فقط تھانیدار معطل کرنے سے کیا ہو گا ؟؟
ہم میں سے ہر دوسرا شخص سہولیات کا طالب ہے لیکن ان سہولیات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بے خبر ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کا جدید ترین نظام ہمارے در پر ہو لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے لئے ہم بذات خود کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ ہم مہنگائی کا رونا بھی روتے ہیں اور موقع ملتے ہی خود بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کرتے ۔ ہم کرسمس کے موقع پر یورپ میں اشیا ضروریہ کے نرخ کم ہونے کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں اور رمضان کے آغاز میں ہی ریڑھی سے لے کر شاپنگ مال تک ہر جگہ اشیا کا نرخ بھی بڑھا دیتے ہیں ۔ ہمارا المیہ صرف اتنا سا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی بہتری کے لئے خود کچھ نہیں کرنا چاہتے اور اس پر یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ ہر محکمہ درست ہو جائے ۔ اقبال تو کہہ گئے کہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر فرد واحد ہی ملت کا مقدر بہتر بنانے کے لئے کچھ نہ کرے تو پھر ملت کہاں جائے گی ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان مسلسل بہتری کی جانب سفر کر رہا ہے ۔آج سے دس سال قبل اورآج کے پاکستان میں بہت فرق ہے جبکہ 40 سال پہلے اور آج کے پاکستان میں تو زمین آسمان کا فرق ہے ۔ یہی فرق بتاتا ہے کہ ہم مسلسل ترقی کا سفر طے کر رہے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے اکثر محکمے آئیڈیل ماحول میں کام نہیں کر رہے ۔ آج بھی ہمارے کئی محکموں کے پاس نہ تو ویسے وسائل ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے محکموں کو میسر ہیں اور نہ ہی ان محکموں کو اچھی صورت حال کا سامنا ہے اوپر سے ہماری منفی سوچ کا بھی ہماری تباہی میں بڑا ہاتھ ہے ۔ بدقسمتی سے ہر دوسرا پاکستانی یہ فرض کر بیٹھا ہے کہ سرکاری محکموں میں ملازم ہر شخص ہی کرپٹ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کا تعلق کسی محکمے یا شعبے سے نہیں بلکہ خون اور تربیت سے ہے ۔ ہم اور آپ جس سے دودھ خریدتے ہیں اس کا تعلق کسی سرکاری محکمے سے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم سب کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ دودھ میں پانی ملا ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قصور محکموں یا اداروں کا نہیں بلکہ افراد کی تربیت کا ہے ۔
اگلے روزایک ریسرچ کے دوران عجیب انکشاف ہوا ۔ میں اس کوشش میں تھا کہ جرائم کی صورت حال کا جائزہ لے سکوں ۔ ریکارڈ نے البتہ یہ بتایا کہ جو چند جرائم رونما ہوتے ہیں یہ بھی غنیمت ہیں ا ورہم جس صورت حال سے گزر رہے ہیں اس میں شاید جرائم کنٹرول کرنا ناممکن ہو جاتا ۔ یقیناًوہ ایماندار اور بہادر پولیس افسران و اہلکار خراج تحسین کے مستحق ہیں جن کی بدولت جرائم کی صورت حال بے قابو نہیں ہوئی ۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف لاہور کی آبادی ہی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ۔ دوسری جانب اس ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر میں تاحال صرف 84 پولیس اسٹیشن ہیں ۔ اس شہر کے تمام تھانوں میں افسروں سمیت صرف 6277 اہلکار تعینات ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق لاہور جیسے بڑے شہر کے 84 تھانوں ، 35 سب اور 6 ڈویژنوں میں صرف 41 انسپکٹرز، 300 سب انسپکٹرز ، 576 اے ایس آئی ، 902 ہیڈ کانسٹیبل اور 4458 کانسٹیبل تعینات ہیں ۔
اگر لاہور کے تمام پولیس افسر و اہلکاروں سے دیگر تمام ڈیوٹیز واپس لے کر انہیں صرف شہریوں کی نگرانی پر تعینات کر دیا جائے تو ان اعداد و شمار کے حساب سے ایک اہلکار کے حصے میں لگ بھگ 24 ہزار شہری آتے ہیں یعنی ایک ایک اہلکار کو 24, 24 ہزار شہریوں پر نظر رکھنا ہو گی۔ دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ یہاں کئی سیکشن ہیں اور الگ الگ ڈیوٹیاں ہیں ۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تفتیش کے شعبے میں ایک ایک شخص کو بیک وقت کتنے کیسز کی تحقیقات کرنا پڑتی ہوں گی اور آپریشن ونگ میں تعینات اہلکاروں کو بیک وقت کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا ۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ کسی گھر سے پتنگ اڑنے پر بھی پولیس اہلکار سے تھانیدار تک کو معطل کر دیتے ہیں لیکن ان کے مسائل سننے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ ارباب اقتدار ہر دوسرے جرم پر تھانیدار کو معطل کرنا تو اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن پولیس فورس میں آبادی کے تناسب سے اضافہ نہیں کرتے ۔ اگر آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید تھانے بنائے جائیں اور اسی تناسب سے مزید بھرتیاں کی جائیں تو اس سے جہاں جرائم میں کمی آئے گی وہیں نوجوانوں کے روزگار کے مسائل بھی حل ہوں گے ۔ اگر نوجوانوں کو روزگار ملنے لگے تو کئی ’’بیروزگار‘‘ مجرم ختم ہو جائیں ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں ۔ہماری سرکار کو یہ مساحل کرنا ہی ہو گا ۔ مردم شماری کے ساتھ ہی اب آبادی کے تناسب کے لحاظ سے پولیس سمیت ہر محکمے میں نئی بھرتیاں کرنا ہوں گی ۔ اسی طرح تھانوں کی تعدا میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان محکموں کے نئے سروس سینٹر قائم کرنا ہوں گے جو براہ راست عوام کی خدمت سے متعلق ہیں ۔ ہمارے یہاں تو نادرا سینٹر ہی اتنے کم ہیں کہ لوگ ایک کام کے لئے دفاتر سے چھٹی لے کر پورا دن لائنوں میں لگے رہتے ہیں ۔
مجھے پولیس اور آبادی کے ان اعداد و شمار کو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس قدر کم نفری کے ساتھ کیسے پولیس پورے شہر کی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کو سنبھالے ہوئے ہے۔ نفری کی کمی کی وجہ سے ہی ان اہلکاروں کو طویل ڈیوٹیاں دینی پڑتی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ شہری بھی ان کی آنکھ اور کان بننے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک سرکار پولیس کے فنڈ اور نفری میں اضافہ کے لئے عملی اقدامات نہیں کرتی تب تک ہم خود اپنے علاقہ کی سکیورٹی کے لئے پولیس کے مددگار بن جائیں ۔ ہم محلہ کمیٹیاں قائم کر کے علاقہ کے ایس ایچ او سے رابطہ کر سکتے ہیں اور اس سے تربیت لی جا سکتی ہے کہ آخر کیسے عام شہری بروقت پولیس کی مدد کرتے ہوئے اپنے علاقے سے جرائم کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم علاقہ میں جرم ہونے پر فوراً تھانیدار کے خلاف رائے قائم کر لیتے ہیں لیکن محلہ اور تھانے کے درمیان بڑھنے والی دوریاں کم کرنے کے لئے عملی کردار ادا نہیں کرتے ۔ یاد رہے کہ ہر جرم پر ایس ایچ او تبدیل یا معطل کروانا کسی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہم ایس ایچ او کو مورال سپورٹ فراہم کرتے ہوئے علاقے سے جرائم کے خاتمے میں اس کے مددگار بنیں ۔ جس دن کسی ایس ایچ او کو یہ احساس دلا دیا گیا کہ اس کے تھانے کی حدود میں رہنے والا ہر شخص جرائم کے خاتمے میں اس کا معاون ہے اس دن سے انگریز کے دور کی طرح ایک عام اہلکار بھی مجرموں کے گروہ کو محض ایک لاٹھی کے سہارے ہانکتا ہوا تھانے لیجاتا نظر آئے گا ورنہ محض تھانیدار معطل کرنے سے بھلا کیا ہو گا ؟؟؟
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔