بشارالاسد کون ، اقتدار کیسے ملا؟ وہ تمام باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں
دمشق (ڈیلی پاکستان آن لائن) شامی صدر بشار الاسد اتوار کے روز ملک سے اس وقت فرار ہو گئے جب باغیوں نے دارالحکومت دمشق میں داخل ہو کر نہ صرف ان کے 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ کیا بلکہ ان کے خاندان کی پانچ دہائیوں پر محیط حکمرانی کا بھی خاتمہ کر دیا۔ بشار الاسد نے جمہوریت کی حمایت میں اٹھنے والی تحریک کو اتنی سختی سے کچلا کہ وہ 21ویں صدی کی سب سے خوفناک خانہ جنگیوں میں سے ایک کا سبب بنی۔ ان کے اقتدار کا خاتمہ ملک سے ان کے فرار اور وزیرِاعظم محمد الجلالی کی جانب سے شامی عوام کو اقتدار منتقل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہوا۔
نیوز 18 کے مطابق بشار الاسد نے اقتدار میں رہنے کے لیے برسوں تک روس، ایران، اور لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ اپنے اتحاد پر انحصار کیا۔ وہ ملک گیر احتجاج اور مسلح بغاوت کا سامنا کرتے رہے جس میں ان کے اقتدار سے ہٹنے کا مطالبہ کیا گیا۔ انہوں نے آہنی ہاتھوں سے ان تمام بغاوتوں کو کچل کر خانہ جنگی کے دوران شام کے زیادہ تر حصوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا۔
بشار الاسد نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے بے رحمانہ جنگ لڑی اور دنیا کے سامنے خود کو اس انداز میں پیش کیا جیسے وہی واحد شخص ہیں جو شام کو انتہا پسندوں کے خطرے سے بچا سکتے ہیں۔ بشار الاسد نے خود کو شام کی اقلیتوں کا محافظ، انتہا پسندی کے خلاف ایک دیوار اور جنگ زدہ ملک میں استحکام کے واحد ذریعے کے طور پر پیش کیا۔تاہم 27 نومبر کو اپوزیشن فورسز کی قیادت میں ایک بڑا حملہ شروع ہوا، جو دارالحکومت پر قبضہ حاصل کرنے تک جاری رہا۔
شام میں کئی انتخابات صرف حکومت کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں منعقد کیے گئے، جن میں بشار نے اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ مغربی ممالک نے ان پر تنقید کی کہ یہ نہ تو آزادانہ اور نہ ہی منصفانہ انتخابات تھے۔
بشار الاسد، حافظ الاسد کے بیٹے ہیں، جنہوں نے تقریباً تین دہائیوں تک شام پر حکومت کی، یہاں تک کہ 2000 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ حافظ الاسد شامی بعث پارٹی کے سربراہ تھے، نے ملک میں ایک ایسا نظام قائم کیا جہاں معمولی سی بغاوت کا شبہ بھی جیل یا اس سے بدتر سزا کا باعث بن سکتا تھا۔
بشارالاسد اپنے والد کے جانشین نہیں تھے لیکن 1994 میں ان کے بڑے بھائی باسل ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ بشارالاسد اس وقت لندن میں آنکھوں کے ڈاکٹر بن رہے تھے۔ بھائی کے انتقال کے بعد انہیں اپنی پڑھائی چھوڑ کر واپس شام آنا پڑا۔ شام واپس آ کر انہوں نے فوجی تعلیم کا کورس مکمل کیا اور اپنے والد سے سیاست کی تربیت لی۔
والد کی وفات کے بعد بشارالاسد نے ریفرنڈم کے ذریعے بلا مقابلہ صدر کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے 2007 میں دوسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کی۔ بشار نے 34 سال کی عمر میں عہدہ سنبھالا اور ابتدائی طور پر شامی عوام نے انہیں ایک مصلح کے طور پر دیکھا، جو جبر ختم کر کے اقتصادی آزادی لا سکتے تھے۔ تاہم ان کی ابتدائی مصلحانہ شبیہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی ۔
مارچ 2011 میں جب عرب بہار کے اثرات شام پہنچے تو پرامن مظاہرے شروع ہوئے جن میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا۔ بشار الاسد نے مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف کے طور پر مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا، جس کے نتیجے میں ایک خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور نصف آبادی بے گھر ہو گئی۔بشار الاسد نے اپنی حکومت کے دوران مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائیوں اور بمباری کو "دہشت گردوں کے خلاف جنگ" قرار دیتے ہوئے جائز قرار دیا۔