مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 14

مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 14
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 14

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 محمد رفیع خوش قسمت نکلے کہ مذہبی ہونے کے باوجود انہیں ہندووں نے احترام دیا ،انکی کلا ہ ان کی خوبی اور بھگوان بن گئی تھی ،جیسا کہ ہم نے بتایا کہ وہ زندہ ہوتے تو کبھی کسی کو اپنی مورتی کی پوجا نہ کرنے دیتے ،وہ حج و عمرہ کرچکے تھے اور اس معاملہ میں حساس تھے ،کہا کرتے تھے ” جو کہنا ہومجھے کہہ سن لو، مگر میرے مذہب بارے کوئی بات نہ کرے“ یہ اس دور میں انہیں کہنا پڑا جب ان کی لتاجی سے ٹھن گئی تو اسکا بعض فسادیوں نے فائدہ اٹھانا چاہا۔ان پر کڑی تنقید بھی ہوئی کہ اوہ اندر سے پاکستانی ہیں جس پر اس وقت کے وزیر اعظم نہرو نے محمد رفیع کا ساتھ دیا اور انہیں تسلی دی کہ وہ انہیں رنج دینے والوں کے ساتھ نہیں۔

محمد رفیع نے 1970 میں حج کیاتو انکے رویہ میں بہت زیادہ تبدیلی پیدا ہوگئی تھی،مذہب کی طرف ان کا رجحان بڑھ گیا تھا ۔انہوں نے بڑے بھائی دین محمد کو بھی حج کی دعوت دی اور وہ پاکستان سے مکہ مدینہ پہنچ گئے تھے ۔دونوں بھائیوں نے مل کر حج کی سعاد ت حاصل کی ۔
” میں سوچ میں پڑگیا ہوں کہ اب مجھے گانا چاہئے یا سنگیت چھوڑ دیناچاہئے“ حج سے واپسی پر محمد رفیع متردد ہوگئے تھے ۔اپنی بیگم سے جب یہ سوال کیا تو وہ بولیں ” میں تو پہلے سے چاہتی ہوں آپ گانا چھوڑ دیں“ بیگم بلقیس ان کی دوسری بیگم تھیں۔ان کا گھرانہ مذہبی اور روائتی تھا ،کہا کرتی تھیں کہ ہمیں تو گانے سننے کی اجازت نہیں تھی نہ گھر میں فلموں کا ذکر کیا جاتا تھا اس لئے انہیں محمد رفیع کے گانے پر بھی اعتراض ہوجاتا تھا کہ مذہب گانے کی اجازت نہیں دیتا تو گانا چھوڑ دیں۔

مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 13

” اصل بات یہ ہے کہ میں نے حج کرلیا ہے اور اللہ نے توفیق دی تو پھر کروں گا ۔لوگ میرا نام لیں گے تو اس میں اسم محمد آتا ہے ۔میں تو اب نہیں گاسکتا ناں “ اس دور میں محمد رفیع نے گانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور زیادہ تر صوفیانہ کلام ہی گاتے لیکن پھر انہیں معتدل دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ بھجن وغیر ہ نہ گایا کرنا تو کوئی ہرج نہیں ہوگا۔
” آپ تو جانتے ہیں نوشاد جی بھی گانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے “ محمد رفیع کو وہ واقعہ یاد آجاتا جب استاد موسیقی نوشاد علی کا نکاح ہوا تو ان کے پیشے میں درزی لکھا گیا ۔اس لئے کہ انہوں نے خود پسند نہیں کیا تھا کہ ان کے پیشے میں گانوں کا حوالہ آئے حالانکہ اس روز جب ان کا نکاح ہورہا تھا تو باہر بینڈ باجے والے ان کے بنائے گانوں کی دھنیں بجارہے تھے ۔محمد رفیع پر یہ دور کافی کڑا آیا تھا لیکن پھر وہ گانوں کی طرف لوٹ آئے البتہ انہوں نے زیادہ تر فلمی محفلوں سے کنارہ کرلیا اور معذرت کرلیتے ۔کسی محفل میں جاتے بھی تو دو چار منٹ سے زیادہ نہ رکتے ۔جدھر سٹارز شراب لئے کھڑے ہوتے ادھر تو بالکل نہ جاتے بلکہ ان کے احترام میں جن اداکاروں نے جام اٹھایا ہوتا ،وہ بھی ایک جانب رکھ دیتے تھے۔محمد رفیع نے اپنے کردار سے اپنی تاریخ لکھی تھی جس کا انہیں صلہ ملا۔
محمد رفیع سے ہندوستانیوں کی محبت دیکھنی ہوتو دوسال پہلے کرن جوہر کی نازیبا حرکت کو ہی دیکھ لیں جس نے اپنی فلم ”یہ دل ہے مشکل “میں انکی شان میں تضحیک آمیز جملہ شامل کیا تھا ۔فلم کے ایک منظر میں انوشکا شرما کہتی ہے ” کون محمد رفیع ،وہ جو گاتا کم اور روتا زیادہ تھا“ اسکے یہ بول کرن جوہر کو مہنگے پڑ گئے ۔پورے بھارت میں محمد رفیع کے مداحوں نے کرن جوہر کے پوسٹر جلائے ا ور فلم کا بائیکاٹ کردیا تھا ۔اندازہ کیجئے کسی تنظیم کی مدد کے بغیر کوئی بڑا خاندانی پس منظر رکھے بغیر ہندوستان میں محمد رفیع کی شان میں گستاخی کرنے والے کو کس طرح مشکلات سے دوچار کردیا جاتا ہے ۔یہ محمد رفیع کی آواز کا صلہ ہے جسے بھارتیوں نے بلا امتیاز اپنا بھگوان بناکر پوجا ہے ۔پاکستان میں تو کسی گلوکار کو ایسی معراج اور تعظیم دینے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔اس لئے ہمارے موسیقی کے گھرانے ہندوستان کی مثال دیا کرتے ہیں کہ دیکھو وہاں ہماری کتنی عزت ہے ۔خیر اب ایسا بھی نہیں ۔پاکستان میں عظیم موسیقاورں اور گائیکوں کو بڑ ا احترام ملا ہے ۔اب وہ دربار کا زمانہ تو رہا نہیں،راجے مہاراجے گئے تو ان کی ثقافت اور دریا دلی بھی چلی گئی۔زمانہ بدلنے کے باوجود پاکستان میں گائیک گھرانوں کی چاندی رہی ہے ۔اپنی عادات کی وجہ سے کوئی اگر مارکھاگیا اور زوال پذیر ہوا تو اس میں حکومت یا قوم کا کیا قصور ؟

بھارت میں جتنے بڑے موسیقار اور گائیک عروج پر پہنچے وہ اپنی مذہبی روایات پر قائم رہے ۔نوشاد علی بتایا کرتے تھے کہ جب گانے کی ریہرسل ہورہی ہوتی تھی تو ہم سب آذان کے وقت ساز روک دیتے تھے ۔محمد رفیع تو نماز کے لئے چلے جاتے تھے ۔ان کی دیکھا دیکھی بہت سوں کو بھی نماز رغبت ہوئی ۔مگر ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں موسیقاروں کو نماز و آذان کا لحاظ نہیں ہوا کرتا تھا۔ان میں سے کئی تو عین آذان کے وقت ریہرسل کرتے تھے ۔کئی بار ایسے مناظر دیکھے ۔

(جاری ہے )