آزادی اظہار اور ملک دشمن عناصر 

آزادی اظہار اور ملک دشمن عناصر 
آزادی اظہار اور ملک دشمن عناصر 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 میں  واضح طور پر لکھا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی حدود و قیود کیا ہیں اور انہوں نے واضح کیا کہ جو خود ان حدود قیود کی پابندیاں نہیں  کرتے وہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ نہیں  بنا سکتے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جو کام غلط ہے اگر وہ کوئی خود کر رہا ہے تو کسی دوسرے کو وہی کام کرنے پر تنقید کا نشانہ بنائے یہ مناسب نہیں  ہے۔ دوسرا پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی بات کریں تو شاید پاکستان میں  اآزادی اظہار رائے کئی مغربی ممالک سے بھی زیادہ ہے اور ہمارے کچھ دوست حضرات اس آزادی کا ناجائز استعمال بھی کرتے ہیں اور جب انہیں  اس پر ٹوکا جائے تو انہیں آزادی اظہار رائے یاد آ جاتی ہے۔ایک بات تو اب واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان میں  آرمی کو تنقید کا نشانہ بنانا ہی کچھ لوگوں نے آزادی اظہار رائے سمجھ لیا ہے،یعنی انہوں نے ہر کام میں  پاک فوج کو گھسیٹنا ہے اور قومی سلامتی کے معاملات اپنے کالم میں  ذکر کرنے ہیں یا پروگرام کرنے ہیں  اور جب انہیں  ایسا کرنے سے روکا جائے تو وہ آزای اظہار کی اآڑ میں  پناہ لینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں  ہوتا کہ آزادی اظہار کو بنیاد بنا کر ملک کی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے یا فوج کو ہر معاملے میں ملوث کر کے پھر آزادی اظہار کا راگ الاپا جائے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اس صورت میں ہی دانشور کہلا سکتے ہیں کہ اگر وہ پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنائیں کیوں اس طرح انہیں عالمی سطح پر سراہا جاتا ہے اور یہ عالمی سطح پر سراہنے والے کون ہیں  یہ ملک دشمن عناصر ہیں  جو چاہتے ہیں کہ پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے اور ایسے لوگ جب اپنے ہی ملک کی فوج کو برا کہتے ہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں  تو یہ سراہنے والے دشمن عناصر انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور انہیں دانشور قرار دیتے ہیں  ، انہیں  عالمی سطح پر سراہتے ہیں اور یہ لوگ اس دھوکے میں ہوتے ہیں کہ وہ دانشور بن گئے ہیں کہ عالمی دنیا انہیں جان رہی ہے تو یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ وہ پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، اپنے ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ بن رہے ہیں، ملک کیخلاف بول رہے ہیں اور ایسا کرنے سے اگر کوئی خود کو دانشور کہلانا چاہتا ہے تو ایسے دانشور یا ایسی دانشوری سے بندہ بیوقوف ہی بھلا!  کم از کم اس بیوقوفی میں یہ بندہ ملک دشمنی نہیں کر رہا ہوتا اور نہ ہی ملک دشمن عناصر کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہا ہوتاہے۔ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں ٹویٹر بھی نہیں  چل رہا جس پر مغربی دنیا تو چیں بہ چیں ہو رہی ہے ساتھ میں  ہمارے ملک کے دانشور حضرات کو جو ٹویٹر کے ذریعے اپنے عالمی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس پر بہت تکلیف ہے کہ ٹویٹر بند ہونے سے آزادی اظہار رائے ختم ہو رہی ہے جبکہ پاکستان کی 25کروڑ آبادی میں سے ٹویٹر استعمال کرنے والے شاید چند لاکھ ہوں اور یہ چند لاکھ لوگ خود کو پورے پاکستان کا نمائندہ قرار دیتے ہیں جبکہ عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا ٹویٹر چل رہا ہے یا نہیں  یا اس نے آج اگر ٹویٹر بند ہونے کی وجہ سے کوئی ٹویٹ نہیں کی تو اس کا جینا کیسے ہو گا۔ یہ سب ایک مخصوص کلاس کے چونچلے ہیں  جس کو پاکستان میں آزادی اظہار رائے قرار دیا جاتا ہے۔ امریکہ جو دنیا میں آزادی اظہار رائے کا سب سے بڑا چیمپئن سمجھا جاتا ہے وہاں ٹویٹر نے  حکومت سے مل کر سابق صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ بند کر دیا تب تو کسی کو آزادی اظہار رائے یاد نہیں آئی تب تو سب کہہ رہے تھے کہ اچھا ہوا ایک سر پھرے کا اکاؤنٹ بند کر دیا گیا، اسی طرح امریکہ میں ٹک ٹاک کو امریکی قومی سلامتی کیخلاف خطرہ سمجھا جاتا ہے اور وہاں اس پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ امریکی اقدام اپنے ملک کی سلامتی کیلئے ہے اس پر ہمیں یا کسی کو بھی کوئی تکلیف نہیں  ہونی چاہئے۔ اسی طرح پاکستان میں  اگر پاکستان کی حکومت سمجھتی ہے کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے تو اس کو بند کرنا یا اس پر کوئی پابندی عائد کرنا قومی سلامتی کے حق میں بہتر ہے تو ایسی پابندی لگانے میں  کوئی حرج نہیں  ہے۔ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دشمن عناصر کے ہاتھوں میں  کھیلنے والے یہ جو لوگ ہیں  انہیں سمجھنا چاہئے کہ ملک دشمن عناصر انہیں استعمال کر کے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور یہ نہ تو ان کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی یہ عناصر ملک کے خیر خواہ ہیں اور یہ عناصر پاک فوج کو نشانہ بنا کر پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں،  اس لئے آرمی چیف کا یہ کہنا کہ آزادی اظہار رائے کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دوسروں کو نشانہ بنانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں سو فیصد درست ہے۔اس لئے آزادی وہی اچھی ہے جس سے ملک کا نقصان نہ ہو اور ایسی آزادی جس سے ملک دشمن تو خوش ہوں لیکن ملک کو نقصان ہو وہ آزاد نہیں بلکہ غلامی ہی کی ایک قسم ہے جس سے بچنا ہم سب کا فرض ہے۔

مزید :

رائے -کالم -