سنتالیسویں قسط،بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ
کافی تحقیق کے بعد میرا خیال یہ ہے کہ داتا صاحب جب لاہور میں تشریف لائے تو اس وقت یہ خالص ہندوؤں کا ایک گاؤں تھا جس کا نام بقول البیرونی ’’مندکوہور‘‘ تھا جو کوہار اور کوہارو سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ یہاں انہوں نے اپنی قیام گاہ کے پاس ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو اس شہر میں یقیناً پہلی مسجد ہے۔ داتا صاحب کے پاس یہاں سکونت کے لیے کچھ اور لوگ بھی آئے جو غزنوی خاندان کے زوال اور شکست کے باعث گندھارا والے لاہور جو ہندو شاہیہ کے بعد غزنوی سلاطین کا مرکزی مقام تھا سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے لہٰذا انہیں یہاں اقامت پذیر ہونے کے سبب اور نیز قطب الدین ایبک کی خاص توجہ کے باعث ’’کوہارو‘‘ کا یہ چھوٹا سا گاؤں موجودہ شہر میں تبدیل ہوتا رہا اور رفتہ رفتہ لاہور کے نام سے شہرت پائی۔ الغرض لاہور کو قدیم ثابت کرنے کی غرض سے داتا صاحب کی ذات گرامی کا بطور دلیل پش کرنا درست نہیں۔ سلطان محمود غزنوی کا زمانہ داتا صاحب سے بہت پہلے گزرچکا تھا اور گندھار والے لاہور میں انہوں نے مسجد بھی بنوائی تھی۔ مندکوہوریا کو ہارو یعنی موجودہ لاہور میں مسجد اس وجہ سے نہ تھی کہ وہ نہ اس طرف آئے تھے اور نہ یہ شہر اس وقت اس نام سے موجود تھا۔
چھیالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تاریخ کی مزید روشنی
یہاں تک یہ مضمون لکھا جا چکا تھا کہ مولوی ابو ظفر ندوی کی تاریخ سندھ نظر سے گزری ۔ اس کے بعض بیانات سے بھی ان مقامات کی تاریخ اور جغرافیائی حیثیت اور ان کے محل وقوع پر روشنی پڑتی ہے۔ اگرچہ ان سے میری تحقیقات کے نتائج متاثر نہیں ہوتے لیکن میری تحقیق اور ان کے نتائج کی تصدیق اور توثیق ان سے ضرور ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کے مطالعے میں آپ کو بھی شریک کر لیا جائے تاکہ آپ میرے اس اطمینان میں بھی شریک ہو جائیں جو اس کے مطالعے سے مجھے ہوا ہے۔
۱۔ ویہند و لاہور
مولوی ابوظفرندوی لکھتے ہیں:
’’۴۴ھ میں ابو مہلب بن ابی صفرہ جو ابن سمرہ کی فوج کے ایک سردار تھے اپنی فوج لئے ہوئے ’’ہند‘‘ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کی یہ روانگی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ عربوں میں یہ پہلے شخص ہیں جو ’’ہند‘‘ کے اس دروازے سے داخل ہوئے جس سے آج تک قدیم قومیں آتی رہی ہیں۔ یہ درہ خیبر تھا۔ مہلب کابل اور پشاور کی درمیانی گھاٹیوں کو طے کرکے سر زمین ہند میں پہنچے تاخت و تاراج کر کے واپس ہوئے۔ مہلب پہلا شخص ہے جو اصل ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ (ص ۲۵، ۲۶)
۲۔ گندھارا
اس زمانہ میں ایک اور ریاست قندھار کی تھی گو اس کا شمار سندھ میں ہوتا تھا مگر اس کا حاکم ایک غیر مسلم راجا تھا۔ یہیں سے ایک دریا بھی نکلا ہے جو دریائے سندھ میں جا کر مل گیا ہے ۔۔۔ونسنٹ اے اسمتھ۔‘‘دی ارلی ہسٹری آف انڈیا‘‘ میں لکھتا ہے کہ
جب۲۵۶ ھ میں مسلمانوں نے کابل فتح کر لیا تو وہاں کے راجہ نے قندھار کے ضلع میں آکر مقام ’’ویہند‘‘ کو اپنا پایہ تخت بنایا جو آہستہ آہستہ بڑا شہر ہوگیا۔ چنانچہ بیرونی کے عہد تک یہ قندھار کا پایہ تخت رہا(ص ۲۰۹ و ۲۱۱)
اس سے آگے بشاری مقدسی (۳۷۲ ھ) اور مسعودی (۳۰۳ھ) کے حوالہ سے ویہند پر ان الفاظ میں مزید روشنی ڈالی ہے۔
۳۔ ویہند۔ یہ ریاست عرصہ سے قائم تھی اس کو قندھار کا ملک کہتے ہیں اسی کا پایہ تخت ’’دیہند‘‘ ہے عام طور اس کو سندھ سے الگ اور ہندوستان میں شمار کرتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں یہ سندھ میں شامل تھا۔ اس کے متعلق متعدد شہر تھے ان میں سے مشہور یہ تھے۔ وذہان، بیتر، لوار، سمان، قوج اس کا پایہ تخت دیہند ہے اور اسی نام سے ریاست بھی موسوم اور مشہور ہے۔‘‘
دذہان، سمان اور قوج نام کے شہر منقود ہیں۔ رہا ’’بیتر‘‘ تو یہ وہی مقام ہے جسے البیرونی نے بیتور کے نام سے یاد کیا ہے اور اب بھی ایک گاؤں کی صورت میں موجود اور مقامی طور پر تورڈیر کے نام سے معروف ہے۔ اور ’’لوار‘‘نامی شہر وہی ہے جسے البیرونی نے ایک جگہ لہور اور دوسرے مقام پرلاہور کے نام سے یاد کیا ہے یہ شہر اب بھی ایک قصبے کی صورت میں موجود اور لاہور ہی کے نام سے موسوم ہے اور یہ دونوں قصبے یعنی لوار (یا لہوار یا لہوریا لاہور یا الاہوار جو سب ایک ہی مقام کے مختلف نام ہیں اور بیتر(یا بے توریا بیتوریا تور ڈیر جو سب ایک ہی مقام کے مختلف نام ہیں) اس وقت بھی دریائے سندھ کے کنارے پر واقع اور موجود و مشہور(قصبہ دے ہند) یا دیہند یا وہند یا ہند یا ہنڈیا انڈ جو سب ایک ہی مقام کے مختلف نام ہیں) کے قریب علاقہ قدیم گندھارا (یا قندھارا یا القندھارا یا قندھار، یہ سب بھی ایک ہی علاقہ کے مختلف نام ہیں) میں موجود اور مشہور ہیں۔ زمانہ قدیم میں دیہند اور لاہور ایک ہی شہر تھا جو تین حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک حصہ کا نام دیہند اور دوسرے کا لاہور تھا اور دونوں کے بیچ میں آریانا کا عظیم الشان شہر تھا۔ جو تقریباً چار میل میں پھیلا ہوا تھا۔ اس عظیم الشان شہر کے مغربی کنارے پر بیتور واقع تھا جس میں اس شہر کی حفاظت کے لیے ایک قلعہ بھی تھا۔ یہ قلعہ بیتور کے نام سے موسوم تھا جسے البیرونی نے بھی قلعہ بیتور ہی کے نام سے یاد کیا ہے۔ اب بھی دیہند، لاہور اور بیتور کی آبادیاں قصبوں کی صورت میں الگ الگ موجود ہیں لیکن ان کے درمیان میں آریانا کی قدیم آبادی کی جگہ بڑے بڑے مٹی کے ٹیلے نظر آتے ہیں جو آریانا کی قدامت اور اس کی تاریخی عظمت کی کہانی سناتے ہیں۔نیز مٹی کے ان ٹیلوں کے گردو پیش میں اسی علاقے میں جہاں آریانا آباد تھا چھوٹے چھوٹے متعدد گاؤں موجود ہیں۔ ان مواضع میں ایک گاؤں آریان ہی کے نام سے ہے۔ اس کے علاوہ شیخ، ذکریا ، نبے، بیکا، تھانو، مانکی، جبر، بازار، ڈھیری اور اللہ ڈیر، مواضع ہیں۔ آریانا کے مشرقی کنارے پر انبار ، کنڈا، اور زیدہ کے گاؤں موجود ہیں۔ یہ آبادیاں جو اب دیہات کی شکل میں ہیں درحقیقت آریانا کے محلے تھے۔ (جاری ہے)
اڑتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔