قدرت اللہ چوہدری میں ”پاکستان“ بولتا تھا
قدرت اللہ چوہدری عہدِ نو کا لیجنڈ صحافی ہی نہیں تھا، ایک شخصیت تھا، ایک شخص تھا، نکتہ داں، نکتہ بیں، نکتہ آفریں، نکتہ چیں، بذلہ سنج، حاضر جواب، زود فہم، کم گو، سخن پرور، سخن طراز، صاحبِ فن، اصول پرست،خوش لباس، خوش گفتار،صاف گو، مردِ درویش، محبت پرور اورواقعتا ایک عظیم انسان تھے۔ صحافت میں شرافت، امانت، دیانت اور صداقت کی علامت تھے۔ وہ ایک بے باک صحافی اور حق گو قلم کار تھے انہوں نے قلم کی عزت و عظمت کو ماں بہن کی عزت و عظمت کی طرح عزیزِ جان رکھا۔ انہوں نے اصولوں کی خاطر کسی سودے بازی کو قبول نہ کیا۔ حق وصداقت کا پرچم بلند کرنے کے لئے انہوں نے ہمیشہ دیانتداری سے کام لیا۔ آپ سچے مسلمان تھے۔ اسلام سے والہانہ محبت کا جذبہ ہی ان کی کامیابی کا زینہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عزم شکن اور ایمان آزما دور میں بھی انہوں نے اپنے نظریات میں لچک نہ آنے دی۔ ان کی تاریخ پر گہری نظر تھی کہ کچھ انکی نگاہ سے عیاں نہیں تھا اور ملکی سیاست پر تو چلتا پھرتا ایک انسائیکلو پیڈیا تھے۔
حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کے اعتبار سے بے پناہ خوبیوں کے مالک اور اعلیٰ اخلاق کے پیکر تھے۔ ان کے ہم عمر قریبی ساتھی اور روزنامہ پاکستان لاہور کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی بتاتے ہیں کہ”قدرت اللہ چوہدری سے میرا پچیس برس کا ساتھ تھا۔ یہ پچیس سال جو رفاقت کے ہیں وہ صحیح معنوں میں درویش تھے کبھی انہوں نے اپنی کسی ذاتی مشکل یا ضرورت کا کوئی ذکر نہیں کیا تنخواہ وقت پر مل گئی یا نہیں ملی،کم ملی،زیادہ ملی،کوئی مشکل درپیش ہے،نہیں ہے،کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا۔ لیکن جب میرے ساتھ ان کی رفاقت قائم ہوئی وہ پھر آخری سانس تک قائم رہی اور ہم ایک دوسرے سے جُڑے رہے۔ دعوۂ تو بہت سے لوگ کرتے ہیں درویشی کا لیکن وہ دعوۂ نہیں کرتے تھے۔ وہ خلوت کے آدمی تھے جو لوگ نیوز ڈیسک پر کام کرتے ہیں جو اداریہ نویس ہوتے ہیں اُنہیں اپنے دفتروں میں جم کر بیٹھنا پڑتا ہے وہ مجلس کے لوگ نہیں ہوتے ان کا دفتر ہی اُنکی کائنات ہوتا ہے۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں یہ صوفی لوگ کام سے محبت کرتے،چھٹی کے روزبھی دفتر آ جاتے۔ ایک ایک لفظ پر نظر تھی ایک ایک چیز کو دیکھتے ایک ایک چیز کو پڑھتے۔ مگر آج ان کے جدا ہونے سے دل بہت بوجھل، آنکھیں نم دیدہ، دل افسردہ اور غم کی حکمرانی ہے۔“سچی بات ہے، بقول علامہ اقبال کہ:
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
ان کے وسیع مطالعہ سے معلوم ہوتا تھا کہ قدرت نے جیسے تمام علم کے خزانے ان کے سینے میں رکھ دئیے ہیں۔ انہیں پنجابی،اُردو اور انگریزی زبان پر دسترس حاصل تھی وہ اسلام اور پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ بقول شاعر
لکھے روز و شب جو چمن کے ترانے
میں ایسے قلم کی سیاہی بنوں گا
چوہدری صاحب 1948ء کو پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا اور پھر شعبہ صحافت سے ہمیشہ کے لیے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے زندگی میں بڑے بڑے اخباری اداروں میں کام کیا جن میں روزنامہ ”نوائے وقت“، روزنامہ ”جنگ“، روزنامہ ”دن“ اور ”روزنامہ ”پاکستان“ کے علاوہ دیگر قومی اخبارات و رسائل شامل ہیں۔کئی بڑے صحافتی ادارے ان کے ”نقشِ قدم“ سے مزین و معطر ہوئے اور بے شمار نامی گرامی صحافی و کالم نگار ان کے خوشہ چیں اور ان کی شاگردی و رہنمائی سے ممتاز مقام کے حامل ٹھہرے۔
چوہدری صاحب سے میرا پہلا تعارف ۲۰۱۵ء کے لگ بھگ ان کے قریبی دوست اور ہمارے اُستاد شاعر ناصر زیدی مرحوم کے توسط سے ہوا۔ کالم نگاری کے شوق کا ان سے ذکر کیا تو انہوں نے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا طویل سلسلہ چل نکلا۔ مجلہ”نوائے ادب“ کا جب بھی تازہ شمارہ شائع ہوتا تو میں جیل روڈ پر واقع روزنامہ ”پاکستان“ کے آفس ان سے ملنے چلا جاتا۔ ان کے کمرے میں اتنی خاموشی دیکھ کر گھنٹوں تک خاموش بیٹھنا پڑتا کہ بات کہاں سے اور کیسے شروع ہو۔ دیگر ملاقاتوں میں ان کے کمرے میں چوہدری خادم حسین، پروفیسر خالد ہمایوں اور افضل عاجز جن کی آمد سے ایک محفل سا سما ہوتا۔ چوہدری صاحب سے مجھ خاکسار کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم ہوا وہ اکثر میرا کالم روک دیتے اور فرماتے”آپ کالم کو دو تین مرتبہ پڑھ کر بھیجا کریں، آپ کے کالم میں غلطیوں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔“ اس حوالے سے میری رہنمائی کرنے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ میرے کالم کے لوگو کا نام ”صدائے ساگر“ بھی انہوں نے ہی تجویز کیا۔ ان کیساتھ ملاقاتوں کا احوال جتنا بھی بیان کیا جائے کم ہو گا وہ اتنے عظیم تھے کہ اُن کے پاس بیٹھنے والا خود کو کبھی چھوٹا نہیں سمجھتا تھا۔ مردِ قلندر اور مردِ درویش کی جو جو صفات کتب و جرائد میں لکھی گئی ہیں وہ اگر مجسم سمجھنا ہوں تو جناب قدرت اللہ چوہدری کی پُرر کشش شخصیت میں ”پاکستان“ بولتا تھا۔
کہاں سے تُو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
نصف صدی تک صحافت سے منسلک رہنے والے قدرت اللہ چوہدری کرونا وبا کے باعث سروسز ہسپتال میں داخل تھے کچھ طعبیت سنبھلی تو گھر شفٹ ہو گئے بڑتی ہوئی کمزوری کی وجہ سے طبعیت زیادہ بگڑ گئی اور 3نومبر2021ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے۔ ان کی وفات پر دل پہ غم کی سدا حکمرانی رہے گی۔ آخر میں خالد شریف کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جائے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا