اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 10
امیر بیگم ایک عجیب الخلقت طوائف تھی، اس کا کمال یہ تھا کہ مجلسوں میں برہنہ آتی ہر حصہ عریاں ہوتا ۔ لیکن اس انداز میں پاجامے کی نقاشی کرواتی جیسے کمخواب کا بیلدار پاجامہ پہن رکھا ہو۔ اس عُریانی کو ہر کوئی پہچان نہ سکتا تھا تمام لوگ مبس ہی سمجھتے تھے۔
اعتماد الدولہ کی داشتہ کا نام رام رجنی تھا ۔ زینب اور گلاب بڑی پایہ کی ڈیڑہ دارنیاں تھیں ، ان کے دروازے پر دستک دینا ہر کسی کے بس سے باہر تھا۔ رحمان بائی محض رقاصہ تھی، لیکن پیکر بدن ایسا تھا جیسے شام کشمیر مجسم ہوگئی ہو۔ پنا بائی کی آواز میں وہ سحر تھا کہ زندے سے تڑپ اُٹھتے اور مردے جی جاتے تھے، اُس نے بہت سی راگنیاں بھی تخلیق کی تھیں۔ پانی پرلکیر کھینچنا اور ہوا میں گرہ لگانا اُس کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا، کمال بائی درباری مغنیہ تھی۔ کنور بائی کی بیٹی کا نام اومابائی تھا۔ اس کا دہن گلدستہ تھا جہاں اس کی ماں کا حُسن ختم ہوتا ، وہاں سے اُس کا حُسن شروع ہوتا تھا۔ پنا اور تنو محمد شاہ کی منہ چڑھی طوائفیں تھیں۔ جب محمد شاہ نے نادر شاہ کی لوٹ سے دل برداشتہ ہو کر ارباب نشاط کو چھٹی دے دی تو یہ دونوں بالا خانوں پر آبیٹھیں جہاں ہر شب مغل شہزادے اپنی صبح انجام کو قریب لاتے تھے۔
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 9پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ادھر 1857 ء میں دہلی پر جو قیامت ٹوٹی اس سے پرانی ثقافت کے درو دیوار تک ہل گئے ۔ تمام ملک بارہ باٹ ہوگیا ۔ جنہوں نے کبھی کسی کا ہاتھ نہ جھٹکا تھا اُن کے دامن کشکول ہوگئے اور اب جامع مسجد کی سیڑھیوں پر پیٹ کی دُہائی دے رہے تھے ، ادھر خاندانی شرافت فقیر کی گدڑی ہوگئی۔ ادھر ہر کوئی بے توا کا سونٹا بنا پھرتا تھا ۔جن چہروں پر دہلی لکھنؤ کی شرافت کا انحصار تھا وہ تتر بتر ہوگئے۔ ہر شے پر جھوٹا جھول چڑھنے لگا ۔ شرفا کی لاج لچوں کا قہقہہ بن گئی اوردیکھتی آنکھوں ایسا انقلاب برپا ہوگیا کہ تیمور و بابر کی بیٹیاں تن ڈھانپنے کے لئے چیتھڑے ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔
تاریخ فحاشی شاہد ہے کہ کسبیوں کا وجود جنگ یا انقلاب کی کوکھ سے پید اہوتا پھر پنپتا اور بڑھتا ہے۔ یونان اور روما کی تاریخ الفحشاء میں بھی اس کا اعتراف موجود ہے اور خود برصغیر ہندوستان کی تقسیم اس کی تازہ شہادت ہے۔ پچھلی دو بڑی جنگوں میں جو کچھ ہوتا رہا۔ وہ کس سے پوشیدہ ہے۔ اس مادی تباہی سے قطع نظر جو یورپ میں اپنے خطرناک نتائج چھوڑ گئی۔ سب سے بڑا سانحہ وہ اخلاقی تباہی ہے جس سے عورت ایک جنس بن چکی ہے۔
پچھلی جنگ میں آسام کی سرحد پر ایک غیور قوم موگ نے قحط کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اور جب بھُوک کا تقاضا شدید ہوگیا تو موگ عورتوں نے اتحادی سپاہیوں کے ہاتھوں اپنی ہر عصمت بیچ ڈالی ۔ جو بہرحال روٹی کا بدل تھا۔۔ روٹی ۔۔اور ۔۔ عصمت۔
1857ء کا سانحہ اپنے ساتھ ہی نتائج لایا تھا، جب تاج و تخت ہی چھن گئے تو اُن کی وابستگیاں بھی جاتی رہیں۔ معاشرہ کا معاشرہ تہس نہس ہوگیا۔ وہ رنڈیاں جن سے شرفا کے بچے آداب مجلس سیکھتے تھے شمع راہگذار ہوگئیں، جن کی زبان میں کوئی ہچکی نہ تھی۔ اس طرح اُٹھتی گئیں کہ معیاری طوائف کا تصور بتاشہ کی طرح بیٹھ گیا۔ اس کے برعکس بازاریوں میں حیرتناک اضافہ ہونے لگا اور وہ خرابیاں جو اس پیشہ کے آداب سے ناواقف تھیں جہاں تک اُتار و اتر گئیں کہ وہ جسم کو گوشت کے بھاؤ بیچنے لگیں۔ وضعداری کے تمام سانچے ٹوٹ گئے۔
مولانا شبلی کے ایک طنزیہ سوال پر سر سید نے کہا تھا۔ اُس زمانے کے لوگ واقعی اپنے دوست کی داشتہ کو بھاوج کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ خود طوائف کا یہ حال ہوتا تھا کہ جس سے ایک دفعہ تعلق ہوجاتا اُس سے عمر بھر ناطہ نہ ٹوٹتا۔
تھوڑے ہی دنوں میں غدر کا ہنگامہ فرو ہوگیا اور استعمار انگریزی کی مصلحتوں نے ریاستوں کے وجود کو ربرقرار رکھا تو ریاستیں طوائفیت کی پشتیبان ہوگئیں چنانچہ غدر کے بعد طوائفوں کے ادارہ کو فروغ دینے میں سب سے نمایاں ہاتھ نوابوں ، مہاراجوں ، خانوں ، تعلقداروں اور زمینداروں کا ہے۔ اس براعظم میں طوائف کا موجود ہ نظام براہ راست جاگیرداروں کی پیداوار ہے جو تکلف ، تصنع ، استحصال اور جاگیرداری نظام کی خلقی خصوصیت ہے، وہی خصوصیت ایک طوائف کی سیرت کا پر تو ہے۔ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے ۔۔۔ 562ریاستیں تھیں۔ سب سے بڑی حیدر آباد جہاں پونے دو کروڑ لوگ لیتے تھے سب سے چھوٹی بلباری جس کی آبادی صرف 72نفوس پر مشتمل تھی۔ ان سب ریاستوں کے رگ و ریشہ میں (اِلا ماشاء اللہ ) طوائف کا خون دوڑتا رہا۔ ان میں سے بیشتر کے فرماں روا طوائفوں ہی کی اولاد ہیں اور ان کا خمیر و ضمیر طوائف ہی کی مٹی میں گندھا ہوا ہے ، یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ طوائف کا ادارہ جاگیرداروں ہی کی وجہ سے پروان چڑھا ہے۔ بڑی بڑی ریاستوں میں کسبیاں پلتی اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بکتی ہیں۔ ان ریاستوں کے گھناؤ نے نظام کے باعث بردہ فروشی کو خاصا فروغ ہوا۔ مرحوم پنجاب میں چمبہ کا علاقہ خوبصورت لڑکیوں کی فروخت کے لئے بے حد مشہور تھا ۔ مہاراجہ پٹیالہ نے اپنے والد کی تین سو سے زائد بیویوں کو 35روپے فی نفر کے حساب سے فروخت کیاتھا، ہندوستان میں بہت سے راجے اوز نواب ایسے تھے جو بیک وقت بیٹی اور ماں سے مستفید ہوتے رہے۔ خود مجھے ایک طوائف نے عندالملاقات بتایا کہ ریاستوں میں گورا رنگ اور سرمئی آنکھیں ہمیشہ راجواڑوں کی ملکیت سمجھی گئیں ۔ مشہور کہاوت ہے کہ:
’’ریاستوں میں خوبصورت لڑکیاں ترقی حاصل کرنے کے لئے جنی جاتی ہیں۔ ‘‘
ایک انگریز افسر نے جو ریاستی محکمہ میں کام کر چکا تھا اپنے ایک مراسلہ میں برطانوی حکومت کو لکھا تھا کہ ریاستی افسروں کا صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ حکمرانوں کے لئے عورتیں اغوا کرتے ہیں۔
ایک مہارانی نے ’’بمبئی کرانیکل‘‘ میں رنواس کا کچا چٹھا لکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ :
’’ ہم محض بستروں کے کھلونے ہیں ، ہماری زندگی یا موت کا انحصار مالکوں کی مرضی پر ہے۔ ہماری زندگی بھیانک خوابوں سے ابتر ہے ہمارے حرم مرصّع پنجرے میں جہاں ہمیں قید رکھا جاتا ہے۔‘‘
چنانچہ راجپوتانہ کے ایک مہاراجہ اپنے پیچھے چار ہزار عورتیں چھوڑ کر مرے تھے اور ان میں بے شمار نا بالغہ تھیں۔ اس شہوانی جذبے کی تسکین کے لئے ان حکمرانوں کے محلوں میں باقاعدہ عشرت کدے تعمیر ہوتے جن میں اس قسم کے آئینے آویزاں ہوتے تھے کہ ان سے اختلاط کے مختلف زاویوں کا لطف اُٹھایا جاتا تھا۔ مہاراجہ اندور کو محض اس جرم کی پاداش میں گدی چھوڑنی پڑی کہ اُس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی داشتہ موراں کی پڑپوتی ممتاز سے تعلق قائم کیا، لیکن کچھ عرصۃ بعد ممتاز کا دل اُچاٹ ہوگیا اور وہ بھاگ گئی۔ مہاراجہ کے ملازموں نے پیچھا کیا لیکن ممتاز نے بمبئی کے ایک کروڑ پتی سیٹھ باؤلے سے نکاح پڑھا لیا۔ مہاراجہ کے ملازموں نے موقع پاکر سیٹھ کر قتل کر ڈالا اور کوشش کی کہ ممتاز کو اُٹھا لیں مگر سب کے سب موقع پر گرفتار ہوگئے ، مقدمہ چلا اور بالآخر مہاراج ادھیراج کا سنگھاسن ڈول گیا۔!
ان اللے تللوں کی بنیادہی پر مصنف نے کہا تھا:
’ؔ ’ہر انسان مختلف طریقوں سے دن کا آغاز کرتا ہے ، انگریز انڈے اور سور کے گوشت سے ، جرمن سایج اور قیمہ سے ، امریکن انگور سے ، مگر ’’ہزہائی نس‘‘ دو شیزہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ !‘‘ (ّجاری ہے )
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں