ملتان سے لاہور کے لئے دوسرے وائس چانسلر

  ملتان سے لاہور کے لئے دوسرے وائس چانسلر
  ملتان سے لاہور کے لئے دوسرے وائس چانسلر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 تاریخ بتاتی ہے کہ زمانہئ قدیم میں لاہور ملتان کے مضافات میں شامل تھا، ملتان اقتدار اور ثقافت کا مرکز تھا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے اور ملتان کی حیثیت مرکز کی بجائے مضافاتی شہر کی ہوتی گئی۔آج لاہور پنجاب کا مرکز ہے اور ملتان دارالحکومت سے دور واقع ایک مضافاتی علاقہ کہلاتا ہے تاہم بعض اوقات کچھ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جن سے لگتا ہے ملتان میں آج بھی دم خم موجود ہے۔ سیاست کے بڑے مناصب تو ملتان کو ملتے ہی رہے ہیں یہ اور بات ہے اُن کا اہل ِ ملتان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ملتان سے بڑے حکومتی عہدوں پر جانے والے ملتان کے لئے کچھ نہ کر سکے۔اب بھی سینٹ کے چیئرمین کا منصب ملتان کے پاس ہے تاہم برائے نام  ہے، جس کی وجہ سے ہوٹر بجاتی گاڑیاں ہی عوام کے حصے میں آئی ہیں۔ سیاسی مناصب سے قطع نظر جب ملتان کو خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر اہم اداروں کی سربراہی ملتی ہے تو اُس کی خوشی زیادہ ہوتی ہے۔لاہور میں دو تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کی ساکھ اور اہمیت پورے پاکستان میں مسلمہ ہے، مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ ان میں ایک پنجاب یونیورسٹی ہے جس کی عالمی سطح پر بھی اپنی ایک خاص پہچان ہے،اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کو پاکستان کی صفحہئ اول میں موجود جامعات کا حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسری علم گاہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ہے جو ایک زمانے میں گورنمنٹ کالج تھا۔یہ ادارہ اپنی تعلیمی روایات اور تاریخی اہمیت کے حوالے سے پاکستان کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔دو روز پہلے جب یہ خبر آئی کہ ڈاکٹر محمد عمر چودھری کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا وائس چانسلر بنا دیا گیا ہے تو ملتان کے تعلیمی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔اِس سے پہلے ڈاکٹر محمد علی شاہ کو پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعینات کیا گیا تھا۔یہ دونوں شخصیات بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پڑھا رہی تھیں،یونیوسٹیوں کے وائس چانسلرز کی سلیکشن کے لئے سرچ کمیٹی بنائی گئی تو دوسروں کی طرح انہوں نے بھی درخواستیں دیں۔پہلے مرحلے میں ڈاکٹر محمد علی شاہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر منتخب ہو گئے تاہم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے لئے وائس چانسلر کا انتخاب نہ ہو سکا۔ اِسی دوران گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا اضافی چارج بھی ڈاکٹر محمد علی شاہ کو دے دیا گیا۔اب ڈاکٹر محمد عمر چودھری کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ڈاکٹر محمد عمر چودھری غالباً گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے کم عمر ترین وائس چانسلر قرار پائیں گے۔اُن کی عمر ابھی صرف 45 سال ہے یوں ایک اچھا تجربہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک جواں سال وائس چانسلر لاہور کے ایک ایسے تعلیمی ادارے کو ملے ہیں جو اپنی دنیا بھر میں شناخت رکھتا ہے۔

اِس میں کوئی شک نہیں ملک کو ایسے تعلیمی سربراہوں کی ضرورت ہے جو نئے خیالات اور ذوق کے ساتھ ادارے کو چلا سکیں۔دقیانوسی انداز اور روایتی فیصلوں کے ذریعے وقت تو پورا کیا جا سکتا ہے کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، ہماری یونیورسٹیاں اِس وقت متعدد بحرانوں سے گزر رہی ہیں۔سب سے بڑا بحران تعلیمی معیار کا بلند نہ ہونا ہے۔اس کے علاوہ دنیا میں جو جدتیں آ رہی ہیں، تحقیق کے جو نئے روزن کھل رہے ہیں،اُن کے مطابق درسگاہوں کو ڈھالنا ایک بڑا چیلنج ہے، پھر یونیورسٹیوں میں اعلیٰ اقتدار کو یقینی بنانا  نیز اخلاقی زوال کو روکنا بھی ایک ایسا ٹاسک ہے جس کا سامنا کرتے ہوئے وائس چانسلرز گھبراتے ہیں، کیونکہ مختلف پریشر گروپ انہیں گھیرے رکھتے ہیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ایک وائس چانسلرز ہوا کرتے تھے،جن کا نام ڈاکٹر غلام مصطفےٰ چودھری تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ وائس چانسلر وزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیار ہوتا ہے،وہ یونیورسٹی میں جو کرنا چاہے کر سکتا ہے،مگر بدقسمتی سے جو وائس چانسلر بن جاتا ہے اُسے یہ خوف گھیر لیتا ہے کہ کوئی جرأت مندانہ قدم اٹھایا تو شاید چار سالہ مدت پوری نہ ہو سکے۔میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسے وائس چانسلر بھی دیکھے جو اس خوف سے بے نیاز تھے کہ ملازمت چھن جائے گی،اُن کا نام نصیر احمد تھا اور وہ بدقسمتی سے ملتان طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہو گئے تھے۔وہ جتنا عرصہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے انہوں نے ڈسپلن اور معیارِ تعلیم پر کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا۔اُن کا سب سے بڑا اقدام یہ تھا کہ انہوں نے اساتذہ کے بارے میں طلبہ و طالبات سے خفیہ پرفارموں کے ذریعے رائے لینے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے تھے۔یونیورسٹی میں اساتذہ اور ملازمین کی ایسوسی ایشنیں ہوتی ہیں جو وائس چانسلر کو ڈسپلن کے معاملے میں کسی بڑے فیصلے سے روکے رکھتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں معیارِ تعلیم گرتے اور اخلاقی حوالے سے معیوب واقعات کی خبریں آنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔

مختلف ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر محمد علی جب سے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ہیں انہوں نے دن رات محنت کر کے یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کو بہتر بنا دیا ہے۔وہ سخت اقدامات کے حامی ہیں تاکہ ڈسپلن اور معیار کو بہتر بنایا جائے۔اُن کے پاس چانسلر چانسلر شپ کا وسیع تجربہ ہے اور وہ اِس سے پہلے تین یونیورسٹیوں میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں،اب ملتان سے ایک اور وائس چانسلر لاہور پہنچے ہیں۔ڈاکٹر محمد عمر چودھری اولڈ راوین ہیں۔یوں اُن کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور کے درو دیوار اجنبی نہیں۔ انہوں نے وہاں سے بی اے اور ایم اے اکنامکس کیا۔اُس کے بعد وہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم فل کے لئے داخل ہوئے،اُس کے بعد لیکچرار منتخب ہوئے، جہاں سے انہیں سکالر شپ پر ناروے بھیجا گیا۔وہاں انہوں نے پہلے ایم ایس کیا اور بعدازاں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر دوبارہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے۔اس وقت میں شعبہ اکنامکس کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ وہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی  کے کنٹرولر انتخابات اور رجسٹرار بھی رہے یوں اُن کے پاس انتظامی تجربہ بھی ہے، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی شعبہ علوم اسلامیہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد عمر چودھری باصلاحیت،محنتی اور اَن تھک شخصیت کے مالک ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے لئے اُن کا انتخاب مثالی ثابت ہو گا اور وہ اپنی اس مادرِ علمی کو آگے لے جانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -