عوامی سوچ ضروری

ریاست ہی عوام کے حقوق کی عکاسی کرتی ہے یہ ایک مستقل ادارہ ہے اور حکومت ریاست کا حصہ ہے۔ مغربی اور مشرقی فلاسفرز کی سیاسی فلسفی کا محور ہی ریاست ہے، ریاست میں عوام کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، عوام ہی اصل میں ایسی قوت ہے جو ریاست کو مضبوط اور استحکام لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ریاستی فرائض عوام کے لیے بہت ضروری ہیں ارسطو اور افلاطون کی ریاست کے بارے میں ایک مکمل تھیوری ہے جس کی بنیاد پر تقریبا پوری دنیا میں ریاست کے فرائض تعین کرنے میں مدد ملتی ہے ریاست عوام کو انصاف فراہم کرتی ہے تو عوام کا اعتماد ریاست پر قائم رہتا ہے عدالتی نظام کی آزادی اب پاکستان میں سوالیہ نشان ہے کیونکہ ریاست کے تین اہم ادارے پارلیمینٹ،مقننہ،عدلیہ کے اختیارت کی تقسیم میں جب تک عدم مداخلت کا تصور پایا جاتا ہو تو معاشرہ کی ترقی اور ملک کا استحکام رک نہیں سکتا، جب استحکام رک جاتا ہے تو معاشرہ کا ہر شعبہ زوال کی طرف سفر کرنا شروع کر دیتا ہے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ریاستی اداروں کے درمیان جنگ عرصہ سے جاری ہے جس سے ملک کو بہت نقصان ہو رہا ہے اور ناہمواریت کے پہلووں کو تقویت مل رہی ہے۔ آئین میں ترامیم کرتے وقت عوامی امنگوں کا خیال رکھنا حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے لیے لازم ہوتا ہے قوم اورملک کے عوام عدلیہ کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں آئین میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا حق ہوتا ہے لیکن ایسی کوئی ترمیم نہیں کرنی چاہیے جس سے عوامی رد عمل سامنے آئے کیونکہ پارلیمنٹ عوام کو جواب دہ ہے پارلمینٹ میں ووٹنگ کا طریقہ کار بھی مناسب نہیں لگتا کیونکہ ایک ممبر لاکھوں ووٹ لیکر پارلیمنٹ پہنچتا ہے ووٹنگ کرکے وقت لاکھوں ووٹران کی رائے کو جج کرنے کا طریقہ کار اس کے پاس موجود نہیں ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ وہ 2006 ء کے میثاق جمہوریت کو آگے لیکر چل رہے ہیں۔ میثاق جمہوریت میں تو ریاستی اداروں میں عدم مداخلت کی بات کی گئی تھی عدلیہ کی آزادی ملک کو مضبوط اور پارلیمانی سسٹم کو چلانے کے لیے بہت ضروری ہے دانشوروں اور کالم نگاروں کے تجزیے بھی سامنے آئے ہیں جس میں آئین کی ترامیم پر تنقید بھی سامنے آئی ہے موجودہ اتحادی حکومت کو کئی محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے جس کو حل کرنے کے لیے اسے بڑے تحمل کا مظاہرہ بھی کرنا ہے اور عوامی رائے عامہ کو بھی مد نظر رکھنا ہے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ گورنر پنجاب حکومت پر کھلے عام تنقید کرتے ہیں، جس ریاست کا نظام عدل تباہ ہو جائے اور آزادی سلب کر لی جائے حضورؐ کے فرمان کے مطابق ایسے ملک تباہ ہو جاتے ہیں عدلیہ معاشرہ میں خون کی حیثیت رکھتی ہے اگر عام شہری کے بنیادی حقوق سلب ہو جائیں تو پھر انصاف بھی ختم ہو جاتا ہے اب تو سپریم کورٹ میں عام شخص انصاف کے حصول کے لیے کیس بھی نہیں لڑ سکتا کیونکہ سپریم کورٹ میں کیس داخل کرنیکی فیس لاکھوں میں کر دی گئی ریاستی اداروں کی ایک دوسرے میں مداخلت بڑھنے سے مسائل میں شدت آتی جا رہی ہے ریاستی ادارے ایک دوسرے کے کاموں میں کھل کر عمل و دخل کرتے ہیں۔ کوئی اس کے سد باب کے لیے لائحہ عمل نہیں بنایا جا رہا۔ مداخلت کی ایسی شدت ریاست کی بنیادوں کو کمزور کرتی نظر آتی ہے۔ صوبوں کے این ایف سی ایوارڈ کی بات بھی سامنے آئی بلدیاتی اداروں کی فعالیت پر سوچا جا ریا ہے اور پنجاب بلدیاتی ایکٹ 2024ء پر بھی کام مکمل ہو گیا ہے۔ ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ملک میں بلدیاتی ادارے با اخیتار ہونا چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر عوام کے مسائل بھی حل ہو سکیں اور ترقیاتی منصوبے بھی آسانی سے مکمل ہو سکیں میٹروپولین یورپی ممالک میں مکمل با اختیار ہے۔ انوسٹی گیشن کے قوانین میں بھی یہ ممالک گرفت رکھتے ہیں، بلدیاتی نظام کی مضبوطی اصل میں ملک کو با اختیار بنانا ہے۔ حکومت گرنے کے جو خدشات بر سر اقتدار سیاسی پارٹیاں محسوس کر رہی تھیں، اب وہ نہیں ہیں، حکومت کے لیے مشکلات اور پریشانیاں بہت کم رہ گئی ہیں اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں رہا فارم 47 کامعاملہ ابھی دفن نہیں ہوا،سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اب حکومت پانچ سال آسانی سے مکمل کر ے گی کیونکہ راستے میں جتنے بھی کانٹے تھے ان کو صاف کر دیا گیا مولانا فضل الرحمن زیرک سیاست دان ہیں حکومت ان کے ساتھ بھی ہاتھ کرتی نظر آتی رہتی ہے مولانا اب برملا کہہ رہے ہیں کہ نئے انتخابات ضروری ہیں اور وہ کسی نئی ترمیم کا ساتھ نہیں دیں گے وہ اپوزیشن میں رہ کر حکومت کو کتنا ٹف ٹائم دیتے ہیں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں کیس عدالتوں میں پینڈنگ ہیں جس پر چیف جسٹس نے اظہار افسوس بھی کیا ہے اور کیسوں کے نظام کو درست کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے عام آدمی کو انصاف ملنا اب مشکل ہو گیا ہے عدلیہ پر اب مزید بھاری ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہے اور نئی عدلیہ کے لیے ایک امتحان ہے اور عوام کی امیدیں وابستہ ہیں پانچ جج اپنے حقوق کے لیے سپریم کورٹ بھی چلے گئے ہیں اور عدلیہ کے اندر اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی تیاروں کا اعلان بھی کر چکی ضروری ہے کہ عدلیہ کی حفاظت کیلیے معاشرہ اپنا کر دار ادا کرے ملک کے حالات اب عوامی سوچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں نوجوان پڑھے لکھے اس سوچ میں پھنس گئے ہیں کہ اب ملک میں ان کا مستقبل کیا ہے اور انھوں نے زندگی کس طرح گذارنی ہے بہت سے سوالات ان کے ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کے وہ متمنی ہیں اداروں کو اپنا اپنا رول ادا کرنا ہے جس سے ملک کی بہتری اور سیاسی کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے عوامی رائے کی سوچ کے دھاروں کی بھی نگرانی ضروری ہے کیونکہ عوامی سوچ ہی اصل میں ملک کی سوچ ہوتی ہے جس کا خیال رکھنا مقتتدر حلقوں کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں لہذا سوچ کو بہتر اور مثبت کرنا سب سے ضروری ہے سیاست دانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے ملک سے محبت کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔