توہین قرآن، سازش پر غور کریں!

 توہین قرآن، سازش پر غور کریں!
 توہین قرآن، سازش پر غور کریں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اسلام آفاقی اور مکمل دین ہے۔ اللہ نے تخلیق آدم سے ختم نبوت تک اپنے احکام کو کئی طریقوں سے قوموں پر اتارا اور ان کی راہبری کے لئے انبیاء بھیجے۔ مقدس کتابیں نازل فرمائیں اور ختم نبوت کے اصول ہی کے مطابق اپنی آخری مقدس کتاب بھی اپنے آخری پیغمبر و رسولؐ پر اتاری اور پھر اس کے تقدس کا بھی اہتمام کیا۔ دنیا میں قرآن مجید و احد مقدس کتاب ہے جس میں رد و بدل ممکن نہیں  کہ یہ سینوں میں محفوظ ہے اور واحد کتاب ہے جو زِیر،زَبر، پیش کے ساتھ حفظ ہو جاتی ہے اور یوں اس کے تحفظ کا یہ اہتمام بھی کیا گیا۔ ہمارے رسول اکرمؐ نے نہ صرف اپنے سے پہلے انبیاء کا ذکر کیا اور ان کے احترام کی تائید کی بلکہ اللہ کی طرف سے اتاری گئی توریت، زبور اور انجیل کو بھی تقدس ہی کا درجہ دیا، حتیٰ کہ رب کو ماننے والی امتوں کو بھی بھائی کہا۔ ہم مسلمان حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کو مانتے تو  حضرت اسحاق ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ بھی تقدس ہی کے مقام پر فائز ہیں۔ اس لئے ہم مسلمان یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کو ماننے والے ہماری مقدس کتاب قرآن حکیم کا بھی ویسے ہی احترام کریں گے جیسے ہم مسلمان انجیل و توریت کا کرتے ہیں۔


کسی نازک طبع پر گراں نہ گزرے تو عرض کروں کہ اس فانی دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں، ان میں ایک بڑی قدرے مشترک ہے۔ عیسائی اللہ کو مانتے اور اسرائیلی بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ہندو بھی خدا کے وجود کے قائل ہیں کہ بت پرست ہونے اور متعددبھگوان بنا لینے کے بعد ان کا پرماتما بھی آسمانوں پر ہے۔ یوں ماسوا چند منکران کے باقی سب لوگ خدا کے وجود کے اپنے اپنے طور پر قائل ہیں۔ ہم مسلمان یوں رب اور اس کی کتاب کو فضیلت دیتے ہیں کہ اسی اللہ نے اپنے برگزیدہ بندے پر آخری کتاب بھی اتاری اور اس کے لئے یہ اہتمام بھی کیا کہ نہ صرف یہ محفوظ رہے بلکہ اعتراض بھی نہ ہو، اسی لئے حضرت محمد ؐ کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا اگرچہ اسی رب عظیم نے تمام علوم انؐ کے سینہ مبارک میں نقش کر دیئے تھے، اب اگر دنیاوی حوالے سے بھی غور کیا جائے تو تمام حضرات و مذاہب والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر اللہ ہے اور وہ سب کے لئے ہے تو پھر اللہ کی تخلیق اور اس کی تعلیمات پر بھی غور کر لینا چاہیے، چلئے اگر آپ حضرات اپنے اپنے عقائد پر مصر ہیں تو رہیں لیکن انسانیت تو بہرحال مشترک ہے اور اللہ نے اسی امر کی تلقین سب کو کی ہے۔ انسانیت کا یہ تقاضا تو ہے کہ ہم اگر اپنے عقائد کے بارے میں غلط نہیں سننا چاہتے تو دوسروں کے بارے میں بھی ایسے اقدام نہ کریں جن سے ان کی دل آزاری ہوتی ہو، آج کی دنیا میں انسانیت ہی کو عالمگیر پیمانہ بنایا جاتا ہے اور اگر یہی پیمانہ ہے تو عمل بھی اسی کے مطابق ہونا چاہیے لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ دین محمدیؐ کے پیروکار تو سب کااحترام کرتے ہیں لیکن اکثر شرپسند وقتاً فوقتاً امت مسلمہ کو زبانی اور جسمانی آزار پہنچاتے رہتے ہیں اور ان کو اپنے خدا کا خوف بھی نہیں آتا اور نہ ہی یہ اپنے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات پر غور اور عمل کرتے ہیں اور ان کے اس عمل کی وجہ سے دنیا میں فساد پھیلا ہوا ہے۔
جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو یہ صرف دینی کتاب نہیں، حکمت اور علم بھی ہے۔اس کتاب میں دنیا کے تمام اسرار موجود ہیں، اگرچہ ہم مسلمان عمل سے عاری ہو چکے تاہم خلاء کی تسخیر اور سمندر کی تہہ میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں یہ کتاب مقدس رہبری فرماتی ہے۔ میں تو یہی دلیل دیتا ہوں کہ خود کو اتھیٹ اور منکر خدا کہہ کر سائنس ہی کو سب کچھ ماننے والوں کو بھی غور کرنا چاہیے کہ جس کتاب میں حکمت کے راز ہیں  اور یہ راہبری بھی کرتی ہے تو اس کا احترام بھی کرنا چاہیے۔ میں نے یہ سب ایک دکھ بھرے دل کے ساتھ اس لئے عر ض کیا کہ شاید کسی کو اس طرح ہی احساس ہو کہ بنی آدم ایک ہیں اور کم از کم اللہ کی ذات کی حد تک متفق تو ہیں اس لئے ان سب کو دوسروں کی دل آزاری سے گریز کرنا چاہیے، انسانیت کا نام ہی نہیں لینا چاہیے  بلکہ اصولوں پر بھی عمل کرنا چاہیے۔


آج جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے تو پورا پاکستان یوم تقدیس قرآن منا رہا ہے اس سلسلے میں جمعرات کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر قرارداد مذمت منظور کی گئی اور یوم تقدیس قرآن کی تائید بھی کی گئی، اس احتجاج میں ہمارے ساتھ ہمارے غیر مسلم شہری بھی شامل ہیں کہ جو افراد اسلامی ممالک میں بستے ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمان کسی دوسرے مذہب کی توہین نہیں کرتے چہ جائیکہ ان کی کسی مقدس کتاب کو جلائیں، یہ رجحان مغربی دنیا میں پایا جاتا ہے جہاں آزادی اظہار اور حقوق کے حوالے سے توہین مذہب کی جاتی اور خصوصاً دین اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمان اپنے نبی مکرمؐ اور قرآن مجید سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں، ان کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے، حالانکہ خود ان کے ممالک میں تو انسانی توہین کے خلاف قوانین ہیں اور کارروائی بھی ہوتی ہے۔ ایک بار پیرس میں نعوذ باللہ توہین آمیز خاکوں کا مسئلہ ہوا تو سویڈن میں دوسری بار قرآن مجید کی بے حرمتی کا سانحہ ہوا اور اس بدبخت نے پھر سے یہ عمل دہرانے کا بھی اعلان کیا۔ افسوس تو اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ اس بدبخت کو یہ اجازت آزادی اظہار کے نام پر عدالت نے دی اور پولیس نے اس کو ٹوکنے یا اس کے خلاف احتجاج کرنے والے کو گرفتار کر لیا اور اب تک اس بدبخت کی حفاظت کی جا رہی ہے۔


میں اپنے بھائیوں، اہل اسلام کی توجہ کے لئے عرض کروں گا کہ جذبات اپنی جگہ، اظہار بھی اپنی جگہ لیکن ہمیں یہ غور کرنا ہوگا کہ ایسے واقعات بار بار کیوں ہوتے ہیں اور ہم اہل اسلام ہی کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غور کریں سویڈن میں یہ شرمناک حرکت کرنے والا عراق سے منتقل ہو کر سویڈن کا شہری بنا اور عراق وہ ملک ہے جو اغیار کے ہاتھوں تباہ ہوا اور اب تک متاثر ہے۔ یہ بدبخت فرضی طور پر لادین کہلا رہا ہے حالانکہ لادینیت کوئی شے نہیں جو فرد یہ جان کر اللہ کی وحدانیت سے انکار کرتا ہے تو اس کا عقیدہ اور کچھ تو ہوتا ہے، یہ سانحات باقاعدہ ایک مسلسل سازش کا حصہ ہیں ورنہ نیوزی لینڈ کی سابق خاتون وزیراعظم نے بھی تو ردعمل دیا تھا اور اب پوپ کے علاوہ یورپی یونین، کینیڈا اور برطانیہ نے بھی مذمت پر گزارہ کیا ہے برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ان کی ملکہ اور اب بادشاہ کی توہین نہیں کی جا سکتی لہٰذا ہم مسلمان کو جذبات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اس سازش کی تہہ تک پہنچنا اور اس کا مل کر سدِباب کرنا ہو گا جس کے لئے آواز بلند کی جا رہی ہے۔


میں یہ عرض کرنے کی جسارت بھی کرتا ہو ں کہ ایک حد تک ہم سب بھی ذمہ دار ہیں جو قرآن کو ایک مقدس کتاب جان کر ایک اونچی جگہ رکھ دیتے یا اس کی تلاوت سے ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔ ہماری کمی یہ ہے کہ ہم خود اس کتاب پر غور نہیں کرتے جب کبھی دنیا میں کوئی حیرت انگیز بات سامنے آئے تو قرآن کی آیات تلاش کرکے مثالیں لے آتے ہیں حالانکہ ضرورت اس میں غور کی ہے جس میں کائنات کے راز موجود ہیں، صرف ان کو جان کر عمل کی ضرورت ہے اللہ نے تو کہا وہ آسمانوں اور زمین کا رب ہے تو اے مسلمانو! ان آسمانوں کی وسعت تم کیوں تلاش نہیں کرتے۔ تم اس رسولؐ کی امت ہو اللہ نے جسے معراج کا رتبہ عطا فرمایا اور جس کی انگلی کے اشارے سے چاند شق ہو گیا تھا۔ اللہ کا نام لو اور غور کرو۔

مزید :

رائے -کالم -