24 ویں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس لاہور
اتحاد امت اور استحکام پاکستان کے موضوع پر
امام کعبہ، الشیخ صالح بن محمد آل طالب کی خصوصی شرکت!
جناب رانا محمد شفیق خاں
پسروری
چ 2018ء
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت 24 ویں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس لاہور میں منعقد ہو رہی ہے۔اس میں ملک بھر سے لاکھوں توحید و سنت کے علمبردار شرکت کریں گے اور فضیلۃ الشیخ امام کعبہ ڈاکٹر الشیخ صالح بن محمد آل طالب کے علاوہ معروف ملکی علماء کرام، دانشوروں اور ماہرین قانون کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی عظیم شخصیات بھی اس میں شرکت کر رہی ہیں۔ سعودی عرب، امارات، کویت، قطر، برطانیہ، ملائیشیاء، لیبیا، بنگلہ دیش، نیپال، بھارت، مالدیپ اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے زعمائے اسلام کی بھی شرکت متوقع ہے۔ اس لحاظ سے ملک و ملت کا یہ عظیم الشان اجتماع تاریخی اور اپنی مثال آپ ہو گا۔ دو روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں ملک کے کونے کونے سے آنے والے اہل توحید اس بات کا عہد کریں گے کہ وہ دین ومسلک کے لئے سب کچھ قربان کر دینا اپنے لئے باعث فخر جانتے ہیں۔ نیز وہ عہد کریں گے کہ مملکت خداداد پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی قائم ہو گی اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کا عزم کیا جائے گا۔ ملک میں نفاذِ شریعت اور امن و امان کی بحالی کی راہ میں ملک و ملت کو جو مسائل، مشکلات درپیش ہیں اہل حدیث علماء ان سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کے حل کے لئے اپنی خدمات پیش کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔
اتحاد کی داعی اس جماعت نے ہمیشہ ان لوگوں کا بھرپور ساتھ دیا جو اس ملک میں امن و امان کی بحالی، ترقی و استحکام اور اسلامی نظام کا قیام چاہتے ہیں اور عملاً اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور ان لوگوں کی ہر میدان میں ڈٹ کر مخالفت کی جو اسلام کا راستہ روکنا اور ملک میں افراتفری اور انتشار چاہتے ہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کا یہ طرۂ امتیاز رہا ہے کہ اس کے ارکان نے کرسیوں کی دوڑ میں اقتدار کے لالچ کے لئے کبھی کام نہیں کیا، انگریزوں کے خلاف برصغیر میں اور سکھوں کے خلاف پنجاب و سرحد میں اہل حدیث مجاہدین کی تحریک نے جو نمایاں کارنامے سرانجام دئیے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ سید احمد بریلوی، شاہ اسماعیل شہیدؒ نے بالاکوٹ کے مرغزاروں میں خون کا آخری قطرہ بہا کر صفحہ ارض پر اس تاریخی حقیقت کے انمٹ نقوش مرتب کر دئیے تھے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی یقیناًکامیابی سے ہمکنار ہو گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب انگریز نے ملت اسلامیہ کے اس جذبہ و بیداری کو پھیلتا ہوا دیکھا تو مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کے سیاسی مطالبے کو تسلیم کر لیا اور خود برصغیر سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔ شاہ ولی اللہؒ کی فکری تحریک سے لے کر قائداعظم محمد علی جناح کی سیاسی کامیابی تک اور قیام پاکستان سے لے کر استحکام و بقائے پاکستان تک کی ہر جدوجہد میں اہل حدیث نمایاں رہے۔ ختم نبوت کی تحریک ہو یا الحاد و سوشلزم کا مسئلہ، نظام اسلام کی تحریک ہو یا جمہوریت کی کاوشیں، اہل حدیث نے ایک تحریک بن کر ان میں حصہ لیا۔ یعنی اسلام کی سربلندی کا وہ قافلہ جو حجاز مقدس سے چلا تھا، جس کا اولین نقش قدم محمد بن قاسم کی سرکردگی میں کبھی سندھ و ملتان میں ثبت ہوا تھا اور کبھی بالاکوٹ میں، کبھی چمرقند و داغستان اور کبھی بنگال وبہار، اور کبھی راوی روڈ میں۔ یہ قافلہ ابھی رکا نہیں، پورے جوش سے ابھی بھی تیز تر گامزن ہے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان ایک ملک گیر جماعت ہے، جس کی بنیاد قیام پاکستان کے فوراً بعد 1948ء میں سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی جیسے محدثین و شیوخ نے رکھی۔ اہل حدیث مکتب فکر کی یہ نمائندہ جماعت ستر سال سے پاکستان میں، انتہائی قابل احترام ہستیوں کی سربراہی میں باطل کے خلاف برسر پیکار ہے اور آج بھی الحمد للہ قائد اہل حدیث سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی سربراہی میں ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے عملی نفاذ، قرآن و حدیث کی بالادستی، امن و امان کی بحالی، عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت کے استحکام کیلئے شب و روز کوشاں ہے۔ پاکستان کے علاوہ بیرون ملک (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اٹلی، یونان، جرمنی، کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ) میں بھی مرکزی جمعیت اہل حدیث کے یونٹ تبلیغ اسلام کیلئے فعال کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ اہل حدیث مسلک کے حاملین بھارت، نیپال، افغانستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، ملائشیا سمیت پوری دنیا میں موجود ہیں۔
تبلیغ دین، انبیاعلیہ السلام کی میراث ہے اس مقصد کیلئے مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سے وابستہ ہزاروں علماء و مبلغین سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ، بلوچستان، آزاد کشمیر‘ بلتستان اور شمالی علاقہ جات کے دور دراز مقامات کے علاوہ بلادکفر میں بھی توحید و رسالتؐ کی دعوت کو عام کرنے کیلئے مصروف عمل ہیں۔ درس قرآن و حدیث کا اہتمام، کنونشنوں اور کانفرنسوں کا انعقاد اس عمل کا حصہ ہے، دینی، اصلاحی اور انتہائی اہم معلوماتی مضامین پر مشتمل جماعتی ترجمان ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ (لاہور) کے علاوہ 30 سے زائد جرائد ملک میں احسن انداز سے یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح مرکزی جمعیت اہل حدیث کا قائم کردہ پیغام ٹی وی‘ اپنی نشریات سے دنیا بھر میں اسلام کی سنہری تعلیمات اور کتاب وسنت کی روشنی کو تمام مکاتب فکر کے جید اور سنجیدہ زعماء کے ذریعے عام کر رہا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی اساس و بنیاد قرآن و حدیث ہے لیکن عصری علوم پر دسترس بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی سرپرستی میں ملک گیر سطح پر مدارس دینی و عصری علوم کو فروغ دینے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ وفاق المدارس السلفیہ کا انتظام و انصرام کرنے کی سعادت بھی مرکزی جمعیت اہل حدیث کو حاصل ہے اور اس ادارہ کے حسن انتظام کی وجہ سے اس کی سند شہادۃ العالمیۃ کو سرکاری اداروں میں ایم اے کے مساوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک کے ہزاروں مدارس اس وفاق کے تحت تعلیم کے فروغ میں مصروف ہیں۔
جہاد اسلام کی روح اور مسلمانوں کی شوکت و عظمت کی علامت ہے۔ یہ صرف قتال (لڑائی) کا نام نہیں بلکہ ہر جگہ اور ہر شعبہ زندگی میں باطل کے خلاف حق کی بالادستی قائم کرنے کی جدوجہد کا نام جہاد ہے، غلبہ اسلام کیلئے اٹھنے والی ہر تحریک میں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نے مؤثر کردار ادا کیا ہے اور اسی راہ میں اس کے قائدین حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ ، مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہیدؒ ، مولانا عبدالخالق قدوسی، محمد خاں نجیب شہیدؒ سمیت سینکڑوں وابستگان عروس شہادت کے مقام پر فائز ہو چکے ہیں۔ جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر میں بھی مرکزی جمعیت اہل حدیث نے ان علاقوں میں موجود سلفی جماعتوں کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کیا اور آج بھی اندرون و بیرون ملک ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف بھرپور جدوجہد کر رہی ہے۔
جب بھی کوئی قوم قرآن و سنت کو پس پشت ڈالتی ہے تو وہ فضول رسومات کا شکار ہوجاتی ہے، آج ہمارا معاشرہ بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر عریانی و فحاشی کا سیلاب نئی نسل کو تباہی و بربادی کی دلدل میں دھکیل رہا ہے جبکہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان اصلاح معاشرہ کی خاطر نت نئے طوفانوں کے مقابلے کے لیے بھی سرگرم عمل ہے۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ہمارے آباؤ اجداد کی بے پناہ قربانیوں کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے قربانیاں اس لئے دیں، مشکلات اس لئے جھیلیں، مصائب کی چٹانوں سے اس لئے ٹکرائے، آگ اور خون کے دریا اس لئے عبور کئے کہ ان کے خوابوں کا محور پاکستان تمام برائیوں سے پاک ہو۔ جس میں اسلامی اقدار کا بول بالا ہو، ہر طبقے کے حقوق کا تحفظ، عدل و انصاف کا ماحول اور ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے عادلانہ نظام کا عملی نفاذ ہو۔ تا کہ آنے والی نسلیں امن و عافیت کی زندگی گزار سکیں لیکن بدقسمتی سے شروع سے اس کے خلاف سازشیں کی گئیں اور آج بھی قومیت، لسانیت، صوبائیت، مذہبی اور طبقاتی عصبیتوں کو ہوا دے کر اسے کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث‘ پاکستان کو اسلاف کے خوابوں کی تعبیر بنانے، اس کی ترقی و استحکام امن و امان اور بقا و تحفظ کیلئے بھرپور کاوشیں کر رہی ہے۔
خدمت خلق کو اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے، دکھی انسانیت کی خدمت و اعانت، مصیبت زدہ اور پریشان حال لوگوں کی پریشانیوں کا مداوا، حاجت مندوں اور ناداروں کو عطا کرنا نبی کریمe کا شعار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اچھے اور جائز کاموں پر خرچ ہونے والے مال کو خیر کہا ہے۔ اس کارخیر کیلئے بھی مرکزی جمعیت اہل حدیث مقدور بھر کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلہ میں زلزلہ زدگان کی بحالی، سونامی متاثرین کی امداد اور قحط زدگان کی اعانت کے سلسلے میں کی گئی خدمات ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اسلام نے ملی معیشت میں مال کی حیثیت کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ہے، زندہ قومیں اجتماعی خدمات کو انجام دینے کیلئے ہمیشہ سے بیت المال قائم کرتی رہی ہیں۔ اسی بناء پر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نے رفاہی اور فلاحی کاموں کو احسن انداز میں سرانجام دینے کیلئے بیت المال کو مضبوط بنانے اور دکھی انسانیت کے خیر خواہ نیک کاموں میں حصہ لینے والے اصحاب حیثیت و اصحاب خیر سے تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ غرباء، مساکین، یتامیٰ، معذوروں، بیواؤں اور حاجت مندوں کی مقدور بھر خدمت کی جا سکے۔
لاہور میں ہونے والی یہ عظیم کانفرنس ایسے حالات میں منعقد ہو رہی ہے جبکہ وطن عزیز چاروں طرف سے خطرات کی زد میں ہے عالمی سطح پر مسلمان عدم تحفظ کے احساس میں گھرے ہیں۔ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے، اس کانفرنس کے ذریعہ دنیا کو پیغام دیا جائے گا کہ اسلام امن و سلامتی کا دین اور رواداری کا منبع و مآخذ ہے۔ اہل حدیث کویہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ہر دور میں سچائی کا ساتھ دیا۔ اللہ کی سرزمین پر صرف اللہ کا قانون نافذ کرنا اور اسے عام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کانفرنس سے فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی ہو گی اور دینی جماعتوں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ دینی اقدار کے تحفظ اور کتاب و سنت کی بالادستی اور امن و سلامتی و رواداری کے فروغ کے لئے متحد ہو جائیں۔ برصغیر میں اہل حدیث کی تاریخ پٹنہ و بہار، بنگال، کالا پانی، غزنی، مشرقی پنجاب، سرحد و داغستان اور دہلی و صادق پور میں قربانیوں سے وابستہ ہے۔ برصغیر میں اہل حدیث کے اسلاف نے بڑی قربانیاں دے کر مسلک کتاب و سنت کو متعارف کرایا تھا۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث کا بنیادی مقصد دین حق کی دعوت و تبلیغ کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کیلئے اس نے مناسب وقت اور موزوں مقامات پر یوں تو ہر سال ہزاروں کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں جبکہ آل پاکستان سطح پر بھی کئی کانفرنسیں منعقد کی گئی ہیں۔ جن سے بیداری کی لہر پیدا ہوئی‘ نوجوانوں کو کام کرنے کا جذبہ ملا اور جماعت اہل حدیث میں فعالیت پیدا ہوئی۔ ان کانفرنسوں کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے:
پہلی آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس لاہور میں مورخہ 29,28,27 مئی 1949ء زیر صدارت مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ حضرت مولانا محمد حنیف ندویؒ تھے۔
دوسری اہل حدیث کانفرنس ملتان میں مؤرخہ 4,3,2 اپریل 1952ء زیر صدارت مولانا محمد علی قصوری (برادرِ اکبر محمود علی قصوری، خورشید قصوری کے تایا) منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ مولانا محمد اسحاق چیمہؒ تھے۔
تیسری اہل حدیث کانفرنس فیصل آباد میں مورخہ 21 اپریل 1954 زیرصدارت: مولانا محمد اسماعیل غزنویؒ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ مولانا محمد صدیق فیصل آبادیؒ تھے۔
چوتھی اہل حدیث کانفرنس گوجرانوالہ میں مورخہ 14,13,12 اکتوبر 1956 زیر صدارت حضرت علامہ خلیل عرب ہوئی۔ صدر استقبالیہ سید داؤد غزنویؒ تھے۔
پانچویں اہل حدیث کانفرنس سرگودھا میں مورخہ 16,15,14 مارچ 1958 زیر صدارت حضرت مولانا سید داؤد غزنویؒ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ حضرت مولانا ضیاء اللہ ثنائی تھے۔
چھٹی اہل حدیث کانفرنس مورخہ 22,21,20 اکتوبر 1961ء کو جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں زیرصدارت حاجی محمد یعقوب حیدر آباد سندھ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ حضرت مولانا محمد صدیق فیصل آبادیؒ تھے۔
ساتویں اہل حدیث کانفرنس لاہور میں مورخہ 4,3,2 نومبر 1962ء زیر صدارت حضرت مولانا عبدالعزیزؒ سابق چیف جسٹس ریاست فرید کوٹ (بھارت) منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ حاجی محمد اسحاق حنیفؒ تھے۔
آٹھویں اہل حدیث کانفرنس سیالکوٹ میں مورخہ 4,3,2 اپریل 1965ء زیر صدارت حضرت مولانا محی الدین احمد قصوری (سابق نگران وزیر اعظم معین قریشی کے والد) منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ الحاج شیخ محمد شفیع سیٹھی تھے۔
نویں اہل حدیث کانفرنس لاہور میں مورخہ 5,4,3 نومبر 1967ء زیر صدارت حضرت مولانا سید محب اللہ شاہ راشدیؒ (سندھ) منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ حضرت مولانا محمد حنیف ندویؒ تھے۔
دسویں اہل حدیث کانفرنس راولپنڈی میں مورخہ 29,28,27 ستمبر 1968 ء زیر صدارت علامہ حافظ محمد محدث گوندلویؒ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ حضرت مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیحؒ تھے۔
گیارہویں اہل حدیث کانفرنس مینارِ پاکستان لاہور میں مورخہ 14,13,12 اپریل 1979ء زیر صدارت مولانا معین الدین لکھوی منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ چودھری محمد صادق ایڈووکیٹ تھے۔
بارہویں اہل حدیث کانفرنس لاہور میں مورخہ18 اپریل 1986 زیر صدارت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہؒ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ تھے۔
تیرہویں اہل حدیث کانفرنس لاہور میں مورخہ 30 اکتوبر 1987 زیر صدارت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ پروفیسر ساجد میر تھے۔
چودہویں اہل حدیث کانفرنس (قضیہ خلیج) لاہور میں مورخہ 15، فروری 1991ء زیرصدارت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ امیر محترم جناب پروفیسر ساجد میر تھے۔
پندرہویں اہل حدیث (حرمین شریفین) کانفرنس اسلام آباد میں مورخہ 13 اکتوبر 1991ء زیر صدارت الحاج میاں فضل حقؒ منعقد ہوئی۔
سولہویں اہل حدیث (سقوطِ کنٹر) کانفرنس لاہور میں مورخہ 6 ستمبر 1991ء زیرصدارت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہؒ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر تھے۔
سترہویں اہل حدیث کانفرنس باغ جناح پشاور میں 1991ء زیرصدارت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ پروفیسر ساجد میر تھے۔
اٹھارویں اہل حدیث کانفرنس لاہور میں مورخہ 18,17 اکتوبر 1996ء زیر صدارت جناب سینیٹر پروفیسر ساجد میر منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ میاں محمد جمیل تھے۔
بیسویں اہل حدیث کانفرنس ساہیوال میں مورخہ 22 اور 23 اکتوبر 1998ء زیر صدارت جناب سینیٹر پروفیسر سجاد میر منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی تھے۔
اکیسویں اہل حدیث کانفرنس ملتان میں مورخہ 27,26 اکتوبر 2000ء زیر صدارت امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میر منعقد ہوئی۔ صدر استقبالیہ مولانا سید خالد محمود ندیم تھے۔
22 ویں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس سرگودھا میں بتاریخ 8 اور 9 اپریل 2004ء کو منعقد ہوئی۔ صدارت سینیٹر پروفیسر ساجد میر، صدر استقبالیہ میاں عبدالستار اور علامہ عبدالعزیز حنیف کانفرنس کے نگران تھے۔
2006ء میں 23 ویں کانفرنس 14,13 اپریل کو جناح اسٹیڈیم سیالکوٹ میں رکھی گئی تھی، سارے انتظامات مکمل تھے، کہ 12 اپریل 2006ء کو کراچی کے نشتر پارک میں ہولناک بم دھماکہ ہوا، جس میں بریلوی مکتب فکر کے کئی ذمہ داران جاں بحق ہوگئے۔ اس سانحہ کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث نے حالات کے پیش نظر، عین موقع پر کانفرنس ملتوی کردی۔
23ویں کانفرنس جو ’’تحفظ ناموس رسالتؐ و ختم نبوت اور امن و سلامتی کی بحالی‘‘ کے لئے تھی، 7,6 نومبر 2008ء مینار پاکستان پر منعقد ہوئی۔ اس کی صدارت بھی قائد ملت سلفیہ جناب سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کی۔ جبکہ کانفرنس کے نگران ڈاکٹر حافظ عبدالکریم اور ناظم کانفرنس مولانا عبدالرشید حجازی تھے۔
اب 24ویں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس بتاریخ 8، 9 مارچ 2018ء بروز جمعرات وجمعۃ المبارک لاہور ہی میں کالا شاہ کاکو انٹرچینج جی ٹی روڈ کے مقام پر منعقد ہو رہی ہے۔ جس کی صدارت حضرت الامیر جناب سینیٹر پروفیسر ساجد میر فرمائیں گے۔ جبکہ کانفرنس کے نگران ناظم اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم (وفاقی وزیر مواصلات) ہوں گے اور ناظم کانفرنس مولانا عبدالرشید حجازی ہی ہوں گے۔
پاکستان کا قیام صرف اور صرف اسلامی نظام کے لئے ہوا تھا اور اسلامی نظام کا نفاذ ہی اس سفر کی منزل مراد ہے، جبکہ بین الاقوامی سازشوں کے ذریعہ پاکستان میں سیکولر اور اسلام دشمن طاقتیں مصروف عمل ہو چکی ہیں جو فتنہ و فساد پھیلا کر اسلامیانِ پاکستان کو اپنی منزل سے دور کرنا چاہتی ہیں۔ آئے روز کے بم دھماکے، جمہوری روایات کو سمیٹنے کے آمرانہ حربے، مصنوعی مہنگائی کا طوفان اور افواہوں کے ذریعہ خوف و ہراس ان کی مذموم چالیں ہیں جبکہ ہمارے سامنے مذکورہ مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ عظیم ملک کے تمام طبقات اور دینی و سیاسی جماعتیں نفاذ اسلام کے مطالبے پر ڈٹ جائیں اور نیک مقاصد کے حصول پر پوری قوت صرف کر دیں۔
آج ایک طرف سامراجی اور استعماری پراپیگنڈہ نے سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف فرقہ پرستی کی تند وتاریک گھٹاؤں نے ہمارے نوجوان کو برگشتہ کر دیا ہے۔ ایسے میں قرآن و سنت ہی ہے جو اس ملک کے قانون کی اصل بنیاد بن سکتا ہے، یہی وہ دو چیزیں ہیں جنہوں نے پہلے بھی ہر قسم کی فرقہ پرستی کو ختم کر دیا تھا اور جو آج بھی ملت اسلامیہ کو ایک جھنڈے تلے جمع کر سکتی ہی۔ ہم بھی اسی فکر کو لے کر ملک و ملت کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں۔
اتحاد کی اس پائیدار فکری دعوت کو لے کر آج ملک کے کونے کونے میں پہنچنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ ملت اسلامیہ پاکستان کا ہر فرد ملک کے مخصوص حالات کے پیش نظر ملی وحدت کی انتہائی ضرورت کو شدت سے محسوس کرے اور دورِ حاضر کے ہر چیلنج کا جواب دینے کے قابل ہو سکے۔ اسی دعوت کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنے کیلئے کالا شاہ کاکو جی ٹی روڈ لاہور میں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ یہ کانفرنس دراصل پاکستان کے نظریہ کو اجاگر کرے گی اور اسلام کی خاطر معرض وجود میں آنے والی دنیا کی واحد مملکت میں اسلامی نظام اور امن و امان کے خواہش مندوں کی آواز کو پوری قوت سے بلند کرے گی، اس کے ساتھ ساتھ مسلک اہل حدیث کی حقانیت اور کتاب وسنت کی تعلیمات کو بھی اجاگر کیا جائے اور بتایا جائے گا کہ اہل حدیث بیدار ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے معاملے میں کسی قسم کی سازش کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔ ہم کٹ سکتے ہیں مگر ختم نبوت اور ناموس رسالت پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے۔ نیز اس کانفرنس کے ذریعہ عوام اور حکمرانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا جائے گا کہ پاکستان خالصتاً اسلامی نفاذ کے لئے نعرہ توحید پر معرض وجود میں آیا تھا اور اس ملک کی بقاء و استحکام اور ترقی و تحفظ صرف اسلامی نظام کے نفاذ ہی میں مضمر ہے۔
اب جبکہ پاکستان کو بنے ہوئے 70 سے زیادہ سال ہو چکے ہیں۔ پاکستان تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ اسلام دشمن اور سیکولر طاقتیں پاکستان کی سالمیت، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ملک میں جاری نفاذ اسلام کی منتشر کوششوں اور اسلام سے مخلص طاقتوں کو مجتمع کیا جائے اور غلغلہ حق کی آواز کو پوری قوت سے بلند کیا جائے اور لاہور میں ہونے والی یہ عظیم الشان کانفرنس اسی فریضہ کی طرف ایک اہم قدم ہے۔