غیر جانبداری شرط ہے ۔۔۔۔اور احتیاط لازم
تحریر : طیبہ بخاری
ہر گزرتے دن نہیں ہر لمحے حضرت انسان مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔۔۔۔
آبادی کا سیلاب ہم سب کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جا رہا ہے ۔۔۔اور ہم ہیں کہ بہے چلے جا رہے ہیں
اور سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔۔۔حقائق کا سامنا کرنے کو تیار نہیں
اعدادوشمار کا آئینہ سب کیلئے ہے ۔۔۔اسے تھام لیجئے ۔۔۔۔اس سے کام لیجئے۔۔۔حقائق کا سامنا کیجئے ۔۔۔ اورمسائل کا حل تلاش کیجئے
سب سے پہلے دنیاکو دیکھیں ۔۔۔پھر وطن عزیز کو درپیش مسائل اور چیلنجز پر نظر دوڑائیں ۔۔۔۔
غیر جانبداری شرط ہے ۔۔۔۔اور احتیاط لازم۔۔۔وگرنہ تباہی کا سلسلہ تو شروع ہو چکا ہے ۔۔۔مفلوک الحال تو پہلے سے ہی تھے
حضرت انسان کے بیشتر مسائل کی وجہ انسان ہی ہیں ۔۔۔بڑھتے انسان ۔۔۔آبادی کی صورت میں ۔۔۔جنہیں کوئی اور نہیں خود انسان ہی کم کر سکتے ہیں ۔۔۔۔
کرۂ ارض پر انسانیوں یا انسانی زندگی کا شمار کریں تو رواں سال دنیاکی کل آبادی 8 ارب تک پہنچ چکی ہے جو انسانیت کےلئے نیا اور سب سے بڑا چیلنج بن گئی ہے موجودہ آبادی گزشتہ 48 برسوں کے دوران سائز میں دگنی یعنی 4 ارب سے سے 8 ارب تک پہنچی ہے۔وژیول کیپیٹلیسٹ کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2022 تک عالمی آبادی کی درجہ بندی میں ٹاپ 10 ممالک میں چین سر فہرست ہے جس کی کل آبادی 1 ارب 45 کروڑ 18 لاکھ 32 ہزار 64 افراد سے تجاوز کر چکی ہے۔ دوسرے نمبر بھارت ہے جسکی آبادی 1 ارب 41 کروڑ 98 لاکھ2243 تک پہنچ چکی ہے۔ دیگر ممالک میں 33 کروڑ 53 لاکھ 91 ہزار 957 افراد کے ساتھ امریکہ تیسرے نمبر پر ، انڈونیشیا کا 28 کروڑ 13 لاکھ 9383افراد کے ساتھ چوتھا نمبر جبکہ پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے ٹاپ 10 ممالک میں پانچویں نمبر پر آ چکا ہے ۔پاکستان کی کل آبادی 23 کروڑ 91 لاکھ8073 ظاہر کی گئی ہے چھٹے اور ساتویں نمبر پر بالترتیب نائیجیریا اور برازیل ہیں جنکی آبادی بالترتیب 218،243241 اور 215،986،577 افراد پر مشتمل ہے۔ آٹھویں نمبر پر 16 کروڑ 84 لاکھ 36792کے ساتھ بنگلہ دیش نویں اور دسویں نمبر پر بالترتیب روس اور میکسیکو ہیں جنکی کل آبادی 146،074،130 اور 132،030،739 افراد پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے مطابق دینا کی کل آبادی کا نصف سے زائد یعنی 4.7 ارب انسان صرف ایشیائی ممالک میں بستے ہیں۔
یہ تو تھی دنیا کی آبادی پر مختصر ، جامع اور تازہ ترین اعدادوشمار اور اب دیکھتے ہیں کہ دنیا میں آبادی کا اژدھا کتنے انسانوں کو نگل رہا ہے ؟ یہ انتہائی افسوسناک اور قابل فکر ہے کہ دنیا میں ہر 4 سیکنڈ میں ایک شخص بھوک کے باعث زندگی کی بازی ہار رہا ہے،200 سے زائد این جی اوز نے بھوک کے بڑھتے عالمی بحران کو ختم کرنے کےلئے فیصلہ کن عالمی اقدامات پر زور دیتے ہوئے اس خوفناک تخمینے کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے نیویارک میں موجود عالمی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک کھلے خط میں آکسفیم، سیو دی چلڈرن اور پلان انٹرنیشنل سمیت 75 ممالک سے تعلق رکھنے والی 238 تنظیموں نے دنیا میں بھوک کی آسمان کو چھوتی سطح پر غم و غصے کا اظہار ایک خط لکھ کر کیا ۔خط میں لکھا کہ” 34 کروڑ 50 لاکھ لوگ اب شدید بھوک کا سامنا کر رہے ہیں، یہ تعداد 2019 ءکے بعد سے دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔21ویں صدی میں دوبارہ کبھی قحط نہ آنے دینے کے عالمی رہنماؤں کے عزائم کے باوجود، صومالیہ میں ایک بار پھر قحط کے خدشات منڈلا رہے ہیں، دنیا بھر کے 45 ممالک میں 5 کروڑ لوگ فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ تقریباً 19ہزار 700 افراد روزانہ بھوک سے مر رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہر 4 سیکنڈ میں ایک شخص بھوک کے باعث موت کے منہ میں جارہا ہے“۔خط کے دستخط کنندگان میں شامل یمن فیملی کیئر ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے موحنا احمد علی الجبالی کے مطابق یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ زراعت اور خوراک کی پیداور سے متعلق متعارف کرائی گئی تمام ٹیکنالوجیز کے باجود آج ہم 21ویں صدی میں بھی قحط کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ یہ ایک ملک یا ایک براعظم کی صورتحال نہیں اور اس بھوک کی صرف کوئی ایک وجہ نہیں ، یہ صورتحال پوری انسانیت کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہمیں فوری طور پر زندگی بچانے والی خوراک اور طویل مدتی امداد فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کےلئے ایک لمحہ انتظار نہیں کرنا چاہیے تاکہ لوگ اپنے مستقبل کی ذمہ داری سنبھال سکیں اور اپنے اور اپنے خاندانوں کو خوراک مہیا کر سکیں۔
گذشتہ برس اکتوبر کے آخری عشرے میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے خبردار کیا تھاکہ افغانستان میں 2 کروڑ 20 لاکھ افراد’ ’شدید غذائی قلت“ کا شکار ہوسکتے ہیں معاشی طور پر غیر مستحکم افغانستان کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں کا سامنا ہے۔لاکھوں افغانی ہجرت اور بھوک کے درمیان فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے،یہ بحران یمن یا شام کے مقابلے میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے اور خوراک کی قلت کی ایمرجنسی سے بھی بدتر ہے۔ افغانستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں دنیا کا بدترین انسانی بحران موجود ہے۔ ہم تباہی کے دھانے پر ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام اور اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق2میں سے1 افغان باشندے کو فیز تھری ”بحران“ یا فیز فور ”ایمرجنسی“ خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔فیز فور قحط سے ایک قدم نیچے کا درجہ ہے اور افغانستان ایک دہائی میں بدترین حالات کا سامنا کر رہا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی نے افغانستان کے خشک سالی کو مزید اور شدید بنا دیا ہے۔ملک کے مغرب میں ہزاروں غریب خاندان پہلے ہی اپنے ریوڑ بیچ چکے ہیں اور بڑے شہروں کے قریب بھری عارضی کیمپوں میں پناہ اور مدد کی تلاش میں ہیں۔
افغانستان کی آبادی کن مسائل اور بدتر حالات کا شکار ہے اس کا اندازہ تو آپ کو ہو گیا ہو گا ، پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک میں بسنے والوں کو بھوک اور معاشی تباہی سے بچانے کیلئے ہر ممکن مدد کر رہا ہے لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ بھی برداشت کر رہا ہے جبکہ خود پاکستان میں تیزی سے بھوک اور آبادی دونوں بڑھتے جا رہے ہیں ۔چند روز قبل دنیا بھر میں بھوک کا شکار 116 ممالک کی فہرست جاری کی گئی جس میں پاکستان کا 92واں نمبر ہے،بھارت 101ویں نمبر پر موجود ہے۔ 2007 ءسے آئرلینڈ کی امدادی ایجنسی کنسرن ورلڈ وائڈ آف آئرلینڈ اور ویلٹ ہنگر ہلف مشترکہ طور پر ہر سال بھوک سے دوچار ممالک کی عالمی فہرست جاری کر رہے ہیں، سروے میں ترقی یافتہ ممالک کو شامل نہیں کیا جاتا اس لیے یہ رپورٹ ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کی صورتحال پر مبنی ہے، رواں سال صرف 116 ممالک کا ڈیٹا شامل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان 24.7 پوائنٹس کے ساتھ 116 ممالک میں 92ویں نمبر پر ہے، بھارت 101ویں نمبر پر ہے لیکن خطے کے دیگر ممالک پاکستان کے مقابلے بہتر درجہ بندی پر موجود ہیں، سری لنکا اس فہرست میں 65ویں، نیپال اور بنگلہ دیش 76ویں نمبر پر موجود ہیں۔اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں،آج دنیا میں تقریباً 81 کروڑ 10 لاکھ لوگ بھوک کا شکار ہیں اور 4 کروڑ 10 لاکھ لوگ قحط کے دہانے پر ہیں، جبکہ 47 ممالک 2030 تک بھوک کی کم سطح تک نہیں پہنچ پائیں گے، ان میں سے 28 ممالک کا تعلق افریقہ سے ہے۔پاکستان کی صورتحال واضح کرتی ہے کہ 2000 سے بھوک اور غذائیت کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے کیونکہ یہ تناسب سال 2000 میں 36.7 پوائنٹس، سال 2006 میں 33.1 پوائنٹس، 2012 میں 32.1 پوائنٹس اور 2021 میں پوائنٹس مزید کم ہو کر 24.7 پر آگیا ہے۔
لیکن اب گذشتہ 5ماہ میں سیلاب اور مہنگائی نے پاکستان میں انسانی زندگی کو سسکنے پر مجبور کر دیا ہے۔۔۔
40 سال کی مہنگائی ایک طرف جبکہ 5 ماہ کی مہنگائی ایک طرف۔۔۔۔۔
سیاسی عدم استحکام نے کروڑوں انسانوں کو الگ سے ذہنی مریض بنا رکھا ہے ۔۔۔۔۔
ہم نے بطور قوم ایشین ٹائیگرز بننے کا نعرہ لگایا تھا مگر ایشین بلی بھی نہیں بن سکے۔۔۔۔
حکومتوں کے پاس زہر کھانے کے پیسے نہیں مگر وزراءکی فوج ظفر موج ہے۔۔۔۔
ماہانہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر تجارتی خسارہ ہو رہا ہے۔۔۔
سینکڑوں ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں ۔۔۔
صرف خسارہ ختم کرنے کےلئے 30 ارب ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔۔
ملک میں مہنگائی کی شرح 28.05 فیصد کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔۔۔۔
کئی بحران آ چکے ہیں ۔۔۔شاید کسی کو نظر آئیں
3 کروڑ سے زائد افراد سیلاب میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ، باقی آبادی مہنگائی ، بے روزگاری اور سیاسی بے چینی کا شکا ر ہیں۔۔۔۔
کیسی بے بسی کی موت۔۔۔۔اور کیسی لاچار زندگی
ہمارے ملک میں کتنے افراد بے روزگار ہیں ؟ کیا آپ جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تو گیلپ سروے کی رپورٹ کا مطالعہ کر لیجئے۔ رپورٹ میں 60 فیصد پاکستانیوں نے اپنے گھر میں روزگار کی تلاش میں مصروف کسی نہ کسی فرد کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے، سندھ سے 68 فیصد، خیبر پختونخوا سے 66 فیصد، پنجاب سے 55 فیصد اور بلوچستان سے 51 فیصد افراد نے اپنے گھر میں بے روزگار افراد کی موجودگی کا بتایا۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والے ہر 3 میں سے ایک فرد کیلئے رہائش کا انتظام قوت خرید سے باہر ہے شہری آبادی کا 38 فیصد مہنگے گھروں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہے ۔ خیبرپختونخوا کے شہری علاقوں میں مہنگی رہائش کی شرح تقریباً دگنی ہو جاتی ہے خیبرپختونخوا میں رہائش کی مہنگائی کا تخمینہ 42.1 فیصد ہے جبکہ قوت خرید سے باہر ہونے کاتناسب 23.6 فیصد ہے پنجاب میں رہائش کی مہنگائی 25.8 فیصد ہے جبکہ قوت خرید سے باہر ہونے کا تناسب 35.8 فیصد ہے سندھ میں رہائش کی مہنگائی 34 فیصد ہے جبکہ قوت خرید سے باہر ہونے کا تناسب 45.3 فیصد ہے بلوچستان میں رہائش کی مہنگائی 59.8 فیصد ہے جبکہ قوت خرید سے باہر ہونے کا تناسب 37.1 فیصد ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق شہروں میں رہائش کی استطاعت کی پیمائش کیلئے ایک ترمیم شدہ طریقہ کار تجویز کرنے کا مقصد پاکستان کے شہری علاقوں میں رہائش کی مہنگائی کی پیمائش کی جا سکے۔ 19-2018 میں شہری پاکستان کیلئے غیر رہائشی خط غربت کا تخمینہ 3 ہزار 716 روپے فی بالغ کے برابر ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ 3 بچوں سمیت 5 افراد کے خاندان کے لیے رہائش کی ادائیگی کے بعد کم از کم 16 ہزار 350 روپے فی مہینہ باقی رہ جانے کو سستی رہائش سمجھا جاتا ہے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ شہروں میں رہائش کی مہنگائی کی شرح سرکاری اعداد و شمار سے 3 گنا زیادہ ہے۔
رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی ۔۔۔۔سیلاب سے پاکستان کی معیشت کو کتنا نقصان ہوا تخمینے لگائے جا رہے ہیں ۔ وزارت خزانہ نے نقصانات پر مبنی جورپورٹ وزیر اعظم آفس کو ارسال کی اس کے مطابق کمزور ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ،معاشی شرح نمو میں کمی کے باعث روزگار فراہم کرنے کی شرح میں 1.2 فیصد تک کمی کاخدشہ ظاہر کیا گیا ہے، تقریباً 180 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہو سکیں گےاور منصوبے متاثر ہونے سے 6 لاکھ افراد کو روزگار فراہم نہیں کیا جا سکے گا۔
تمام صوبوں کے اندر بارش اور سیلاب کا پانی موجود ہے، اتنا بڑا سیلاب ملک میں پہلے کبھی نہیں آیا، سیلاب سے جی ڈی پی کا 23 فیصد نقصان ہوا۔ زراعت میں 30 سے 40 فیصد لیبر کو نقصان ہوا، 392 پلوں کو نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ 20 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا۔ 13 ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں تباہ ہوئیں۔پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج بھگت رہا ہے، سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے بہت وسائل درکار ہیں جو ہمارے پاس نہیں ۔
رواں برس سیلاب سے 113 اضلاع متاثر ہوئے، 83 اضلاع کو آفت زدہ قرایا دیا گیا ۔ کپاس کی اڑھائی سے 3 ملین بیلز کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 3 ارب ڈالرز متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر نو کیلئے درکار ہونگے جبکہ ریلوے ٹریکس، پلوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے 2 ارب 3 کروڑ ڈالر زکا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہوجانے کے بعد صنفی بنیاد پر تشدد اور بچوں کے عدم تحفظ کے خدشات دگنا ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل انسانی تحفظ کی سرگرمیوں کیلئے معاون ادارے پروٹیکشن سیکٹر کے مطابق سیلاب نے عدم تحفظ کے خدشات کو بڑھا دیا ہے جن میں خاندانوں کا بچھڑ جانا، صنفی بنیاد پر تشدد، چوریاں اور جسمانی حملے شامل ہیں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیاں تشدد کا نشانہ بننے کے سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں۔انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے حالیہ جائزوں کے مطابق خواتین کی صحت ، خوراک سمیت کئی مناسب بنیادی سہولیات تک رسائی نہیںانہیں تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرات کا بھی سامنا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں حاملہ عورتوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات الگ سے ہیں جبکہ دوسری جانب بنیادی انفرا سٹرکچر کانقصان انسانی ضروریات کو بڑھانے اور بے گھر افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ یونیسیف کے مطابق سیلاب میں گھرے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں تقریباً 34لاکھ سیلاب زدہ بچے فوری امداد کے منتظر ہیں بچوں کو بھوک کے ساتھ بیماریوں نے گھیر لیا ہے، ملیریا اور ڈینگی کے ساتھ پیٹ کے امراض ان پر حملہ آور ہیں۔ یہ بچے اور بچیاں اس موسمیاتی تباہی کی قیمت چکا رہے ہیں جس میں وہ حصے دار ہی نہیں، سیلاب سے متاثرہ بچوں کی مائیں غذائی قلت کا شکار ہوکر دودھ پلانے سے بھی قاصر ہیں۔
آنے والے بحرانوں کا ذکر کریں توماہرین نے پاکستان میں غذائی بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔بلوچستان اور سندھ میں کپاس اور چاول سمیت کئی سبزیوں اور پھلوں کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ آنےوالے مہینوں میں گندم کی بوائی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔اس بارمون سون بارشوں کا 30سالہ ریکارڈ اپنے ساتھ انسانی بحران لایا، معصوم بچوں سمیت سینکڑوں افراد جانیں گنوا بیٹھے،لاکھوں بے گھر ہو گئے ابھی تک لوگ پانی میں پھنسے ہیں ، ریسکیو اور ریلیف کے منتظر ہیں۔فلاحی تنظیموں کو بھی فنڈز کی قلت کے باعث کام کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
جے ایس بروکریج کی ریسرچ کے مطابق ملک بھر میں 3 گنا زیادہ سے آنے والے سیلاب نے زندگی، فصلوں اور بنیادی ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچایا ۔ نقصانات کو صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا لیکن نقصانات سال 11-2010کے سیلاب سے زیادہ ہیں۔سیلاب کے باعث رواں سیزن میں برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہونگی، 1ارب 70کروڑ ڈالر زتک کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ گزشتہ سال اڑھائی ارب ڈالرز کے چاول برآمد کیے تھے جو اس سال نہیں ہوپائیں گے۔ کپاس کی درآمد کرنا پڑسکتی ہے۔ مویشیوں کی اموات کے باعث گوشت کی قیمت اور فصلوں اور باغات تباہ ہونے سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کے باعث ملک میں مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ جائیگی جبکہ عوامی منصوبوں پر خرچ بڑھ جانے کے باعث حکومت مالیاتی خسارے کا ہدف حاصل نہیں کرپائے گی۔۔۔۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریاں محدود نہیں ، بھوک ہمارے تعاقب میں تھی اور اب عذاب کی صورت میں مزید قریب آ چکی ہے۔۔۔
یہ رجیم چینج کا نتیجہ ہے یا کچھ اور کہ پچھلے قرضے اترے نہیں مزید لینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، تازہ ترین افسوسناک تفصیلات جو سامنے آئی ہیں ان کے مطابق آئندہ مالی سال پاکستان مجموعی طور پر 2 ہزار 133ارب روپے کا بیرونی قرض لے گا۔ اس قرض میں چین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب کا سیف ڈپازٹ اور آئی ایم ایف سے متوقع قرض شامل نہیں جبکہ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب کے بعد پاکستان میں بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے۔
یہاں ہم بلغاریہ کی نامور خاتون نجومی آنجہانی بابا وانگا کا ذکر کرتے چلیں ۔۔۔ کیونکہ بابا وانگا کی 2022 میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق کی گئیں پیش گوئیاں حقیقت بننے لگی ہیں۔بابا وانگا نے 25 برس قبل خبردار کیا تھا کہ 2022 میں کچھ شہروں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے سیاسی نتائج بھی سامنے آئیں گے اور ممالک کو زبردستی دیگر ذرائع تلاش کرنا پڑیں گے۔2022 میں متعدد ایشیائی ممالک اور آسٹریلیا کو شدید سیلابی صورتحال، سونامی اور زلزلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔2022 میں بھارت کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے قحط سالی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔جہاں دنیا پہلے ہی کورونا اور منکی پاکس جیسی عالمی وباءکا سامنا کررہی ہے، وہیں محققین سائبیریا میں ایک مہلک وائرس دریافت کریں گے۔
امریکہ نے افغانستان میں 7 ہزار 300 دنوں پر مشتمل 20 سالہ جنگ اور قومی ترقی کے نام پر یومیہ 29 کروڑ ڈالر زخرجبکہ 20 برس میں 2 ہزار ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کیے، ان تمام اخراجات کے باوجود طالبان کو ہر صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے، فوج کو تحلیل کرنے اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے میں صرف 9 دن لگے۔۔۔۔
جہالت کسی صورت میں بھی ہوں، جہاں کہیں بھی ہو، چند لمحوں یا دنوں میں کھیل کا پانسہ پلٹ دیتی ہے۔۔۔۔
ہم نے بھی بڑھتی آبادی پر قابو نہ پایا تو کسی کے ہاتھوں نہیں خود اپنے ہاتھوں اپنا تختہ الٹ دیں گے ۔۔۔۔
مسائل کی دلدل میں دھنس جائیں گے ۔۔۔خود کشیوں کا سلسلہ تو یہی ثابت کر رہا ہے ۔۔۔۔
برصغیر میں کروڑوں زندگیاں سازشی اور انتہا پسند نظریات کے باعث داؤ پر لگی ہیں ، کورونا کے باعث پاکستان اور بھارت میں بسنے والے کروڑوں غریب عوام 2 وقت کی روٹی کو ترس گئے اور بے روزگاری کی گہری کھائی میں جا گرے جہاں سے وہ کب اور کیسے نکل پائیں گے کوئی نہیں بتا سکتا اور اب غذائی بحران بھی منڈلا رہا ہے ، معاشی بحران پہلے سے خطے میں بڑھتا جا رہا ہے ، سری لنکا دیوالیہ ہو چکا دیگر سارک ممالک کے حالات بھی پر سکون نہیں۔افغانستان میں انتہا پسندی اور بھوک پہلے ہی بے لگام ہیں۔۔۔۔
بڑھتی آبادی کی رفتار کم نہ ہوئی تو ۔۔۔۔۔بحران آئیں گے ۔۔۔۔روک سکو تو روک لو۔۔۔
آنیوالے دنوں میں ہمارا کیا حال ہونیوالا ہے اس کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔۔۔۔ اعدادوشمار اور بھیانک صورتحال آپ کے سامنے ہے۔
نوٹ : اداے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں