درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 53
سردی اوربڑھ گئی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ رک کر آگ جلالیں مگر سوکھی لکڑی کہاں سے ملتی؟بس ایک خیال حوصلہ افزا تھا۔ ہم نوجوان ہیں اور ہمیں سردی گرمی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔
’’ہو!ہو!ہو!ہو!‘‘
وادی اچانک لرز اٹھی اور ہم اپنی جگہ پر جم کر رہ گئے۔ہمارے دونوں طرف بلند پہاڑیوں کی چوٹیاں ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہی تھیں۔وادی تنگ ہو کر صرف ایک ندی تک محدود ہو گئی تھی۔ ہو!ہو!کی صدائے باز گشت ان چوٹیوں سے گونجی تو وادی جیسے سہم کر رہ گئی۔
یہ گرج ایک شیرکی تھی جو ہمارے بائیں ہاتھ کہیں قریب ہی موجود تھا۔وہ مشرقی پہاڑی سلسلے سے اتر کرندی پار کرنے والا تھا۔ ہم نے ٹارچیں بند کر دیں اور تیزی سے اس سے ملاقات کرنے آگے بڑھے۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ہو!ہو!ہو!‘‘
آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس گرج میں وہ زور نہیں جو خطرے کی بوسونگھ کر شیر کی آواز میں پیدا ہو جاتا ہے۔پھر مجھے یاد آیا فروری کے آخری دن ہیں اور یہ موسم شیر شیرنی کے ملاپ کا ہوتا ہے۔درندہ بے تکان گرج رہا تھا۔ میں نے آواز پر کان دھردے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ شیر نہیں شیرنی ہے اور اپنے ساتھی کو بلا رہی ہے اور جب شیرنی اس موڈ میں ہو تو نہتے ہو کر اس کا سامنا کرنا خوشگوار نہیں ہوتا۔
شیرنی مسلسل دھاڑتی رہی۔وہ ندی کے اسی کنارے ہم سے کچھ فاصلے پر تھی۔ ہم بھی اسی کنارے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ندی ہمارے دائیں ہاتھ تھی۔بارش کا پانی آہستہ آہستہ اتر رہا تھا، پھر بھی پانی کی گہرائی تین چار فٹ تھی۔عام مشاہدہ یہی ہے کہ شیر پانی کو ازحد پسند کرتے ہیں۔خصوصاً آندھراپردیش کے گرم جنگلوں میں تو وہ دوپہر کی دھوپ سے بچنے کے لیے سایہ دار تالابوں میں جا بیٹھتے ہیں۔سوال یہ تھا شیرنی ندی عبور کرے گی یا نہیں۔بظاہر امکان تو نہ تھا۔
اسی لمحے ایک اور آواز آئی:
’’روں!آروں!آروں!اوہ!ہو!‘‘
میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کر دیا۔یہ شیر تھا۔ اس نے شیرنی کی پکار سن لی تھی اور اب بتا رہا تھا کہ وہ آرہا ہے۔ہم ابھی تک تاریکی میں تھے۔ٹارچ جلانے کا خطرہ مول نہ لے سکتے تھے۔ہماری موجودگی اس جوڑے کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔شیروں کی قوت شامہ نہیں ہوتی۔وہ صرف آواز ہی سے دوسری چیز کا پتا چلا لیتے ہیں۔پرشورندی کی وجہ سے ہمارے قدموں کی چاپ انہیں سنائی نہ دے سکتی تھی ،اس لیے ہم نے وہیں رک کر ان کا نظارہ کرنے کا فیصلہ کرلیا،چنانچہ ایک درخت کے پیچھے چھپ گئے۔
ہمارے آنکھیں تاریکی میں دیکھنے کی عادی ہو گئی تھیں۔تھوڑی بہت ستاروں کی چمک بھی مدد دے رہی تھی۔شیر ایک بار پھر گرجا۔اس کی آواز ندی کے پار سے آرہی تھی۔ اب یا تو شیر ندی عبور کرتا یا شیرنی دوسری طرف چلی جاتی تو ہمارے راستے سے خطرہ ٹال سکتا تھا۔ بصورت دیگر خونخواردرندے تھے اور ہم کسی وقت بھی ان کی زد میں آسکتے تھے۔
شیر ایک بار پھر دھاڑا۔اس کی آواز میں رعب تھا جیسے کہہ رہا ہوں،ادھر اس کنارے پر آجاؤ۔شیرنی نے بلی کی سی میاؤں میاؤں سے اس کا جواب دیا۔مطلب واضح تھا تم ادھر آؤ۔اچانک شیر نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ ندی کا پاٹ زیادہ چوڑا نہ تھا۔ چند منٹوں میں شیر اس کنارے پر آچکا تھا۔تھوڑی دیر تک دونوں جانور ایک دوسرے پر غراتے رہے،پھر وہ ہنگامہ برپا ہوا کہ خدا کی پناہ! یہ ایک طرح سے مصنوعی جنگ تھی۔شیر بری طرح شیرنی کی گردن میں دانت پیوست کر دیتا اور شیرنی بھی اپنے پنجوں سے شیر کا چہرہ نوچ لیتی۔ ایک بار تو وہ ہم سے صرف دس قدم کے فاصلے پر پہنچ گئے اور ہمیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے جس درخت کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اس کا تنا اس قدر موٹا تھا کہ اس پر چڑھنا ممکن نہ تھا۔ دوسرا قریب ترین درخت بیس قدم پیچھے تھا۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے ہم دونوں میں سے ایک تو یقیناً ان کا لقمہ بن جاتا۔ہمارے لیے سانس روک کر کھڑے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
آخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔اب ان کے منہ سے صرف میاؤں میاؤں کی ہلکی سی آوازیں نکل رہی تھیں۔ملاپ سے پہلے دونوں نے خوب رومانس کیا تھا۔اس دن مجھے پر جنسی مزاج کے اس پہلو کا ادراک ہوا کہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت رومانس ہے جو جنسی قوت کو دوبالا کرتی ہے۔رومانس کے بغیر جانور بھی ملاپ کرنا پسند نہیں کرتے ،کتنی حیران کن بات ہے۔سکون کا یہ وقفہ بڑا مختصر ثابت ہوا۔دوسرے کنارے سے ایک اور شیر کی گرج سنائی دی:’’لو اب مزارہے گا۔‘‘میں نے دل ہی دل میں کہا۔پہلے شیر کے مقابلے میں ایک اور شیر میدان میں نکل آیا تھا۔
جواب میں یہ شیر ایک دم کھڑا ہو گیا اور غرایا۔ دوسرے کنارے پر پھر دھاڑ بلند ہوئی۔پہلا شیر غصے کے عالم میں گرجا اور ندی میں کود کر چشم زدن میں دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ایک دوسرے پر وار کرنے سے پہلے دونوں درندے پنجوں سے زمین کریدتے رہے لیکن پھر دوسرا شیر نہ جانے کیوں الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا۔پہلے شیر نے فاتحانہ نعرہ لگایا اور اس بھگوڑے کے پیچھے دوڑا۔
شیرنی جو یہ سارا تماشا دیکھ رہی تھی، اپنی جگہ سے اٹھی اور ندی عبور کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ گئی۔اس اثنا میں دونوں شیر تاریک جنگل میں غائب ہو چکے تھے۔ہم نے اپنا سفر پھر شروع کیا اور جلد از جلد اس میدان کار راز سے نکل جانے میں عافیت سمجھی۔کیا معلوم شیر پھر واپس آنے کا فیصلہ کرلیں اور سارا غصہ ہم پر اتار دیں۔
ہم پہاڑ کے دامن میں پہنچ چکے تھے۔کمپیکا رائے کی بستی زیادہ دور نہ تھی۔ اس نواح میں میں نے ’’منچی کے شیطان‘‘کو ہلاک کیا تھا۔ یہاں پگڈنڈی ایک بار پھرندی میں اتر گئی اور ہم ندی پار کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔پانی اب گھٹنوں گھٹنوں باقی رہ گیا تھا۔
پگڈنڈی ایک ڈھلوان گھاٹی سے اتر کر سیدھی بستی کی طرف بڑھتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم مٹی اور گھاس پھوس کی جھونپڑیوں کی بستی میں داخل ہو چکے تھے۔ایک کتا ہمیں دیکھ کر بھونکا لیکن کسی مکین کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔بار بار آوازیں دینے پر بمشکل ایک دروازہ کھلا اور ایک سر باہر نمودار ہوا۔ نیم وا آنکھیں میری ٹارچ کی روشنی میں چندھیا گئیں۔یہ میرا دوست بائراپجاری تھا جس کاذکر میں نے اپنی کئی کہانیوں میں کیا ہے۔پہلے وہ دریائے چنار کے کنارے پہاڑی غاروں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نیم برہنہ،نیم وحشیانہ زندگی بسر کرتاتھا۔پھر اس خاندان نے چرواہے کا پیشہ اپنا لیا اور ایک امیر شخص کے مویشی چرانے لگا۔ باراپجاری ہمیں بے وقت دیکھ کر حیران رہ گیا۔کچھ دیر بت بنا کھڑا رہا۔پھرتنگ سے دروازے سے باہر نکلا اور اپنا ماتھازمین پر ٹیک دیا۔ اب ہم ٹوٹی پھوٹی چار پائی پر بیٹھ گئے۔میں نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ پجاری حیران تھا کہ کہیں ہمارا دماغ تو نہیں چل گیا۔ اسلحے کے بغیر اور صرف ایک لنگوٹی پہن کر ہم اس خطرناک وادی میں گھس آئے تھے۔اس نے ہمیں خبردار کیا کہ پچھلے کچھ عرصے سے وادی میں ایک خونی ہاتھی سرگرداں ہے۔کسی انسان کو دیکھ لے تو اس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔کمپیکارائے کے تمام پجاری چرواہے اپنی ہوشیاری اور پھرتی کے باعث اب تک اس موذی سے بچے ہوئے تھے۔ہم ان دونوں خوبیوں سے محروم تھے۔اس لیے اس کی رائے تھی کہ ہمیں مزید آگے سفر کرنے کا خطرہ مول نہ لینا چاہئے۔
’’دن چڑھنے کا انتظار کرو۔‘‘پجاری نے کہا:’’ہاتھی پیچھے لگ جائے تو صرف دن کے وقت ہی آدمی فرار کا راستہ ڈھونڈ سکتا ہے۔‘‘
بائرا کی خواہش تھی کہ ہم اسلحے کا بندوبست کرکے ہرن کا شکار کریں جو اس کے خاندان کے کام آئے۔گوشت اس شخص کی بڑی کمزوری تھی اور وہ جب کبھی ہمیں ملتا اس کا مطالبہ ضرور کرتا۔ میں ہمیشہ انکار کر دیتا۔میں نے کبھی ہرن اور سانبھر کو محض شکار کا شوق پورا کرنے کے لیے نہیں مارا۔ اس کے باوجود بائرا کا تقاضا برقرار رہتا۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
بائر ا کبھی کسی سکول میں نہ گیا تھا، تاہم جنگلی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دواؤں سے علاج کرنے میں ماہر تھا۔ وہ گاؤں بھرکا’’ڈاکٹر ‘‘تھا۔ ہر طرح کی ایمرجنسی میں اسے طلب کیا جاتا۔اسکے پاس سانپ کے کاٹے کا کوئی خفیہ ٹوٹکا بھی تھا۔ آج تک کوئی مریض یہ دوائی کھانے کے بعد نہ مرا تھا۔ اس نے ہیضے کے مریضوں کا بھی کامیاب علاج کیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب آس پاس کے دیہات اس مرض کے ہاتھوں خالی ہورہے تھے۔
میں چائے کارسیاہوں اور بائرا کو میری اس کمزوری کا علم ہے۔اس نے آگ جلادی تھی اور کیتلی میں پانی ابل رہا تھا۔ میں نے اس دوران میں اسے تین شیروں سے ملاقات کا حال سنایا۔ اس نے کہا کہ ان دنوں ساری وادی میں یہی تین شیر باقی ہیں۔ایک شیرنی اور بھی ہوا کرتی تھی لیکن چند ماہ پہلے وادی سے ایسی نکلی کہ پھر واپس نہ آئی۔باقی تینوں درندے مویشیوں پر گاہے بگاہے ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی تک ان میں سے کسی نے بھی چرواہوں یا گلہ بانوں پر حملہ نہیں کیا۔(جاری ہے)
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں