انتخابی نتائج تسلیم اور الیکشن کمیشن کا احترام کریں 

   انتخابی نتائج تسلیم اور الیکشن کمیشن کا احترام کریں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی ادارے یا عوامی عہدوں پر انتخابات کرانے کی آئینی اور قانونی ذمہ داری مقررہ اوقات تک پوری کرنا اہم اور ضروری تقاضا ہے۔ انتخابی مہم کے مقررہ وقت میں ووٹروں کو زیادہ حمایت کے لئے راغب کرنے کے لئے رابطے چھوٹے بڑے جلسوں کے ذریعے بھی کئے جاتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن یا دیگر متعلقہ انتظامی اداروں کی جانب سے نافذ شرائط اور پابندیوں پر عمل کرنا بھی لازم ہوتا ہے تاکہ غیر قانونی حرکات اور امن و امان کو خراب کرنے کے مسائل پیدا ہونے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ نہ ہو۔اس بارے میں الیکشن کمیشن  ہدایات کو نظر انداز کرنے پر تادیبی کارروائی یعنی جرمانہ قید یا دونوں سزاؤں کا اطلاق بھی کر سکتا ہے۔اس لئے انتخابی مقابلہ بازی میں متعلقہ قواعد و ضوابط پر عملدرآمد امیدوار حضرات و خواتین کے لئے قانونی ضرورت ہے۔ 

عام انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدواروں کے علاوہ دیگر کئی حضرات بھی کامیابی کے لئے حصہ لیتے ہیں۔ 8فروری اور ضمنی انتخابات میں نتائج سامنے آنے کے بعد کامیاب ہوئے امیدوار اور کارکن خوشی کا اظہار کرتے نظر آئے لیکن ناکام ہوئے امیدوار نتائج کے اعلانات سے رنجیدہ اور مایوس تھے، حالانکہ ناکام امیدواروں کو انتخابی عمل سے قبل ہی اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ہر نشست پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ہی کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ اس معاملہ میں جلد ہی ناکامی کی وجوہ کے بارے میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر عدم توجہی یا دانستہ غلط کاری کی الزام تراشی کی رٹ لگانا بلا شبہ کوئی مثبت لائحہ عمل نہیں ہے۔ کم ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار حضرات و خواتین اپنے متعلقہ ادارے یعنی الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو اکثر و بیشتر عدم اعتماد یا دانستہ غلط کاری کی حرکات کے ارتکاب کا موجب قرار کیوں دیتے ہیں؟ بلکہ کم ووٹ لینے والے امیدواروں کو اس حقیقت کا جلد اعتراف کر لینا چاہئے کہ ووٹروں کی اکثریت نے اپنے سیاسی شعور کے مطابق جس امیدوار کو بہتر عوامی نمائندگی کا حق دار جانا، اسی کو منتخب کرنے کو ترجیح دی۔ یاد رہے کہ ایک نشست پر صرف ایک امیدوار نے ہی کامیاب ہونا ہوتا ہے۔ 

ناکام امیدواروں کا ایک بڑا ہدف حریف اور جیتنے والے امیدوار بھی ہوتے ہیں اور ان پر غیر قانونی حربے اپنانے اور ہیرا پھیری  کے مختلف الزامات عائد کئے جاتے ہیں،حالانکہ انتخابات کے انعقاد کے انتظامات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ایک حلقے میں ہزاروں یا سینکڑوں افراد شامل کئے جاتے ہیں۔ جو گرد و نواح میں مقیم مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین ہوتے ہیں۔ان افراد کی انتخابات سے قبل باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے۔ جس میں ان کو متعلقہ افسر واضح الفاظ میں ہدایات دیتے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندوں کے چناؤ کی ذمہ داری حتی الوسع پوری دیانتداری اور غیر جانبداری سے بروئے کار لائی جائے نیز ملازمین اس عارضی فرض کو قومی اہمیت اور افادیت رکھنے کے حوالے سے کسی دانستہ غلط کاری، بد عنوانی اور بے ضابطگی سے اجتناب کر کے عوام کو صحیح نمائندوں کا انتخاب کرنے کے لئے کارکردگی کا مظاہرہ کریں تاکہ کسی ووٹر اور امیدوار کو ان کی کارکردگی پر کسی مخصوص امیدوار کی بے جا حمایت یا مخالفت کا شک نہ گزرے اور نہ ہی ایسا کوئی احتمال پیدا ہو۔ ملک کے چیف الیکشن کمشنر 21 اپریل کے ضمنی انتخابات سے چند روز قبل ایک بیرونی ملک برازیل کے دورے پر اپنے چند افسروں کا وفد لے کر گئے تھے تاکہ وہاں ایک اخباری اطلاع کے مطابق الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی کارکردگی کا جائزہ لے سکیں۔ اس بارے میں مزید کوئی اطلاع دیکھنے میں نہیں آئی۔ بہتر ہے کہ اس بارے میں عوام کی اطلاع کے لئے کچھ حقائق منظر عام پر آئیں تاکہ اس مشین کے قابل اعتماد ہونے کے بارے میں ان کا جائزہ عوام کے سامنے آ سکے تاہم یہ امر افسوس ناک ہے کہ ان کے اس دورے پر اپوزیشن کے ایک اہم رہنما نے گزشتہ دنوں سیر کے مزے لوٹنے کا بیان جاری کیا،حالیہ عام انتخابات اور 21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر اعتراضات کرنے والے رہنماؤں اور امیدواروں کو قانونی طور پر ٹھوس درست اور عدالتی معیار پر قابل اعتماد، شواہد کے ساتھ متعلقہ اداروں، الیکشن کمیشن انتخابی ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالتوں میں ناکامی یا نا انصافی کو جلد اور قانونی معیاد کے اندر چیلنج کر دینا چاہئے تاکہ وہاں سے فوری اور ضروری سماعت کے مواقع کے بعد انصاف مل سکے۔

مزید :

رائے -کالم -