محی الدین نواب ناول کی بستی کو ویران کر گئے
معروف ادیب اور ناول نگار محی الدین نواب مختصر علالت کے بعد 86سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ کراچی سے نکلنے والے جاسوسی ڈائجسٹ، سسپنس ڈائجسٹ اور سر گزشت ڈائجسٹ کے علاوہ متعدد رسائل میں بھی محی الدین نواب نے طویل عرصہ تک اپنے قلم اور دماغ کے جوہر دکھائے ہیں،وہ لکھتے تھے تو لکھتے چلے جاتے تھے اور کہانی کا تانا بانا یوں بُنتے تھے کہ قاری کہانی کی گرفت سے نکل نہ پا تا تھا۔ انہیں طویل داستان تخلیق کرنے اور بیان کرنے کا ہنر خوب آتا تھا ،وہ ناول کی ابتدا، انتہا، کہانی کے کردار اور مکالمات کی نفسیات سے گہری واقفیت اور اس میں خصوصی مہارت رکھتے تھے ،حتیٰ کہ کہانی کی جزیات،مقامات اور کرداروں کے احساسات و تاثرات بیان کرنے میں بھی انہیں خاص ملکہ حاصل تھا ۔کہا جاتا ہے کہ ناول کی نسبت افسانہ لکھنا کچھ آسان ہے،اس لئے کہ بہت سے شہسوارقلمکار وں کا قلم بھی ناول کی طوالت کا بوجھ سہارنے کی سکت سے قاصر ہوتا ہے۔محی الدین نواب ان لوگوں میں سے تھے ،جن کا قلم ناول کی طوالت کا بوجھ اٹھاتا رہا ۔ناول کے شائقین اور قارئین کو انہوں نے مدتوں اپنے قلمی سحر میں جکڑے رکھا اور 80ء ،90ء کی دہائی میں تو ان کے ناولوں کا طوطی بولتا رہا ۔بلا شبہ مرحوم نام ہی کے نواب نہ تھے وہ کہانیو ں کے بھی نواب تھے اور ناول کی جاگیر میں انہوں نے راج کیا ہے ۔ان کا سلسلے وار ناول ’’دیوتا‘‘تو کہانیاں پڑھنے والوں میں بے حد مقبول ہوا ہی ہے،ان کا ایک اور لازوال اور شہرہ آفاق نا ول ’’لبادہ‘‘بھی نقادوں اور دانشوروں کو خوب یاد رہے گاکہ مرحوم نے طویل غیر حاضری کے بعد جب دوبارہ قلم اٹھایا تو لبادہ ہی ان کے زرخیز دماغ سے نکلا تھا ۔آج نسلِ نو میں جتنے بھی لکھاری پائے جاتے ہیں ،بہت سوں کی تحریر پر ان کا پَر تو ہے ۔مرحوم اپنے مداحوں کو سوگوار تو کر ہی گئے ہیں ،ساتھ ناول کی دنیا کو بھی ویران کر گئے ہیں ۔ریاض خیر آبادی نے کیا خوب کہا تھا: شاعری بھی ہمارے دم تک ہے ریاض، پھر لوگ اس طبیعت کے کہاں۔ناول بھی محی الدین نواب تک ہی تھا کہ اب ایسے نادرو نایاب کہاں!دعا کی جانی چاہئے کہ رب العالمین مر حوم کی لغزشوں سے در گزر فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے۔