گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 72
اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ا یشیائی ملکوں میں مشنری اداروں کی سرگرمیوں کو پنپنے نہ دیتا لیکن ان کے تعلیمی اور طبی اداروں کا مجھے بھی احترام کرنا پڑتا ہے۔ وہ مقامی سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کے مقابلے میں کہیں اچھے ہوتے ہیں اور اگر کسی ملک نے انہیں بند کردیا تو اس کی یہ پالیسی حماقت اور کوتاہ نظری پر مبنی ہوگی۔ پاکستان میں ان کے سکولوں میں طلبہ کی اکثریت مسلمان ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ ان مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو خود ان کے مذہب کی تعلیم دی جائے لیکن مشنریوں نے یہ دلیل دی کہ ان کے تعلیمی ادارے عملاً ان کے چرچ ہیں۔ لہٰذا ان اداروں میں وہ دوسرے مذاہب کی تعلیم پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ حکومت پنجاب نے اس موقع پر کامل احتیاط سے غور و خوض کیا اور قرآن حکیم کے اس ارشاد پر عمل کا تہیہ کیا کہ مذہب میں کسی طرح کا جبر روا نہیں۔ نتیجہ یہ کہ عیسائی سکولوں میں اسلامی تعلیم رائج نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود مشنری سکولوں میں کسی مذہبی تبدیلی کی عملاً کوئی مثال دیکھنے میں نہیں آئی۔ پچاس سال سے زائد عرصہ کی طویل تاریخ میں کالج کے صرف ایک مسلمان طالبعلم کے متعلق سننے میں آیا تھا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے ۔ مسلمان نجی طور پر اپنے مذہب کے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے اور سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ عیسائی عقائد کے حق میں دئیے جانے والے دلائل کا مسکت جواب دے سکیں۔ ایشیائی عیسائیوں کو اپنے ملک کا وفادار بنانے کا یہی طریقہ ہے کہ انہیں برابر کا درجہ دیا جائے اور انہیں ترقی کے مساوی مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ انہیں یہ احساس ہو کہ کسی غیر ملکی مشنری کے اثر و رسوخ کے مقابلہ میں خود ان کے ہم وطن ان کے حق میں کہیں زیادہ مفید ہیں۔ عیسائی مشنری ادارے آج کل بیحد مختلف ہوگئے ہیں اور وہ جس ملک میں کام کرتے ہیں وہاں کی سیاسی زندگی میں مداخلت سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس صورت میں بلا شبہ وہ اپنا کام بغیر کسی تشویش کے سرانجام دیتے رہیں گے اور ان سے کوئی تعرض نہیں کرے گا۔
1950ء میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد مشرقی پاکستان سے ہندوؤں کا انخلا شروع ہوگیا تھا اور فی الواقع یہ خطرہ موجود تھا کہ ہندوستانی فوجیں مشرقی پاکستان میں نہ گھس آئیں۔ نواب زادہ لیاقت علی خان نے مجھ سے پوچھا کہ ان حالات میں آپ مشرقی پاکستان کی گورنری قبول کریں گے؟ میں نے یہ عہدہ فوراً قبول کرلیا۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اپریل 1950ء کے اوائل میں میری بیوی اور میں اپنے نجی ملازموں کے ساتھ کمانڈر انچیف کے ڈکوٹا طیارہ میں لاہور سے سوار ہوکر ڈھاکہ پہنچے۔ اس قت تک لاہور اور ڈھاکہ کے درمیان براہ راست پرواز شروع نہیں ہوئی تھی اور کراچی سے بھی کلکتہ کے راستے ڈھاکہ جانا پڑتا تھا۔ جب ہمارا طیارہ مشرقی پاکستان کی سرحد پر پہنچا تو نشیب میں ہری ہرے بھرے کھیتوں کا ایک وسیع و عریض سلسلہ نظر آیا۔ دریاؤں نے ان سرسبز میدانوں کو مختلف قطعات میں تقسیم کردیا تھا۔ برسات میں ان قطعات کا نصف سے زیادہ حصہ پانی میں ڈوبا رہتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ حد نگاہ تک سمندر کی ساکن سطح پھیلی ہوئی ہے جس میں کیلے کے گھنے درختوں کے پہلو میں چھوٹے چھوٹے گاؤں، جزائر کے لامحدود سلسلہ کی مانند ابھرے ہوئے ہیں۔
مشرقی پاکستان کا خطہ بھی برطانیہ کی طرح بہت ہرا بھرا ہے البتہ یہاں کے موسم میں حبس کی کیفیت بڑی اذیت ناک ہوا کرتی ہے۔ یہاں سرما میں بارش بالکل نہیں ہوتی چنانچہ دیہات میں سبزی تقریباً مفقود ہوتی ہے۔ مویشیوں کا چارہ بھی نہیں ملتا۔ یہاں کی گائیں اپنے قد کا ٹھ میں گدھے کے برابر ہوتی ہیں اور بکریاں، مغربی پاکستان کی بکریوں سے جسامت میں آدھی۔ دنیا میں بارش کا سب سے زیادہ اوسط، یعنی 160 انچ، اسی صوبہ کے شہر سلہٹ میں ہے جہاں سے آسام کا میدانی علاقہ تیس سو فٹ کی بلندی پر ایک سیدھی دیوار کی طرح شروع ہوتا ہے۔
مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ اقلیتوں میں میری موجودگی سے ا عتماد بحال ہوگیا اور ان کے ترک وطن کا سلسلہ رک گیا۔ اس کارنامہ کا سہرا وزیراعلیٰ مسٹر نورالامین کے سربندھتا ہے۔ جنہوں نے اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ اور مبنی برحق پالیسی اختیار کرنے میں ہر طرح میری معاونت کی۔ اس صوبہ کے مسلمان نادار اور ناخواندہ ہیں۔ انہوں نے ہندوؤں کے زیر تسلط ڈیڑھ سو برس گزارے ہیں۔ اس وقت زرعی زمین بڑے بڑے ہندو زمینداروں کی ملکیت میں تھی اور وہ موجودہ رقبہ کے 75 فیصد پر قابض تھے۔ صوبائی اسمبلی نے میری گورنری کے زمانہ میں بڑے بڑے مالکان اراضی سے زمین واپس لے لینے کا قانون منظور کیا۔ مشرقی بنگال کے قانون زرعی اصلاحات کے تحت کوئی شخص 33 ایکڑ سے زیادہ اراضی کا مالک نہیں ہوسکتا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مال دار اور ذہین لوگ زراعت کی طرف سے متوجہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا مالکان اراضی کے ساتھ من مانی کی گئی اور انہیں اراضی کا نہایت ناکافی معاوضہ ملا کیونکہ حکومت کے پاس ادائیگی کے لئے رقم نہیں تھی۔
بنگالی مسلمان بہت مذہبی واقع ہوا ہے۔ نماز، روزہ اور دوسرے شرعی احکام کی ادائیگی میں وہ مغربی پاکستان کے ایک اوسط درجے کے مسلمان سے بھی زیادہ مذہبی ہے۔ مشرقی بنگال کے علاقہ کو آزادی سے پہلے ہمیشہ نظر انداز کردیا جاتا تھا کیونکہ اس کے 95فیصد دیہی قطعات میں کلکتہ کے صنعتی شہر کے لئے پٹ سن پیدا ہوتی تھی۔ کلکتہ سے یہاں تک مواصلات کا سلسلہ سست اور تکلفی دہ تھا۔ حتیٰ کہ میری گورنری کے زمانہ میں بھی کھلنا سے ڈھاکہ کا فاصلہ کشتی سے 36 گھنٹہ سے کم میں طے نہیں ہوتا تھا حالانکہ دونوں شہروں کا درمیانہ فاصلہ سو میل سے زیادہ نہیں۔ میں نے یہ سفر متعدد بار اپنے چھوٹے طیارہ میں ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت میں طے کیا تھا۔ دیہات میں جن کے درمیان رابطہ صرف دریاؤں کے ذریعہ قائم ہے۔ نظم و ضبط قائم رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ میرے زمانہ میں ڈاکوؤں کے پاس جو کشتیاں تھیں وہ پولیس کی کشتیوں سے زیادہ تیز رفتار تھیں تاہم مشرقی پاکستان کے لوگ بڑے سخت کوش ہیں اور وہ بہت اچھے کسان اور ماہی گیرہیں۔
ہمارا یہ معمول تھا کہ کرسمس کے موقع پر احباب کی ایک جماعت کو سندر بن کی سیرکراتے تھے۔ سندر کے معنی ہیں خوبصورت اور بن جنگل کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ بنگال کے جنوب میں واقع ساحلی علاقہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو گنگا اور جمنا کے دوآبہ میں تقریباً 4 ہزار مربع میل کو محیط ہے۔ تقسیم کے بعد ایک تہائی رقبہ ہندوستان میں چلا گیا اور تقریباً دو تہائی رقبہ پاکستان کے حصہ میں آیا۔ اس علاقہ م یں شیر، بندر، ہرن، گھڑیال اور مچھلیوں کی بہتات ہے۔ ہم گورنر کی ہاؤس بوٹ میں جس کا نام ’’میری اینڈرسن‘‘ تھا سیر کے لئے جاتے تھے۔ یہ نام سرجان اینڈرسن کی صاحبزادی کے نام پر رکھا گیا تھا جو متحدہ بنگال کے گورنر تھے (اور بعد میں لارڈیورلی کے نام سے مشہور ہوئے)۔ یہ کشتی بڑی آرام دہ اور پرتکلف تھی اور اسے محض گورنر اور اہم مہمانوں کے استعمال کے لئے بنوایا گیا تھا۔ برطانوی حکومت کے زمانہ عروج میں بنگال کا گورنر، سال میں ایک بار اپنی مخصوص کشتی میں سوار ہوکر ڈھاکہ کی سیر کے لئے جاتا تھا۔ اعلان آزادی اور تقسیم کے بعد، وہ کشتی پاکستان آگئی اور سٹیمر جو اس کشتی کو کھینچتا تھا، ہندوستان میں رہ گیا۔ ایک بار طوفان میں ہم لوگ ڈوبتے ڈوبتے بچے۔ کیونکہ کشتی کے دونوں جانب جو لانچیں لگائی گئی تھیں وہ طوفان کی کشاش میں الگ ہوگئیں۔ طوفان کے تھپیڑے اس چپٹے پیندے کی کشتی سے بری طرح ٹکرا رہے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم لوگ جن کے پاس پیٹیاں بھی نہیں تھیں، پانی میں چھلانگ لگانے کو تیار ہوگئے لیکن بالآخر میری اینڈرسن کو ساحل کے قریب ایک نسبتاً پرسکون علاقے میں کامیابی کے ساتھ پہنچادیا گیا اور وہ ڈوبنے سیبچ گئی۔ بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ اگر ایسے طوفان میں ہاؤمس بوٹ کے آگے سٹیمر بھی لگا ہو تو بھی کشتی ڈوب سکتی ہے۔
دریا میں کشتی کا سفر نہایت پرلطف ہوتا۔ دونوں طرف کناروں پر خوبصورت مناثر ہوتے اور کشتی کے گرد لمبی چونچ والی مچھلیاں اور اُڑن مچھلیاں اچھلتی رہتی تھیں۔ مچھلی وہاں افراط سے ملتی ہے ۔ اتنی افراط سے کہ کلکتہ کو برآمد بھی کی جاتی ہے۔ ٹھیکیداروں کے ملازم ماہی گیر جال میں مچھلی پکڑنے کی دھن میں تمام رات اپنی ننھی ننھی کشتیوں میں بیٹھ کر گزاردیتے ہیں۔(جاری ہے )