صرف میرے لئے نہیں! 

صرف میرے لئے نہیں! 
صرف میرے لئے نہیں! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پکا ارادہ باندھ لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اب حکومت کے خلاف کچھ نہیں لکھوں گا کیونکہ مہنگائی اگر بڑھ رہی ہے تو میرے اکیلے کے لئے تو نہیں بڑھ رہی۔ چینی کی مقامی پیداوار کو ریگولرائز کرنے کے بجائے اگر حکومت نے بھاری زر مبالہ خرچ کر کے بیرون ملک سے یہ جنس درآمد کی‘ سرکاری ریٹس مقرر کئے اور ان پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی‘ اس کے باوجود یہ سرکاری ریٹس پر نہیں بک رہی اور اس کے نرخ 160 روپے فی کلو تک پہنچ چکے ہیں تو میرے اکیلے کے لئے نہیں ہیں‘ سب کے لئے ہیں۔ وزیر اعظم نے اگر31 اکتوبر کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخ نہ بڑھانے کا اعلان کیا تھا تو میں اکیلا خوش نہیں ہوا تھا‘ باقی پوری قوم نے بھی کچھ سکھ کا سانس لیا ہو گا اور اس کے چار روز بعد ہی اگر انہوں نے قوم سے خطاب میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے بارے میں خبر دار کیا تھا تو مجھ اکیلے کو نہیں کیا تھا۔ اس کے دو ہی روز بعد شیڈول سے ہٹ کر پٹرولیم کے نرخوں میں ایک بار پھر اچھا خاصا اضافہ کر دیا گیا تو یہ اضافہ مجھ اکیلے کے لئے تو نہیں ہوا۔

سب کے لئے ہوا۔ پچھلے تین سالوں میں یہ شاید پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنی کہی ہوئی بات پر یُو ٹرن نہیں لیا اور وعدے کے مطابق دو روز بعد ہی نرخ بڑھا دیئے۔ پھر اس کے چند روز بعد ہی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا تو یہ اضافہ اکیلے میرے لئے تو نہیں تھا‘ سب کے لئے تھا۔ خبر ملی کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی قیمت میں 1 روپیہ 68 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ بنیادی ٹیرف میں کیا گیا ہے۔ حکام یہ بتانا نہیں بھولے کہ ماہانہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے بجلی مہنگی نہیں ہو گی۔ سوچتا ہوں آج کے اس جدید دور میں کون سا گھر ہو گا جہاں ٹی وی سیٹ نہ ہو اور جہاں رات کے وقت چار پانچ گھنٹوں کے لئے دو چار بلب بھی نہ جلتے ہوں۔ ایک خبر یہ ہے کہ حکومت نے قطر پٹرولیم سے 30.6 فی یونٹ کے بلند ترین نرخ پر ایل این جی کارگو خرید لیا ہے۔ اگرچہ مہنگی ترین ایل این جی گیس کی خریداری کا مقصد سردیوں میں گیس کے ممکنہ بحران کے اثرات زائل کرنا ہے‘ لیکن یہ مہنگی گیس صرف میرے لئے تو نہیں ہے۔ باقیوں کے لئے بھی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کے نرخوں میں اضافے کی میں بات ہی نہیں کرتا کہ وہ بھی صرف میرے لئے تو مہنگی نہیں ہوئیں۔ میں کیوں برا بنوں‘ کیوں لکھوں ایسا کرنے والوں کے خلاف تنقیدی کالم؟


یہ بھی واضح نہیں کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ آیا یہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کا شاخسانہ ہے یا آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط حاصل کرنے کے لئے عوام کی مالی حیثیت کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ کورونا کی وجہ سے جس طرح پوری دنیا کی معیشت تباہی اور جمود کا شکار ہو گئی تھی‘ اس کے نتیجے میں ایسی صورت حال پیدا ہونے کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہر ہے جب دنیا بھر میں لمبے عرصے کے لئے صنعتیں اور مارکیٹیں بند رہیں گی تو اس کے نتیجے میں کساد بازاری پیدا ہونا قدرتی امر ہے‘ لیکن کیا حالات واقعی اتنے خراب ہیں کہ عوام پر بھاری ٹیکس عائد کئے جائیں اور ان کی قوتِ خرید کا امتحان لیا جائے۔ کیا کورونا وبا سے عوام متاثر نہیں ہوئے؟ ان کی آمدنیوں پر اثرات مرتب نہیں ہوئے؟ 
دوسری بات یہ ہے کہ اگر عالمی اقتصادی ادارے سے قرضے کی قسط حاصل کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر عوام کو طفل تسلیاں نہ دی جائیں۔ ان پر یہ احسان نہ چڑھایا جائے کہ مہنگائی تو اور بھی ہو سکتی تھی لیکن بس ہاتھ دے کر بچایا ہوا ہے۔ لوگوں کے سامنے اصل حقائق رکھے جائیں۔ انہیں بتایا جائے کہ یہ مسئلہ ہے اور اتنے عرصے کے لئے اتنی قربانی دینا پڑے گی‘ اس کے بعد حالات ٹھیک ہو جائیں گے تاکہ لوگوں کو بھی کچھ صبر آ جائے۔


ایک اور بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ جب بھی مہنگائی بڑھتی ہے ہمارے حکمران دوسرے ممالک‘خاص طور پر پڑوسی ممالک میں کموڈٹیز کے نرخوں کا حوالہ دینا شروع کر دیتے ہیں کہ وہاں یہ چیز اتنے میں بک رہی ہے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان ممالک میں لوگوں کی فی کس آمدنی کیا ہے‘ وہاں کی کرنسی کتنی مستحکم ہے‘ وہاں روزگار کی صورت حال کیا ہے اور ان کے لوگوں کی قوتِ خرید کیا ہے۔ پہلے اپنے ملک کو ان جیسا بنائیے‘ اس کے بعد مثالیں دیجئے۔ اور کرنسی سے یاد آیا کہ ایسی توجیہیں پیش کرنے والے کبھی نہیں سوچتے کہ ہمارے ملک کی کرنسی کی جو ڈی ویلیو  ہو رہی ہے‘ اس کے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ میں کوئی ماہر معیشت نہیں ہوں کہ ملکی اقتصادیات کے بارے میں دعوے کے ساتھ کچھ کہہ سکوں‘ لیکن یہ واضح ہے کہ عوام کی قوتِ خرید کے ساتھ ساتھ قوتِ برداشت بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔ میری نظر میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ان میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب کورونا کی وجہ سے ہر چیز جمود کا شکار تھی تو عوام اضافی ٹیکسوں کے لئے کہاں سے پیسے لائیں؟ اور پھر ٹیکس بھی اکیلے میرے لئے تو نہیں بڑھ رہے‘ سب کے لئے بڑھ رہے ہیں‘ اس لئے میں کیوں لکھوں تنقیدی کالم؟


اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مختلف عوامل کی وجہ سے حکومت اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اسے ملکی معاملات چلانے کے لئے ریونیو کی ضرورت ہے۔ پُرانے قرضے اتارنے ہیں اور آگے کے بارے میں بھی منصوبہ بندی کرنی ہے‘ لیکن   یہ سب عوام کی جیب سے نکلوا کر کرنا مناسب ہے؟ زرعی ترقی پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی؟ صنعتی سیکٹر کی بحالی کے حوالے سے ٹھوس پالیسی کیوں وضع نہیں کی جاتی؟ برآمدات بڑھانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا؟ براہ کرم کچھ سوچئے!

مزید :

رائے -کالم -