بھارت کے پاکستان مخالف بیانات، تعلقات معمول پر لانے میں رکاوٹ
تجزیہ: آفتاب احمد خان
بھارت سے ایک ہی دن میں پاکستان کے خلاف دو بیانات آئے ہیں، ان دونوں میں پٹھان کوٹ میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر الزام تراشی کی گئی ہے۔ بھارت کی اس پالیسی سے تعلقات معمول پر لانے میں رکاوٹ پڑسکتی ہے اور مجوزہ مذاکرات کا امکان روشن نہیں رہ سکتا۔
یہ بیانات وشوا ہندو پریشد، شیو سینا یا کسی اور انتہا پسند تنظیم کے کسی کھلنڈرے اور غیر ذمہ دار کارکن کے نہیں بلکہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کے ہیں۔ اتنی اعلیٰ سطح کے عہدیداروں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اس حکومتی پالیسی کے مظہر ہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی کرانے کے الزامات لگا کر زیر دباؤ لایا جائے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت دشمن کے ان حربوں کو سمجھتی ہے اور انہیں جرأت مندی سے مسترد کرتی ہے۔
یہ تو اب کسی کو سمجھائے جانے کی ضرورت ہی نہیں کہ پاکستان پندرہ برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور یہاں پر یہ جتنے بڑے پیمانے پر ابھی تک ہو رہی ہے اس سے بھارت میں ہونے والے واقعات کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود بھارتی رہنماؤں کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام کوئی ذی شعور درست تسلیم نہیں کرسکتا۔ پاکستان نے ہمیشہ پیشکش کی ہے کہ دونوں ملک تعلقات معمول پر لانے کیلئے مذاکرات کریں لیکن بھارتی رہنماؤں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہمیشہ اس میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ جب تک بھارتی رہنما ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے تب تک مذاکرات کے انعقاد میں دشواری پیش آتی رہے گی۔
حالات کا تقاضا ہے کہ بھارتی قیادت دہشت گردی کے حوالے سے زمینی حقائق پیش نظر رکھے۔ پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشی سے اجتناب کرے اور تعلقات معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان کو زیر دباؤ رکھنے کی کوششوں سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور انہیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے مواقع ملتے رہیں گے۔ اس طرح بھارتی قیادت دہشت گردوں کی معاون ہی ثابت ہوگی۔