غزہ جنگ اور اسرائیل
تقریبا چھ ماہ ہو گئے ہیں غزہ پر اسرائیل کو وحشیانہ بمباری کرتے ہوئے اور اس دوران اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے 34ہزار سے زائد فلسطینی شہری شہید ہو گئے ہیں اور ان شہید ہونے والے فلسطینیوں میں ستر فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ دوسری طرف مغربی دنیا جسے افغانستان میں کسی خاتون کو کوڑے پڑ رہے ہوں تو انسانیت یاد آ جاتی ہے یا پاکستان کے کسی دور دراز گاؤں میں بچوں کو سکول نہ جانے دیا جا رہا ہو تو درد اٹھتا ہے کہ بچوں کے ساتھ بڑا ظلم ہو رہا ہے لیکن فلسطین کے معاملے پر انہوں نے اپنی آنکھیں موندی ہوئی ہیں اور زیادہ شور پڑتا ہے تو ہلکی سی مذمت کر دی اور ساتھ ہی اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بھیج دیا کہ ان فلسطینیوں کی نسل کشی کرو تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کو اسلحہ فراہمی روکنے کیلئے ایک قرار داد پیش کی جو انسانی حقوق کی کونسل نے منظور کر لی ہے۔8 صفحات پر مشتمل قرارداد کے حق میں 28 اور مخالفت میں 6 ووٹ آئے جبکہ 13 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا،قرار داد میں اسرائیل سے فلسطینی سرزمین پر اپنا قبضہ ختم کرنے اور غزہ کی پٹی سے غیرقانونی ناکہ بندی فوری طور پر ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا،اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظورکی تھی، بظاہراسرائیل عالمی سطح پر تنہائی کا شکار دکھائی دے رہا ہے،ورلڈسنٹرل کچن کے 7 امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے بعد متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے،مگر اس کے باوجوداسرائیلی جارحیت میں کوئی کمی دکھائی نہیں دے رہی، گزشتہ سال 7 اکتوبر سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا تھا، غزہ پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک34 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، شہید ہونے والوں میں 9ہزار سے زائد خواتین،13ہزار سے زائد بچے مارے جا چکے ہیں، گزشتہ 6 ماہ کے دوران اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے 196 سے زائد امدادی کارکن اور 100 سے زائد صحافی مارے گئے، اسرائیلی فوج کی جانب سے ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، غزہ کی تقریبا 20 لاکھ آبادی اس وقت بھوک کا شکار ہے، اسرائیل کی جانب سے اس وقت بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، بظاہرعالمی طاقتیں اسرائیل اور حماس کے درمیان خفیہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، مگر کسی بھی قسم کے امن معاہدے کا امکان کم ہی دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف اگر مسلم امہ کی بات کریں تو وہ بھی اس وقت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اسرائیل کا ہاتھ روک سکے اور اسرائیل اگر یہ سب کچھ کر رہا ہے تو امریکہ اور مغربی ممالک کی شہ پر کر رہا ہے۔ اگر امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی آج بند کر دیں تو اسرائیل کیلئے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا لیکن مغربی ممالک جان بوجھ کر نہیں چاہتے کہ اسرائیل اور فلسطین کا تنازع ختم ہو وہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ یوں ہی جاری رہے۔پاکستان کی انسانی حقوق کی کونسل میں قرار داد سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرار داد منظور ہوئی، سلامتی کونسل کی قرارداد ہو یا انسانی حقوق کونسل کی قرارداد عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے،اقوام متحدہ ایک عالمی ادارہ ہے اسے اگر اپنی ساکھ کو بحال کرنا ہے تو اس جنگ کو روکنے کیلئے امریکہ اور یورپ پر دباؤ ڈالنا ہو گا کیوں کہ اگر امریکہ اور یورپ چاہے گا تو یہ جنگ رکے گی وگرنہ غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی یوں ہی جاری رہے گی۔ دوسری طرف اب اس جنگ کو بند کرنے کیلئے اسرائیل کے اندر بھی احتجاج ہو رہا ہے اور نیتن یاہو کیخلاف ہزاروں یہودی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور وہ بھی اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں کیونکہ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے باوجود اسرائیل حماس کا وجود مٹانے میں ناکام رہا ہے اور یہی چیز یہودیوں کو پریشان کر رہی ہے کہ اگر ہزاروں فلسطینی شہید کرنے کے باوجود بھی حماس کا وجود برقرار ہے اور فلسطینیوں کا جذبہ شہادت بھی قائم ہے تو اس سے بہتر ہے کہ امن سے رہا جائے اور اسی مقصد کیلئے اب اسرائیلی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ کیوں کہ ایک جانب ہمارے ہزاروں فلسطینی بھائی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں تو دوسری جانب عید کا موقع بھی ہے تو ہمیں اس عید کے موقع پر اپنے فلسطینی بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہئے اور انہیں اپنی دعاؤں میں خصوصا یاد کرنا چاہئے کیونکہ ہم انفرادی طور اگر کر سکتے ہیں تو ان کیلئے دعا ضرور کریں اور اس کے علاوہ کچھ امدادی تنظیمیں فلسطینیوں کی امداد کیلئے بھی متحرک ہیں تو جتنا ہو سکے اپنے فلسطینی بھائیوں کی مالی امداد کریں۔ جنگ میں بچ جانے والوں کو خوراک پہنچائی جا سکے، انہیں ادویات مہیا کی جائیں کیونکہ غزہ کا الشفا ہسپتال بھی اسرائیل کی بمباری میں تباہ و برباد ہو چکا ہے (جنگوں میں تو ہسپتالوں اور تاریخی عمارات کو جنیوا معاہدے کے تحت تحفظ حاصل ہوتا ہے اور یہ جنیوا معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے لیکن اسرائیل کو اس وقت کوئی بھی پوچھنے والا موجود نہیں)ہمارے فلسطینی بھائیوں کو ادویات کی ضرورت ہے تو ان کی مدد کریں اور ان کیلئے خصوصی دعائیں کریں تاکہ اللہ تعالی ہمارے فلسطینی بھائیوں کوظالم اور قابض اسرائیل کے ظلم سے نجات دیاور مسلم امہ میں اتحاد کی بھی دعا کریں کیونکہ اگر مسلم امہ ایک ہوتی،یک جان ہوتی تو فلسطینی بھائیوں کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔