دن پھرے ہیں، فقط وزیروں کے

دن پھرے ہیں، فقط وزیروں کے
دن پھرے ہیں، فقط وزیروں کے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تیسرے سال میں ہے، دیکھا جائے تو  ایک طرف تحریک انصاف کی طویل المیعاد پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت آہستہ آہستہ ترقی و استحکام کی جانب بڑھ رہی ہے،عوامی مسائل دیرپا بنیاد پر حل کرنے کی کاوشیں بھی جاری ہیں،ملکی دفاع مضبوط اور مستحکم ہے۔ خارجہ پالیسی بھی بڑی حد تک قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، پاکستان کے گر ے لسٹ سے نکلنے کے امکانات بھی روشن ہیں، اخراجات کم کر کے آمدن میں اضافہ کی کوششیں بھی بار آور ہو رہی ہیں۔


مگر دوسری طرف کرپشن ختم ہونا تو درکنار اس میں خاطر خواہ کمی بھی نہیں آ رہی، وزیر اعظم کلین مین، مگر ان کے اکثر وزرا اس وصف سے خالی ہیں، حکومت کی  تمام تر کوشش کے باوجود عام شہری آج بھی ثمرات سے محروم اور مسائل و مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں،بنیادی ضروریات زندگی کی قیمت میں پہلے ہوش ربا اضافہ ہوا  اور اب اشیاء کی قلت کا سامنا ہے،سرکاری اداروں میں آج بھی عوام دربدر ہیں،رشوت دئیے بغیر عوام کا کوئی جائز کام بھی نہیں ہوتا،تھانہ کلچر بھی وہی ہے،ما تحت عدلیہ میں ڈھاک کے وہی تین پات ہیں،کسان آج بھی شوگر ملز مالکان سے گنے کی مقررہ قیمت وصول کرنے سے قاصر ہے،بلکہ گنا فراہم کرنے کے بعد سالوں معاوضہ کے لئے دھکے کھاتا ہے، گندم کی سرکاری سطح پر خریداری مہم کو آج بھی آڑھتی اور مڈل مین ناکام بنانے پر تلے بیٹھے ہیں،چھوٹا کسان نہری پانی کے حصول کے لئے دربدر ہے، ٹیوب ویل لگانے کی سکت نہیں رکھتا اس لئے اس کی زمین بنجر ہو رہی ہے،قبضہ گروپ آج بھی متحرک ہے،سرکاری اور محکمہ اوقاف کی زمینوں جائیدادوں پر دہائیوں کے بعد آج بھی با اثر افراد کا قبضہ ہے، اگر چہ تعلیم و صحت کے شعبے وزیر اعظم کی ترجیح  میں شامل ہیں اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ان شعبوں کی بہتری کے لئے مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں مگر مطلوبہ نتائج کہیں دکھائی نہیں دے رہے، بقول شاعر


وہی حالات  ہیں  فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے


یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ زرعی ملک غذائی قلت کا شکار ہے، کسان کو  اس کی جنس کا مناسب معاوضہ  نہیں ملتا ،ملیں فینسی کپڑوں کے انبار تیار کر رہی ہیں، مگر غریب کی  بیٹی آج بھی تن ڈھانپنے کے لئے دوگز کپڑے کو ترستی ہے،ملک وسائل سے مالا مال ہے، مگر شہریوں کی  ایک اچھی خاصی تعداد دو وقت کی روٹی سر چھپانے کو چھت،تن ڈھانپنے کو کپڑے سے محتاج ہے۔اور تو اور عوام اب آٹا چینی سے بھی محروم ہو رہے ہیں ادویہ کی قیمت قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہے،گندم چینی کہاں گئی کون عفریت ہے جو ان اشیاء کو بھی نگل رہا ہے،جن میں ملک خود کفیل ہے،مقامی طور پر تیار وہ ادویہ بھی مارکیٹ سے غائب ہیں۔
عوام کو ریلیف دینے کے لئے حکومت کو اشیائے ضرورت کی وافر مقدار میں فراہمی اور قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہو گا،انتظامی مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں،تھانوں کچہریوں میں انصاف نہیں ملتا،آجر اجیر کا استحصال کر رہا ہے کوئی پلیٹ فارم ایسا نہیں جہاں سے شہری انصاف حاصل کر سکے، بغیر سفارش سرکاری ہسپتالوں میں بہتر علاج کی سہولت حاصل نہیں کی جا سکتی، اچھی تعلیم  غریب  بچے کے لئے خواب بن گیا ہے،حکومت کی پالیسیاں اگر چہ عوام کو سہولیات دینے کے حوالے سے بہت اہم ہیں مگر تب تک بے فائدہ ہیں جب تک عوام ان سے مستفید نہ ہو سکیں،ثمرات سے اگر عوام محروم ہیں تو یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ آج بھی با اثر مافیا سہولیات حاصل کر رہا ہے اور عوام محروم و مایوس ہیں۔


  ایک اور اہم بات کہ پی ڈی ایم کا اعلانیہ بہت کھلا ڈھلا ہے جس پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے، ان کی تمام تر کوشش ہے کہ اس بیانیے کو تقویت ملے کہ تمام مسائل کی جڑ موجودہ حکومت ہے جو عوام کو ریلیف دے سکی ہے نہ اپوزیشن کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے دے رہی ہے، بلکہ اس کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری  ہیں۔ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن کے دست ”جمہوریت پسند“ پربیعت کر چکے ہیں،اپنی جماعت کے کارکنوں پر ان کو اعتماد نہیں اس لئے ان کا تمام انحصار مولانا فضل الر حمن پر ہے، جبکہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے بعض معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے جیسا انہوں نے مولانا فضل الرحمان کے اکیلے رائیونڈ جانے پر کیا ہے۔  


اپوزیشن کایہی ایجنڈا ہے کہ تحریک انصاف حکومت عوامی مسائل حل کر نے میں ناکام ہو جائے تا کہ آئندہ الیکشن میں عوام اسے مسترد کر دیں اورانہی پرانے چہروں کی راہ ہموار ہو سکے،دل کو یہ کہہ کر تسلی دینا کہ نواز شریف واپس نہیں آرہے، لہٰذا اطمینان سے عرصہ اقتدار مکمل کر کے آئندہ الیکشن میں جاؤ ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص کنوئیں کی منڈیر پر اس انتظار میں کھڑا رہے کہ پانی اوپر آکر اس کے ہونٹوں سے لگ جائے گا۔اپوزیشن کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنا کر اگر تحریک انصاف کو آئیندہ انتخابی مہم میں جانا ہے تو عوام کے نچلی سطح پر دیرینہ مسائل کو فوری اور مستقل بنیاد پر حل کرناہو گا،اہم ترین دیہی علاقوں میں زراعت، ڈیری،پولٹری اور فش انڈسٹری کو فروغ دیکر روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے،شہری علاقوں میں مزدور طبقہ کو مل اونر کے استحصال سے نجات دلانا اور معاوضہ پورا دلانا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ہے ورنہ بے روز گاروں کی فوج ظفر موج کوئی طوفان برپا کر سکتی ہے، اس مقصد کے لئے انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا،نچلی سطح تک اختیارات کی فوری منتقلی کے لئے بلدیاتی اداروں کو فعال کرنا ہو گا،اس حوالے سے ویلیج کونسل اور پنچائتی نظام کی بحالی کا پروگرام بہت سود مند ہو سکتا ہے، مگر جانے اس کی فعالیت میں کیا رکاوٹ حائل ہے۔ان حالات میں حکومت اگر صرف تھانوں، ماتحت عدلیہ،سرکاری محکموں،امن و امان کی صورتِ حال کو درست، بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی لے آئے تو بہت سے مسائل فوری حل ہو جائیں گے اور اس پر اضافی اخراجات بھی نہیں آئیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -