شام کی صورتحال: بڑی طاقتیں سرجوڑ کر بیٹھیں گی، جان کیری ماسکو جارہے ہیں
تجزیہ : آفتاب احمد خان:
داعش کی عراق اور شام میں کارروائیوں سے صرف ان دو ملکوں ہی کو نہیں بلکہ بڑی طاقتوں سمیت پوری دنیا کو پریشانی لاحق ہے، دونوں حکومتیں جنگجوؤں پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے مختلف ملکوں کی فوجی مدد حاصل کی گئی۔ خصوصاً فضائی حملے تواتر کے ساتھ کیے جا رہے ہیں مگر مسئلہ ہے کہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بڑی طاقتیں اس معاملے پر غور کے لئے پھر سر جوڑ کر بیٹھ رہی ہیں۔ یہ بیٹھک اٹھارہ دسمبر کو نیویارک میں ہوگی، یہ دراصل ’’انٹرنیشنل سیریئن سپورٹ گروپ‘‘ کا اجلاس ہے۔ اس اجلاس کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اگلے چند روز میں ماسکو جا رہے ہیں، جہاں وہ روس کے صدر پیوٹن سے ملاقات میں شام کی خانہ جنگی ختم کرانے کی کوششیں تیز کرنے سے متعلق بات چیت کریں گے۔
جان کیری کا کہنا ہے کہ انہیں روس سے اچھے جواب کی توقع ہے کیونکہ وہ پہلے بھی مختلف عالمی مسائل میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ان کی رائے میں روس شام کے حالات بہتر بنانے کی غرض سے سیاسی سمجھوتہ چاہتا ہے، اگرچہ وہاں امریکہ اور روس کے مفادات متضاد ہیں اور روس اپنے مفادات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
شام کے صدر بشارالاسد کو داعش اور دیگر گروپوں کی طرف سے بغاوت کا سامنا ہے جبکہ روس بلاشبہ بشارالاسد کی سیاسی حمایت اور فوجی مدد کر رہا ہے۔ یہ امر فی الحال مشکل دکھائی دیتا ہے کہ شام کی صورتحال بہتر بنانے اور وہاں امن کے قیام کے سلسلے میں روس اور امریکہ مل کر کام کرسکیں گے۔ شام میں ایران کا کردار بھی بہت اہم ہیں، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جان کیری نے شام کے حوالے سے روس کے ساتھ امریکی تعلقات میں پائی جانے والی دوری پر بات چیت کے لئے مئی میں بھی صدر پیوٹن سے ملاقات کی تھی اور اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ روس کے علاوہ ایران بھی شام کا مسئلہ سیاسی طور پر حل کرانے اور داعش کے خلاف فوجی کارروائیاں بڑھانے میں تعاون کرے گا۔ شام کو دراصل دو طرح سے سنگین اندرونی صورتحال کا سامنا ہے، ایک تو داعش ہے اور دوسرے صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے باغی ہیں۔ روس بشار الاسد کا حامی ہے جبکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ شام میں کسی سیاسی سمجھوتے کے لئے بشارالاسد کا اقتدار چھوڑنا ضروری ہے۔
صدر بشارالاسد اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں، روس ان کی مدد جاری رکھنا چاہتا ہے، امریکہ اور ایران اپنے مفادات سے دستبردار ہوتے نظر نہیں آتے، داعش کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے بڑی طاقتیں کسی مشترکہ حکمت عملی پر نہیں پہنچ سکیں، ایسے میں شام کی صورتحال بہتر ہونا فی الحال بڑا مشکل نظر آرہا ہے۔