خواہشوں کو خبر بنانے والے  

  خواہشوں کو خبر بنانے والے  
  خواہشوں کو خبر بنانے والے  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 خواہشوں کو خبر بنتے سنا تو تھا، دیکھ اب رہے ہیں جب پی ٹی آئی نواز حلقے کھینچ تان کر عمران خان کو پاکستان کیا پوری دنیا کا مقبول ترین لیڈر قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے اور ان کے مخالفین کو سیاست میں کل کا بچہ قرار دے کر مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔ ان حلقوں کی کوتاہ بینی نے پاکستان کو ترقی سے روک رکھا ہے، کیونکہ یہ لوگ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں اور اگر مخالف سیاسی جماعتیں مل کر ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لئے باہم مل بیٹھی بھی ہیں تو انہیں کبھی فارم 47کی حکومت تو کبھی لولے اور لاغر اور کمزور پروجیکٹ کہہ کر مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ 23مارچ کے موقع پر کی جانے والی صدر آصف زرداری کی تقریر کا جس طرح مذاق اڑایا گیا ہے، وہ اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ابھی بھی پاکستان میں انتشار اور تفریق کی سیاست کو ہوا دینے میں لگا ہوا ہے۔ 

دوسری جانب سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اب امریکہ میں دانت نکالتے پائے جا رہے ہیں اور بجائے اس کے کہ پاکستان کے اندر عوام کو عمران خان کی رہائی کے لئے ایک عالمگیر احتجاج کے لئے تیار کریں، مفت کی ٹکٹوں پر مفت کے ہوٹلوں کے مزے اڑاتے پائے جا رہے ہیں۔ وہ وہاں مقیم پاکستانیوں کو کیا پٹی پڑھارہے ہیں، کسی کو کچھ خبر نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ خود پی ٹی آئی کو بھی خبر نہ ہوکہ وہ کیا گل کھلا رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ سلمان اکرم راجہ اور علی ظفر میں ایسی کیا خوبی ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہر روز ان کے آپسی مسائل لے کر بیٹھ جاتا ہے اور دیکھنے والوں کا وقت ضائع کرتا ہے۔ اگر ہمارے ٹی وی اینکروں کی یہ روش جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب خود ان کے اپنے گھر والے ٹی وی دیکھنا بند کردیں گے کیونکہ وہ ملک کے اصل مسائل کو ڈسکس کرنے کی بجائے اس شخص کو ڈسکس کئے جا رہے ہیں،جو آج کے اکثر مسائل کی وجہ ہے، جس کی کوتاہ بینی کے سبب پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔  اگر ان ٹی وی اینکروں میں سے کچھ کو پردہ سکرین سے ہٹابھی دیا گیا ہے تو بھی باقی کے بچ جانے والا انتشاری ٹولہ وہی راگ الاپے جا رہا ہے جس کو سن سن کر کان پک چکے ہیں۔ 

عیدالفطر سے قبل اس انتشاری ٹولے نے بھد اڑائی ہوئی تھی کہ عید کے بعد پی ٹی آئی ملک گیر عوامی تحریک شروع کرنے والی ہے اور ہر شام حکومتی نمائندوں کو بٹھا کر انہیں بچوں کی طرح ڈرایا جاتا  تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے عید کے بعد احتجاجی تحریک بپا کردی تو کیا ہوگا، ملک میں ہونے والی ترقی کا کیا بنے گا، مولانا فضل الرحمٰن عمران خان سے رام ہو گئے تو کیا قیامت آئے گی اور محمود خان اچکزئی بلوچستان سے عوامی سیلاب لے آئے تو پنجاب کہاں کھڑا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔مگر پھر سب نے دیکھا کہ عید سے قبل چائے کی پیالی میں اٹھایا جانے والا طوفان بے کار ثابت ہوا اور عید کے بعد خود پی ٹی آئی کے اندر اختلافات کی خبروں نے ٹی وی چینلوں کو گھیر لیا اور اب ان عاقبت نااندیش ٹی وی اینکروں کو سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کو عوامی تحریک سے ڈرائیں کہ پی ٹی آئی والوں کو آنکھیں دکھا کر چپ کروائیں۔ ایک تماشہ ہے جو لگا ہوا ہے،ایک ناٹک ہے جو کھیلا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی مخالف حلقے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ جب عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے آگے شنوائی نہیں ہورہی تو پھر ٹی وی اینکروں نے کاہے کو کائیں کائیں لگا رکھی ہے؟ اب تو عمران خان کی بہنوں کو اڈیالہ جیل سے گرفتار کر کے 80کلومیٹر دور ویرانے میں اتار آنے پر بھی عوام باہر نہیں نکلے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے، مگر یہ عقل کے اندھے اینکر پرسن ابھی بھی عمران خان کو ملک کا مقبول ترین لیڈر قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ 

کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ بیرون ملک مقیم ارب پتی پاکستانیوں نے پاکستانی عدلیہ اور میڈیا کو خریدا ہوا ہے اور انہیں ایک ہی کام دیا ہوا ہے کہ وہ سوتے جاگتے عمران خان عمران خان پکارتے رہیں تاکہ لوگ انہیں بھول نہ جائیں۔ وگرنہ جو بات گھروں میں بیٹھی خواتین کو بھی نظر آرہی ہے کہ اب عمران خان ملکی سیاست سے آؤٹ ہو چکے ہیں، وہ ان وکلاء اور ٹی وی اینکروں کو کیوں نظر نہیں آرہی ہے۔ یقینا دال میں کچھ کالا ہے جسے بڑی باریک بینی سے چننے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمارے میڈیا کو فلسطین میں ہونے والی ہولناک قتل و غارت گری پر فوکس کرنا چاہئے، وہ ایک ایسے شخص کی حالت زار کا رونا رو رہے ہیں جو جیل میں بیٹھا دیسی مرغ اُڑا رہا ہے اور جس کے پیچھے موجود طاقتور لابیاں پاک فوج کی قربانیوں کا بھی مذاق اڑاتی نظر آتی ہیں اور وہ بھولے سے بھی اس کی مذمت نہیں کرتا۔ 

افسوس تو یہ ہے کہ اس ملک کو ترقی کی راہ سے ہٹانے میں بھی انہی مہربانوں کا ہاتھ ہے جو ان دنوں ملک کو دوبارہ سے ترقی کی پٹڑی پر ڈالنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اب اگر یہ اندر ہی کی کھینچا تانی ہے تو ملکی معیشت کینسر کا شکار کیوں نہ ہوگی؟ ایسے میں عمران خان ایسے شعبدہ بازوں کی دال کیوں نہ گلے گی؟ ابھی تو عمران خان ہیں، کل کوعلامہ قادری کو بھی لایا جا سکتا ہے۔ 

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -