معدنیاتی وسائل سے استفادہ،درست حل؟

منرلز فورم کے دو روزہ اجلاس کے انعقاد سے حوصلہ افزائی ہوئی، میں ذاتی طور پر وزیراعظم محمد شہباز شریف سے اتفاق کرتا ہوں کہ ملک کے معدنی وسائل سے استفادہ کر لیا جائے تو نہ صرف ملک ترقی کرے گا بلکہ ہم قرضوں سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں،اِس سلسلے میں خصوصی طور پر ریکوڈک کے ذخائر کا ذکر کیا گیا جو بہت بڑا منصوبہ ہے، ٹھیکہ والی غیر ملکی کمپنی کے مطابق یہاں سے تانبے اور سونے کے ذخائر اگلے سال کے دوران نکلنا شروع ہو جائیں گے جبکہ سیندک پر کام شروع ہے اور چینی کمپنی کے سپرد ہے۔ اِس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر نہیں۔ایک طرف دہشت گردی ہو رہی ہے تو اس کے ساتھ ہی بلوچستان لیبر آرمی اور اس جیسی دوسری تنظیمیں اکیلے اکیلے یا مل کر تخریبی وارداتیں کرتی ہیں۔ان سب کو نہ صرف بھارتی ایجنسی ”را“ کی مکمل حمایت و تعاون حاصل ہے،بلکہ بھارت کی طرف سے ایک تنظیم کے سربراہ کو پناہ بھی دی ہوئی ہے،اِس سلسلے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے منرلز فورم سے خطاب کرتے ہوئے یہ یقین دلایا کہ فوج بھرپور سکیورٹی فراہم کرے گی اور یہ واضح ہے کہ فوج دہشت گردی کی سرکوبی میں مصروف ہے اور قربانیاں بھی دے رہی ہے۔ہمارے ملک میں دہشت گردی افغانستان کی سرزمین سے بھی ہو رہی ہے جہاں تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسی تنظیموں کو ٹھکانے ملے ہوئے ہیں۔طالبان حکومت داعش سے اختلاف اور ٹی ٹی پی کے موقف سے اتفاق رکھتی ہے تاہم اسے اون نہیں کرتی،حالانکہ افغانستان کے کئی صوبوں میں تربیتی مراکز کا انکشاف ہوا اور ”را“ کے تعاون کے ثبوت مل چکے ہیں۔اِس حوالے سے دیکھا جائے تو آرمی چیف کی کاوش مثبت تر نظر آتی ہے تاہم بلوچستان کا رقبہ وسیع پہاڑی اور ویران ہونے کی وجہ سے بی ایل اے والے اور دوسرے تخریب کار شاہراہوں پر وارداتیں کرتے ہیں، جبکہ ہمیں ریکوڈک، سیندک اور دوسرے متوقع وسائل سے مستفید ہونے کے لئے گوادر تک سڑک کے علاوہ ریلوے لائن کی بھی ضرورت ہے اور اس کی تعمیر اور ان ذرائع سے آمدو رفت کو بلا خطر سفر بھی درکار ہے،یہ یقینا یہ سب وزیراعظم اور آرمی چیف کی نظر میں ہے۔
وزیراعظم نے معدنی وسائل کے حوالے سے گلگت، بلتستان،آزاد کشمیر اور چاروں صوبوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہاں بھی وسائل دستیاب ہیں،ان میں ہیرے اور دیگر معدنیات بھی شامل ہیں، جبکہ قیمتی پتھر کا ذکر بھی سامنے آیا ہے۔مجھے وزیراعظم کی اِن باتوں سے مکمل اتفاق ہے اور یقین ہے کہ ہمارے ملک کو اللہ نے نعمتوں سے نوازا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا انکشاف77سال ہی کے بعد کیوں ہوا؟ اگر یہ سب وسائل ہیں تو اتنی تاخیر سے کیوں کوشش ہو رہی ہے،حالانکہ اِس دوران غیر ملکی کمپنیوں کو تیل کی تلاش کے لئے بلایا گیا اور ڈھیروں معاوضے دیئے گئے،لیکن تیل کے ذخائر نہ مل سکے اور جو ملے ہیں وہ بھی اتفاق ہی سے مل گئے اور ان سے مستفید ہوا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے تھرکول کا ذکر کیا اور ذخائر کو مثالی قرار دے کر فخرکیا کہ دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ہیں اور ملکی استعمال میں آ رہے ہیں۔
اِس سلسلے میں، میں ماضی میں کئی بار توجہ دِلا چکا اور تجربہ کار حضرات کے انکشاف اور رائے کی روشنی میں عرض کیا تھا کہ ملک میں خصوصاً بلوچستان اور سندھ کے زیریں علاقوں میں تیل کے ذخائر موجود ہیں،لیکن غیر ملکی کمپنیاں تلاش میں مایوسی کا اظہار کریں گی۔اس سلسلے میں 1955-56ء کے سالوں کی بات کروں تو میں کولمبو پلان کے تحت بنائے گئے تربیتی سکول گورنمنٹ ارتھ موونگ ٹریننگ سکول جامشورو میں زیر تعلیم تھا جہاں غیر ملکی لیکچرار اوراستاد تربیتی کورس اور تربیت کا سلسلہ مکمل کراتے تھے، میرے والد صاحب پی ڈبلیو ڈی کی ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ان کے فورمین آبادان پٹرولیم کے ریٹائرڈ ہنر مند تھے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور سندھ میں تیل کے ذخائر موجود ہیں،لیکن غیر ملکی کمپنیاں تلاش میں ناکامی ظاہر کریں گی،کیونکہ انہی کمپنیوں کے پاس مڈل ایسٹ ممالک کے پٹرولیم وسائل کے ٹھیکے اور اجارہ داری ہے اگر بلوچستان اور سندھ میں تیل دریافت ہوتا ہے تو یہ ذخائر مڈل ایسٹ کی سطح سے بھی کم تر سطح سے برآمد ہوں گے اس لئے ان کا انکشاف نہیں کیا جائے گا کہ مڈل ایسٹ کے ذخائر متاثر ہوں گے جو ان کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔
میں نے1970ء کے سال کے دوران ایک پاکستانی انجینئر کا انٹرویو کیا۔انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ سوات اور میانوالی کے علاقے میں فولاد کے ذخائر ہیں سوات میں درجہ اول اور میانوالی میں درجہ دوم کے ہیں۔یہاں جو فولاد(لوہا) برآمد ہو سکتا ہے۔ چھوٹی بھٹیوں کے ذریعے پگھلا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔یہ خبر روزنامہ ”مساوات“ میں لیڈکے طور پر شائع ہوئی۔مزید یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ سوات کے علاقے میں زمرد اور دوسرے قیمتی پتھروں کی بہتات ہے جبکہ قیمتی عمارتی پتھر بھی دستیاب ہیں۔اِسی طرح بڑی بات یہ تھی کہ اپنے چشموں ہی میں سے کئی ایک میں یورینیم کی نشاندہی بھی تھی اور مقدار کے حوالے سے ہمارا ملک خود کفیل ہے۔
دُکھ کے ساتھ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ اب77سال بعد معدنی وسائل کی طرف توجہ دی جا رہی ہے، جبکہ ملک میں سیاسی ابتری ہے،معیشت قرضوں کے عظیم بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اسے دیر آید درست آید بھی نہیں کہا جا سکتا کہ غفلت اور لاپرواہی کا کوئی جواز نہیں اور ان دِنوں بھی ہم کون سی قومی حمیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔سیاسی ابتری ہے،ایک دوسرے سے قطع کلامی ہے،کئی طرح کے نظریئے چل رہے ہیں،تحریک انصاف اور حکمران اتحاد برسر پیکار ہیں۔سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا موقف بالکل ہی مختلف ہے۔دھرنے اور احتجاج ہے، بلوچستان کے قوم پرست اپنی زبان سے نہیں اپنے عمل سے ثابت کر رہے ہیں کہ وہ ”دہشت گردوں +آزادی والوں“کے موقف کے قریب تر ہیں،جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والوں کی نعشوں کو زبردستی ہسپتال سے لے جا کر تو واضح ثبوت بھی فراہم کیا گیا تھا۔
اِس سب کے باوجود میں اپنے وسیع تجربے اور معلومات کی بناء پر منرلز فورم میں ہونے والے انکشافات اور تجاویز کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں،لیکن عرض یہ ہے کہ براہِ کرم ملک کے اندر وسیع ڈائیلاگ شروع کریں۔بات جیت سے مسائل کے حل کے طریقوں پر اتفاق کریں، سب طبقات کو میز پر آنا ہو گا اور اپنے اپنے اتفاق قومی تقاضوں کی روشنی میں طے کرنا ہوں گے،نیت نیک، حالات سازگار ہوں تو مجھے کامل یقین ہے کہ ہمارے تمام مسائل ختم ہو کر ہم خوشحال ملک ہوں گے۔اشرافیہ کو فکر نہیں، عمل کرنا چاہئے کہ میز پر وسائل حل ہوئے تو فائدہ اسی طبقے کو ہو گا، ہم پھر بھی استحصال برداشت کر لیں گے۔
٭٭٭٭٭