑے اور فرمانے لگے۔
’’قیامت کے دن اولیاء صدیقین اور مشائخ کو قبروں سے اٹھایا جائے گا تو ان کے کاندھوں پر چادریں ہوں گی۔ ہر چادر کے ساتھ ہزاروں ریشے لٹک رہے ہوں گے۔ ان بزرگوں کے مرید اور عقیدت مندان، ریشوں کو پکڑ کر لٹک جائیں گے اور ان بزرگوں کے ساتھ پل صراط عبور کر کے بہشت میں داخل ہو جائیں گے‘‘
سیفیت میں باطنی معراج کیلئے مریدین اپنے شیخ کی خدمت کو اپنے لئے سعادت و نعمت اور تبرک سمجھتے ہیں ۔ ان میں ایسے بھی صدیق و حاتم اور متوکل ہوتے ہیں جوشیخ کی خدمت میں تن من دھن قربان کر دیتے ہیں، ہاتھ میں ایک آنہ بھی نہ ہونے پر غم نہیں کرتے اور بوقت خدمت شیخ اپنے توکل کی دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ پیر محمد رمضان سیفی پر یہ وقت آیا تو ایمانی و باطنی استقلال نے انہیں شیخ کی خدمت کے نتیجہ میں ظاہری و با طنی فیوض سے مالا مال کر کے ان کی خالی جھولی کو بھر دیا۔ یہ کرامت ہے حضرت اخندزادہ مبارک صاحبؒ کی۔۔۔ آپؒ آخری ایّام میں شیخ زید ہسپتال لاہورمیں زیر علاج تھے۔ مریدین و سالکین کی آمدورفت اور قیام کا سلسلہ جاری تھا اور ہسپتال کے اردگرد پھیلے پارک اور فٹ پاتھ بھی 24 روز تک بھرے رہے۔ صبح و شام ہر پہر حضرت اخندزادہ مبارک صاحبؒ کے پروانے ان کی دعائے صحت کیلئے قرآن خوانی کرتے، شب بیداری میں نوافل ادا کرتے۔ لاہور نے اس سے قبل نہ کوئی ایسا محترم مریض دیکھا تھا نہ ایسے دیوانے تیماردار جو پیکر خلوص بنے ہوئے تھے۔ (جاری ہے)