آزادی اور پاکستان 

آزادی اور پاکستان 
آزادی اور پاکستان 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یقینا زندگی امتحان کا نام ہے ، جہاں ناکامیاں ہیں، وہیں کامیابیاں بھی ہیں، رات ہے تو دن ہے ، دھوپ ہے تو چھاﺅں، زندگی جہاں تلخ ہے وہاں یہ مدھر اور میٹھی بھی ہے ، دکھ سکھ تو ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں، جہاں ہمیں کچھ کھونے کا دکھ ہوتا ہے، وہیں کچھ پانے کی خوشی بھی۔۔۔ گویازندگی مثبت و منفی رویوں کا امتزاج ہے۔ 
ہرسا ل اگست کی 14تاریخ کوقوم یوم آزادی مناتی ہے اور مناتی رہے گی ۔ منانا بھی چاہیے تاکہ غلامی اور آزادی کے فرق کو سمجھ کر جی سکیں۔ آنیوالی نسلوں کو بھی سمجھا سکیں کہ آزاد وطن اور آزادی عظیم الشان تحفہ ہے ، اس کی قیمت صرف وہی جانتے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو کر چکائی ہے ۔ وطن کی خاطر اپنا سب کچھ وار دینے والے خاندانوں کی تعداد بے شمار ہے اور ان پر جو بیتی، وہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل تو ہے ہی لیکن بہتر وہی جانتے ہیں کہ کیسے خالی ہاتھ لٹتے لٹاتے ، اپنوں کی لاشوں سے گزر کر خون کے آنسو پیتے اس پاک دھرتی پر پہنچے ۔
ایک الگ مسلمان ریاست کے اعلان کے بعد مسلمانوں کو ہجرت کا کہہ دیا گیاتھا، الگ وطن جہاں سب کیلئے خوشی کا باعث تھا، وہیں کچھ معززین ہندوستان کو ہی اپنا وطن مانتے تھے، جب ہجرت شروع ہوئی تو کئی لوگوں کا خیال تھا کہ ہمیں ہجرت نہیں کرنی چاہیے ،کوئی نقصان یا خطرہ نہیں تو پھر ہمیں سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ جانے کو ترجیح نہیں دینی چاہیے ۔پھر جیسے ہی قیام قیام اور حدود بندی کا اعلان ہوا تو اچانک سب کچھ بدل گیا، خیالات اور سوچوں نے بھی کروٹ لی اور جیسا پہلے تھا، ویسا کچھ نہ رہا۔ 
متحدہ ہندوستان جہاں1857ءکی جنگ آزادی تک ایک عام ہندو، مسلمان اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ایک جگہ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے لیکن اب ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے تھے، جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، وہاں حفاظت کیلئے داخلی راستوں پر نوجوانوں کو پہرہ پر لگادیاگیا، حالات بے قابو ہونے لگے تو ہندو بلوائی اپنی حدبھول گئے۔ مجبوراً بھارت میں آباد مسلمانوں کو آبائی وطن چھوڑ کر اسلام کے نام پر ‘ بننے والی نئی دھرتی کے لیے ہجرت کرنا پڑی ۔ 
خوف کے سائے تلے اپنی سوچوں میں گم تمام مسلمان ہجرت کیلئے تیار ہوگئے لیکن رخت سفر اور بالخصوص جوان بیٹیوں کی حفاظت والدین کو کھٹک رہی تھی ، بپھرے بلوائی ہجرت کیلئے نکلی بیٹیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیتے، ایک طرف جان و مال کا خطرہ تو دوسری طرف عزت داﺅ پر ۔۔۔ان حالات میںبھی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری اور تمام مصائب کے باوجود نئے وطن کو ترجیح دی، نوجوان لڑکیوں نے عزت کی موت مرنے کو ترجیح دی ۔ اس طرح ہجر ت کے غم کے ساتھ ساتھ مہاجرین کو اپنوں کی موت کا دکھ بھی برداشت کرنا پڑا۔ یہ غم بھی شاید ابھی کم تھا کہ ہجرت کے دوران ہندو بلوائی مسلمان قافلوں پر حملے کرکے انہیں وہیں خون کی ندیاں بہانا شروع ہوگئے، یوں قافلے وحشت وبربریت کی نظر ہوگئے، ایسے ہی قافلوں میں زندہ بچ جانیوالے لٹے پٹے مسلمان اس دھرتی پر پہنچے جسے ہم ’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘کے نام سے جانتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جن مقاصد کے لیے ہم نے وطن حاصل کیا تھا، آیاوہ سب یہاں پورے ہوئے؟ جن بیٹیوں کی عصمت دری کی خوف نے اُنہیں جان دینے پر مجبور کیا، کیا وہ یہاں محفوظ ہیں؟
قیام پاکستان کے وقت تو’ دشمن‘ سے عزت کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا ، آج ایک مسلمان سے ہی دوسرے مسلمان، ایک پاکستانی سے ہی دوسرے پاکستانی کو خطرہ ہے ، کسی کی عزت و جان محفوظ نہیں۔ ہر کوئی خوف کا شکار ہے، چاہے وہ مرد ہو، عورت یا پھر بچی بچہ ۔۔۔۔ آئے روز جرائم کی شرح میں اضافہ رپورٹ ہورہاہے،آزادی کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ اس کے جھنڈے کی طرز پر بنی چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں اگلے روز کوڑے دان میں دکھائی نہیں دینی چاہیں، ملی نغمے اور ترانوں پر جھومنے کے علاوہ وطن کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنیوالوں کے ایصال ثواب کیلئے دعا بھی کریں۔
 ہمیں چاہیے کہ آباﺅ اجداد کی قربانیوں سے حاصل ہونیوالے وطن کو سینچ کر رکھیں، اس سے پیار کریں، اس کو آگے لے جانے کیلئے ہرممکن کوشش کریں، دنیا میں اپنے وطن کا نام روشن کیلئے تگ و دو کریں لیکن ہمارے ہاں سب کچھ الٹ ہے ،افسوس کیساتھ کہنا پڑرہاہے کہ ہمارے حکمران ان قربانیوں کا پاس رکھتے ہیں اور نہ ہی عوام ۔۔۔
میں اپنے رب سے ہوں سوالی 
قائم رہے میرے ملک میں امن وسلامتی

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   ‎

مزید :

بلاگ -