قوم کے وسیع تر مفاد میں

ٹیلی فون ابھی بہت پرانا قصہ نہیں ہوا۔ ٹیلی فون عام کیا ہوا،گرلز کالج کے باہر کھڑے اکثر لڑکے کسی نہ کسی طرح لڑکیوں کے گھر کا ٹیلی فون نمبر حاصل کرکے فون کرتے۔ اکثر لڑکیوں میں بھی جرائت آگئی اور دیئے گئے عاشقی وقت کے مطابق وہ بھی ٹیلی فون کے گرد منڈلاتی رہتیں۔ اگر عین وقت پر ٹیلی فون ابا جی اٹھا لیتے، تو دوسری طرف دل ہی دل میں موٹی موٹی گالیاں دے کر فون بند کر دیا جاتا۔ پھر آگیا موبائل کا زمانہ اس پہ ملنے والے نائٹ پیکجز نےَ لوگوں کو گالیوں سے انجان اور گلیوں کو سنسان کر دیا۔اکثر لڑکیاں گھر والوں کے سامنے موبائل پر تہجد کا الارم لگاتیں اور اٹھ کر واجد سے بات کرتیں. پھر موبائل سے چھلانگ لگی سوشل میڈیا پر، جس نے سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ بلکہ اس پر انٹری دینے والوں نے تو جینا حرام کر دیا ہے۔ محبت کا اب یہ عالم ہے کہ فیس بک آئی ڈی بناؤ اور تھوک کے حساب سے جان نثار پاؤ۔ ان میں سے اکثر کا عشق فیس بک کی فرینڈ ریکوسٹ سے شروع ہوکر واٹس اپ کی ویڈیو کال پر ختم ہوجاتا ہے. کچھ نثاران حسن واٹس اپ تک کا طویل سفر بھی طے نہیں کرتے۔ فیس بک پر ہی فیس دیکھ کر ان کی محبت ٹھاہ کر کے ہلاک یعنی بلاک ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ سیرت کے نام پر گھر تک کی راہ دیکھتے ہیں۔ آگے ان کی قسمت اگر سیرت بعد میں صورت سے مل جائے۔ کچھ لڑکیاں محبت کے نام پر دھوکہ کھاتی ہیں تو کچھ کا بہتر کی تلاش میں بریک اپ ہو جاتا ہے۔ لیکن اب بات خالی محبت تک نہیں رہی۔جھوٹی سچی من گھرٹ باتیں، نجی آڈیوز نازیبا ویڈیوز لیک ہوتی رہتی ہیں۔ کس کا شملہ ہے جو اس فتنے سے بچ سکا۔
سوشل میڈیاء یلغار نے نوجوانوں کو تو سحر میں باندھا ہی تھا بزرگ بھی باز نہیں آتے۔ سوشل میڈیا پہ مصروف رہنے سے دوچیزیں زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ ایک بینائی دوسرا اخلاق۔ بینائی متاثر نہیں ہونی چاہیئے تھی اخلاق کی خیر تھی۔
اس پر مزید غضب سرکار دشمن عناصر حکومت بدنام کرنے کے لیئے بھی عجیب قسم کی پوسٹیں کرتے ہیں جس سے سرکار کے خلاف منفی پروپیگنڈا ہوتا ہے یہ سب سے گندی بات ہے۔
دشمن کی اصلاح کے لیئے شدید ضروری ہے کہ سرکار مخالف پوسٹوں کو ڈیلیٹ کر دیا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چند پوسٹوں کو ڈیلیٹ کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ حکومت کو چاہیئے جس طرح ایکس کو قابو کیا ہے اسی طرح پورے سوشل میڈیا کے بے قابو جن کو بوتل میں بند کرے اور دور غاروں میں پھینک آئے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی نکیل ڈالے، یہ بھی وقت بے وقت بریکنگ نیوز چلا کر لوگوں کو ذہنی مریض بنا رہا ہے۔ صرف ایک سرکاری ٹی وی چلے جو رات گیارہ بجے بند ہو جائے، اس سے عوام میں جلد سونے اور سویرے اٹھنے کی عادت پیدا ہوگی جو صحت کے لیئے بہت ضروری ہے۔
نوجوانوں کو گمراہ کرنے والی چیزیں بند ہوں گی تو وہ مذہب کی طرف راغب ہوں گے۔ ان فضولیات کے بند ہونے سے بجلی کی بچت ہوگی تو بل بھی کم آئیں گے۔ تصور کیجئے کیا پر سکون ماحول ہو گا کہیں سے اغوا کی خبریں سننے کو نہیں ملیں گی۔ کسی کو بچیوں کے ساتھ کی گئی زیادتی کا پتہ نہیں چلے گا، تو ایسے کیسز میں خود بخود کمی آجائے گی، سرکار کے خلاف منفی پروپیگنڈا بند ہو تو سرکار بھی عوام کی فلاح کی طرف دھیان دے سکے گی۔ سوچیئے جب رابطے کا ہر وسیلہ بند ہو گا تو زندگیوں میں سکون آجائے گا،گلیاں آباد ہوجائیں گی، بچے موبائل کی بجائے میدانوں میں کھیلیں گے۔ ہر جگہ امن ہوگا، سکون صرف قبر میں نہیں قبر سے باہر بھی مل جائے گا۔ تو بس پھر نوجوانوں کی ذہنی، بزرگوں کی اخلاقی صحت اور قومی مفاد کے لیئے سرکار کو اب ڈٹ جانا چاہیئے۔ اور سوشل میڈیا سمیت رابطے کی ہر چیز بند کردینی چاہیئے۔ قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ کڑوی گولی کھانی ہی بہتر ہے۔