ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور متاثرہ عوام

ہمارے ملک میں پچھلے کچھ عرصے سے جو معاملات چل رہے ہیں کہ کچھ بھی واضح نہیں ہے لیکن ہر جگہ جو دھڑا دھڑ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں ان کے رنگ ڈھنگ بڑے عجیب سے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ارباب بست و کشاد میں سے کسی کی اس جانب توجہ نہیں نظر آتی کہ کاغذ پر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جاتی ہے‘ اس ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد پر پلاٹ فروخت کیے جاتے ہیں اور چونکہ لوگوں کی قوت خرید بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے بہت کم ہو چکی ہے اس لیے اکثر ہاؤسنگ سوسائٹیاں قسطوں پر پلاٹ دیتی ہیں‘ یعنی آپ قسطیں جمع کراتے جائیں‘ جب آپ کی قسطیں مکمل ہوں گی تو اس وقت آپ کو پلاٹ دیا جائے گا جس پر آپ مکان تعمیر کر سکیں گے۔ اس دوران ہوتا یہ ہے کہ جو پیسے آپ جمع کراتے ہیں وہ سوسائٹی مالکان کے پاس جمع ہوتے رہتے ہیں۔ وہ ان میں سے کچھ کو استعمال کر کے کچھ زمین خریدتے ہیں‘ اس پر کچھ ڈویلپمنٹ کے کام بھی ہوتے ہیں لیکن باقی سرمائے پر وہ سود حاصل کرتے ہیں اور اس سے اپنی ضروریات یا تعیشات پوری کرتے ہیں۔
معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ یہ بھی ہو جاتا ہے کہ قسطیں دینے والے قسطیں مکمل کرتے ہیں پلاٹ کی پوری قیمت ادا کر دی جاتی ہے اس کے باوجود نہ تو ہاؤسنگ سوسائٹی میں کہیں ڈویلپمنٹ کے کام نظر آتے ہیں اور نہ پلاٹ قسطیں دینے والوں کے سپرد ہی کیے جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی بھر کی کمائی ایک جگہ ڈمپ ہو جاتی ہے اور وہ نہ اپنا مکان بنانے کے قابل رہتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس پلاٹ ہوتا ہے کہ وہ اسے بیچ کر اپنی کوئی ضرورت پوری کر سکیں۔ ایسا تقریباً ہر دوسری سوسائٹی میں ہو رہا ہے لیکن وہ ادارے اور وہ حکام جن کا کام ان سارے معاملات پر نظر رکھنا ہے وہ پتا نہیں کہاں سوئے رہتے ہیں کہ عوام لٹتے رہتے ہیں اور ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ کوئی اشک شوئی نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں حوالے کے طور پر چند خبریں اور اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا۔ یکم اکتوبر 2018ء کی ایک خبر یہ ہے۔ ”وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)کی ملک بھر میں موجود ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے متعلق پیش کردہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں 6 ہزار غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں“۔ کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان چھ برسوں میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہو گا اور ان میں سے کتنی رجسٹرڈ اور کتنی غیر رجسٹرڈ ہوں گی؟
ایسا نہیں کہ پاکستان میں نئی ہاؤسنگ کالونی یا سوسائٹی کی منظوری کے لیے قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔ یہاں بہت سخت قوانین موجود ہیں لیکن پھر وہی بات کہ ان پر عمل درآمد کی صورت حال باقی قوانین پر عمل درآمد جیسی ہی ہے۔ پھر یہ بھی آپ جانتے ہی ہیں کہ یہاں پاکستان میں امیروں اور طاقت وروں کے لیے قانون کچھ اور ہے جبکہ غریبوں کے لیے کچھ اور۔ کیا آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ڈویلپر عام آدمی کے ساتھ فراڈ کرے تو اس کا ذمہ دار منظوری دینے والا متعلقہ محکمہ اور اس کے حکام ہوتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کے مطابق اگر کوئی ڈویلپر، لمیٹڈ کمپنی یا کوآپریٹو سوسائٹی کسی بھی ہاؤسنگ اتھارٹی یا بلدیاتی ادارے کو نئی رہائشی سکیم کے لیے درخواست جمع کرواتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ درخواست گزار ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے زمین کی ملکیت کے تصدیق شدہ ثبوت فراہم کرے۔ درخواست کی وصولی اور ضروری جانچ پڑتال کے بعد متعلقہ محکمہ زمین کی ملکیت اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہ ہونے کو مزید یقینی بنانے کے لیے منصوبہ میں شامل زمین کے مربع نمبرات، خسرہ نمبرات، کھیوٹ و کھتونی نمبرات کا اخباری اشتہار جاری کرتا ہے۔ اگر 30 دن میں کسی قسم کا کوئی اعتراض موصول نہ ہو تو محکمہ دیگر متعلقہ محکموں مثلاً سوئی گیس، واسا، محکمہ مال، محکمہ ماحولیات، لیسکو وغیرہ سے این او سی کے حصول کے لیے درخواست گزار کو خط جاری کرے گا۔ یہ تمام این او سیز حاصل ہونے کے بعد نقشہ جات، سیوریج، سڑکوں، گلیوں، بجلی کی تنصیبات، واٹر سپلائی اور دیگر تکنیکی اور فنی منظوریوں کے عمل کا آغاز کیا جاتا ہے۔ یہ ساری کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ڈویلپر کو سوسائٹی میں مختلف مقاصد مثلاً گلیوں، سڑکوں، پارکوں یا کھلی جگہ، مفاد عامہ کی عمارتوں، قبرستان، واٹر سپلائی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور ڈسپوزل پمپ کے لیے مختص زمین کو منظوری دینے والے محکمہ کے نام انتقال کروانے کی ہدایت جاری کی جاتی ہے۔ جیسے ہی زمین کا متعلقہ سرکاری محکمہ کے نام پر انتقال کروا دیا جائے گا، ڈویلپر کو این او سی جاری کر دیا جاتا ہے۔ یہ تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے واضح اور کڑے قوانین موجود ہیں‘ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے ڈویلپر متعلقہ محکموں کے بد عنوان اہلکاروں کی ملی بھگت سے درخواست جمع کروانے کے فوری بعد پلاٹس کی فروخت شروع کر دیتا ہے اور کچھ عرصہ بعد فراڈ کر کے بھاگ جاتا ہے۔ یا اگر جگہ ہو بھی تو لوگوں سے قسطیں وصول کرنے کے بعد پلاٹ کی الاٹمنٹ اور قبضے کی فراہمی میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کی جاتی ہے اور مختلف تاخیری ہتھکنڈے اختیار اور استعمال کیے جاتے ہیں۔
ملتان روڈ پر قائم این ایف سی ٹو کا شمار بھی ایسی ہی سکیموں میں ہوتا ہے۔ اس سکیم کو اناؤنس ہوئے کم و بیش 20 سال ہو چکے ہیں۔ لوگوں سے انہوں نے پلاٹوں کی قیمت اور ڈویلپمنٹ چارجز مکمل وصول کر رکھے ہیں‘ لیکن نہ تو سوسائٹی والوں نے کوئی ڈویلپمنٹ کی ہے اور نہ ہی کوئی ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ لوگ وہاں اپنے گھر بنا سکیں۔ اس کے ارد گرد کئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں سالوں بعد شروع ہوئیں اور مکمل بھی کر لی گئیں‘ وہاں لوگ رہائش پذیر ہیں‘ لیکن این ایف سی ٹو والے پتا نہیں ان لوگوں سے کس چیز کا بدلہ لے رہے ہیں جنہوں نے ان پر اعتبار کیا اور وہاں پلاٹ خریدے۔ این ایف سی کی تو میں نے محض ایک مثال دی ہے یہاں لاہور کے ارد گرد ایسی کئی سوسائٹیاں ہیں جہاں لوگوں سے مکمل قسطیں وصول کرنے کے باوجود قبضہ نہیں دیا جا رہا ہے۔
میرے خیال میں اس مسئلے کے صرف تین حل ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ تمام ہاؤسنگ سوسائٹیوں والے خود احساس کریں اور درپیش تمام مسائل حل کر کے پلاٹ خریداروں کے حوالے کر دیں تاکہ وہ وہاں مکان تعمیر کر سکیں۔ دوسرے متعلقہ ادارے اور حکام متحرک ہوں اور ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کا احتساب کریں جو لوگوں کے اربوں بلکہ کھربوں روپے دبا کر بیٹھے ہیں اور لوگوں کو ان کا حق نہیں دے رہے ہیں۔ اس کا تیسرا اور آخری حل یہ ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متاثرین متحد ہو کر تحریک چلائیں اور اپنا حق حاصل کریں۔ اگر سبھی خاموش بیٹھے رہیں گے تو کوئی ان کی مدد کو آنے والا نہیں ہے۔ میں نے آواز اٹھا دی ہے‘ باقی آپ کی مرضی۔