اگلا پڑاؤ اسوان ڈیم تھا جس پر مصری بہت فخر کرتے ہیں اور ہر ایک کے سامنے اس کا تذکرہ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں، یہ ڈیم جون 1970ء میں مکمل ہوا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:88
فاطمیوں کا قبرستان
گائیڈ نے بتایا کہ اب وہ ہمیں اس مقام کے قریب ہی فاطمیوں کے ایک قدیم قبرستان میں لے جا رہا ہے۔ وہاں جا کردیکھا کہ ایک وسیع و عریض قبرستان میں ایک ترتیب سے سینکڑوں قبریں بنی ہوئی تھیں۔ جن کی تعمیر میں وہاں قریبی چٹانوں سے ملنے والا پتھر ہی استعمال کیا گیا تھا۔ اس قبرستان میں عام لوگوں کے علاوہ ان کے رؤسا اور امراء کے چھوٹے چھوٹے مقبرے بھی تھے،جو زیادہ اونچے تو نہیں تھے لیکن ان پر گول گول گنبد بنے ہوئے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا پلاسٹر جھڑ گیا تھا اور اندر سے پتھروں کے بلاک نظر آ رہے تھے۔ کچھ پر کتبے بھی لکھے ہوئے تھے مگر زیادہ تر بے نام و نشان ہی تھے۔ یہاں صفائی کا بھی کوئی مؤثر نظام نہ تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہاں غیر ملکی سیاحوں کے لئے دلچسپی کی کوئی خاص چیز نہیں تھی، جن کے اپنے قبرستان اتنے صاف ستھرے، ہرے بھرے اور خوبصورت ہوں ان کو بھلا یہاں کیا نظر آتا ہوگا۔ اس لئے اکثر تو احاطے کے باہر ہی کھڑے رہے اور جو اندر گئے وہ بھی فوراً لوٹ آئے۔وہاں قبروں کے سوا کچھ بھی دیکھنے لائق تھا بھی نہیں۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ گائیڈ نے محض اپنی خانہ پری کے لئے اس طرف کا رخ کیا تھا۔
اسوان ڈیم
اگلا پڑاؤ اسوان ڈیم تھا۔ جس پر مصری بہت فخر کرتے ہیں اور ہر ایک کے سامنے اس کا تذکرہ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ہم پاکستانیوں کے لئے تو شائد اس ڈیم میں کوئی ایسی خاص کشش نہ ہو،کیونکہ پاکستان میں تو اپنے 2 بہت ہی بڑے منگلا اور تربیلا ڈیم موجود ہیں۔ لیکن مصر کا تو یہ پہلا بڑا ڈیم تھا اس لئے اس پر ان کا غرور تو بنتا ہے۔
جہاں یہ ڈیم بنتے ہیں تو وہاں توانائی کی پیداوار سے صنعتی انقلاب تو آ جاتا ہے اور پانی بھی کنٹرول ہو جاتا ہے، مگر وہاں اس سے زراعت کوکچھ نقصان بھی ہوتا ہے۔ افریقہ کے وسیع و عریض جنگلوں اور میدانی علاقوں میں شدید بارشیں ہونے سے برسات کے موسم میں ایک بڑا سیلاب اس دریا میں آ جاتا تھا۔ عام حالات میں یہ سیلاب اپنے ساتھ بہت ہی زرخیز مٹی بہا کر لاتا تھا جس سے نشیبی علاقوں میں سیلابی پانی آ جانے کے بعد بہت شاندار فصلیں ہوتی تھیں، تاہم ہرچند سال بعد ایک ایسا بڑا اور شدید سیلاب بھی آ جاتا تھا جو نہ صرف زراعت کو شدید نقصان پہنچاتا تھابلکہ وسیع پیمانے پر آبادیاں بھی پانی میں ڈوب جایا کرتی تھیں۔ اس سے بچنے کی خاطر قابض برطانوی حکومت نے یہاں 1898ء میں ایک ڈیم بنایا تھا جسے Aswan low Dam کا نام دیا گیا۔ اس سے حالات تھوڑے بہت تو قابو میں آگئے تھے تاہم یہاں ہمیشہ ایک بڑے ڈیم کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی۔
صدر جمال ناصر کے حکومت میں آ جانے کے بعد روس نے نئی انقلابی مصری حکومت سے رابطے بڑھائے اور یہ ڈیم بنانے کی پیشکش کی۔پھر 1960ء میں اس کا آغاز ہوا اور کوئی 25 ہزار کے قریب مصری اور روسی ہنر مندوں نے 10 سال تک مسلسل اس پر کام کیا اور یوں یہ ڈیم جون 1970ء میں مکمل ہوگیا۔اس کو اسوان ہائی ڈیم کا نام دیا گیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں