وہؐ آئے رحمت دوجہاں بن کر!

وہؐ آئے رحمت دوجہاں بن کر!
 وہؐ آئے رحمت دوجہاں بن کر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللہ کی کائنات میں رنگا رنگ تخلیق نظر آتی ہے۔ ہرتخلیق کی اپنی شان اور اپنی خصوصیات ہیں۔ ہر چیز کو دیکھ کر رب کائنات کے وجود کا یقین ہوتا ہے۔ کوئی بھی شے بلاسبب اور عبث پیدا نہیں کی گئی۔ حاصل کائنات انسان ہے اور عالم انسانیت کی بے مثال شخصیت محمدﷺعربیؐ ہیں۔

آپؐ دنیا میں تشریف لائے تو رحمتوں کی برسات شروع ہوئی ۔ آپؐ دنیا سے گئے تو ایک بہترین معاشرہ، مثالی نظام اور قرآن وسنت کی روشنی انسانیت کے حوالے کرگئے۔

آپؐ کی پیدائش اور بچپن سبھی ادوار میں ایسے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ ملتا ہے کہ دل ونگاہ ربّ کائنات کی ربوبیت اور حاصل کائنات کی عظمت سے مالامال ہوجاتے ہیں۔ حضورنبی اکرمؐ ﷺکا بچپن بنی سعد میں گزرا۔

حلیمہ سعدیہ اور ان کے خاندان کو اسی دُرّیتیم کی وجہ سے چار چاند لگ گئے۔

ابن کثیرؒ کے مطابق آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر میں داخل ہوئے تو ان کے ورود مسعود کے ساتھ ہی خیروبرکت کا نزول شروع ہوگیا اور اس کا حال سناتے ہوئے جناب حلیمہ سعدیہ نے بتایا کہ ان کی بکریاں اس سے قبل بہت کم دودھ دیتی تھیں لیکن جیسے ہی آپ ان کے گھر میں پہنچے تو ان ہی بکریوں نے اتنا دودھ دینا شروع کردیا جو کسی معجزے سے کم نہیں تھا اور یہ خیر وبرکت روز افزوں تھی۔ فلم یزل اللّٰہ عز وجل یزیدنا خیرا۔

اللہ تعالیٰ خیروبرکت میں مسلسل اضافہ کرتا چلا جارہا تھا۔ ہماری بکریوں کے دودھ میں اس قدر اضافے کی خبر سب لوگوں کو ہوئی۔ انھوں نے صحرا وجنگل میں اپنی بکریاں ہمارے ریوڑ کے ساتھ ملا کر چرانا شروع کیں۔ ان کو بھی اس برکت میں سے اللہ نے حصہ عطا فرمایا۔

آخر ایسا کیوں نہ ہوتا، وہ جن کی خاطر دو جہاں پیدا کیے گئے، ان کے وجود مسعود سے پوری انسانیت کو نفع پہنچانا مقصود تھا۔ وہ رحمۃللعالمین کے عالی لقب سے نوازے گئے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص405)


حضرت حلیمہ بیان فرماتی ہیں جب میں نے دو مہینے تک آپؐ کو دودھ پلایا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے دودھ میں اللہ تعالیٰ نے بہت اضافہ کردیا ہے۔ جب آپ سات مہینے کے ہوئے تو ہرچیز کو سمجھتے تھے۔ آٹھ مہینے کی عمر میں آپؐ نے باقاعدہ بولنا شروع کردیا۔

جو بات بھی آپ سنتے اسے دہراتے۔ نو مہینے کی عمر میں آپؐ نے فصیح عربی بولنا شروع کردی۔ حضرت ابن عباس کی ایک روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کلام جو فرمایا وہ یہ تھا: اللہ اکبر کبیرا، والحمدللہ کثیرا، وسبحان اللہ بکرۃً واصیلًا۔ یعنی اللہ سب سے بڑا ہے، اس کی کبریائی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تعریفیں سب اللہ کے لیے ہیں، اسی کی حمد کثرت کے ساتھ کی جانی چاہیے، صبح وشام اس کی تسبیح کرنا ہی سعادت ہے۔


ایک دوسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک رات کو آپ حضرت حلیمہ کے پاس سوئے ہوئے تھے کہ آپ کی آنکھ کھلی اور آپؐ نے یہ الفاظ کہے: لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ قُدُّوْساً قُدُّوْساً نَامَتِ الْعُیُوْنُ وَالرَّحْمٰنُ لَا تَأْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ ہر عیب سے پاک ہے، وہ سراپا پاکیزگی ہے، (مخلوق کی) آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن رحمن کی شان یہ ہے کہ اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج1، دارالکتب العلمیہ بیروت، ص135)


حلیمہ فرماتی ہیں کہ اسی عمر میں آپؐﷺ خوب چلنے پھرنے لگ گئے۔ آپ بچوں کے ساتھ تیراندازی بھی کرنے لگے۔ ابتدائی دنوں میں جب آپؐ میری گود میں ہوتے تھے تو ایک دن میں نے عجیب منظر دیکھا کہ ہماری بکریوں کا ریوڑ میرے سامنے سے گزرا۔

فاقبلت واحدۃ منہن حتی سَجَدَتْ لَہٗ وَقَبَّلَتْ رأ سَہٗ ثَمَّ ذَہَبَتْ اِلٰی صَوَاحِبِہَا۔ اس ریوڑ میں سے ایک بکری ہماری طرف آئی اور اس نے آکر سجدہ کیا،پھر میری گود میں ننھے معصوم محمدؐ کے سر کو چوما۔

سر چومنے کے بعد وہ دوڑ کر اپنے ریوڑ میں شامل ہوگئی۔ جس کی خاطر ابوجہل کی بند مٹھی میں پتھر کی کنکریوں کو کلمہ پڑھنا تھا، اس کے سر کو بکری نے بوسہ دیا تو کیا تعجب! (السیرۃ الحلبیۃ، ج1، دارالکتب العلمیہ بیروت، ص133)


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسال تک حضرت حلیمہ کا دودھ پیا، پھر انھوں نے اپنے بیٹے عبداللہ اور رضاعی بیٹے محمدؐﷺ دونوں کا دودھ چھڑا دیا۔ دونوں بچے تندرست وتوانا تھے۔ حلیمہ سعدیہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ چھڑانے کے بعد مکہ لے کر آئیں۔

انھیں اس بات کا احساس تھا کہ اب ان کے گھر سے وہ برکت جو اس یتیم بچے کی وجہ سے حاصل تھی رخصت ہوجائے گی۔ اس سوچ نے انھیں کچھ غم زدہ بھی کردیا تھا۔

پھر محمد ﷺعربیؐ کے ساتھ ان کی قلبی محبت اتنی زیادہ تھی کہ آپ کی جدائی کے تصور سے بھی ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ وہ جانب مکہ رواں دواں تھیں، مگر دل کی کیفیت ناقابل بیان تھی۔ بیم ورجا کے عالم میں جب مکہ پہنچیں اور آمنہ کا لعل ان کی گود میں دیا تو انھوں نے بے ساختہ اپنے لخت جگر کو چومنا شروع کردیا۔ اس زمانے میں مکہ میں کچھ وبا سی پھیلی ہوئی تھی۔


حلیمہ سعدیہ جب انعام واکرام لے کر واپس جانے لگیں تو بے ساختہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا اور والدہ نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ بچے کو کچھ مزید عرصے کے لیے حلیمہ کے ساتھ بھیج دیا جائے۔

چنانچہ حلیمہ کی قسمت میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مزید رفاقت لکھ دی گئی۔ حضرت حلیمہ خود فرماتی ہیں کہ جب میں نے درخواست کی کہ چند مہینے بچے کو میرے پاس مزید رہنے دو تو انھوں نے خوشی سے اجازت دے دی۔ یہ سن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں دعائیں دیتی ہوئی اپنے گھر کی جانب چل پڑی۔


نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ حضرت حلیمہ سعدیہ اور ان کے قبیلے کے ساتھ مشفقانہ سلوک فرماتے رہے۔ فتح مکہ کے بعد جب غزوۂ حنین ہوا اور قبیلہ بنی سعد کے کچھ لوگ گرفتار ہوکر آپؐ کے سامنے آئے تو آپ ان کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آئے۔ آپ کی رضاعی والدہ اور والد بھی آپؐ کے پاس مدینہ حاضر ہوتے رہتے تھے۔

ایسے ہر موقع پر آپؐ ان کے لیے اپنی چادر بچھاتے اور انھیں اس پر بٹھاتے۔ پھر انھیں کبھی خالی ہاتھ واپس نہ بھیجتے۔ غزوۂ حنین کے بعد آپ کی بہن شیما بنت الحارث بن عبدالعزیٰ بھی گرفتار ہو کر آپ کے سامنے آئیں اور اپنا تعارف کرایا تو آپ نے ان کو پہچاننے کے بعد کھڑے ہو کر استقبال کیا اور ان کے لیے بھی اپنی چادر بچھا دی۔

ان کے قبیلے کے تمام جنگی قیدیوں کو رہا کردیا گیا۔ یہاں تک کہ مالِ غنیمت میں سے بھی بیش تر حصہ ان لوگوں کو لوٹادیا گیا۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے ہماری کتاب رسول رحمتؐ تلواروں کے سائے میں ج4، ص230۔231، مغازی للواقدی، ج3، ص913۔914، سیرۃ ابن ہشام، القسم الثانی، ص458)۔

مزید :

رائے -کالم -