پاکستان میں بڑھتی ہوئی اخلاقی پستی

پاکستان میں بڑھتی ہوئی اخلاقی پستی
پاکستان میں بڑھتی ہوئی اخلاقی پستی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بلاشبہ ہم زوال کی بہت سی گھاٹیوں میںیکے بعددیگر ے اترتے چلے جا رہے ہیں اور اس ملک کی ہر چیز کو بدعنوانی، منافقت اور جھوٹ کی ڈینوسارس نما دیمک چٹ کرتی جارہی ہے، جبکہ ان مذکورہ بالا ”خوبیوں “ کے جیتے جاگتے مجسمے ہمارے لارڈ بن کر ایوانوںمیں بیٹھے ہیں۔ عام شہری اخلاق بھی اس سرزمین سے ناپید ہو چکا ہے۔ مانا کہ یہ ایک بے محل سوال ہے، کیونکہ بقول ساحر لدھیانوی....”بھوک (یا پھولی ہوئی جیب ؟) آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی“.... ٹھیک ہے کہ ہم معاشی طور پر بالکل کنگال ہو چکے ہیں ، لیکن اخلاقی دیوالیہ پن کیوں درو دیوار سے جھلک رہا ہے؟تہذیب کہاں چلی گئی ہے ؟معاشرتی روایات کہاں دفن ہو گئی ہیں؟ ثنا خوان ِ تقدیس ِ مشرق کہاں ہیں؟بلکہ مشرق کی تقدیس خود کہاںہے؟ اب تو معاشرتی تہذیب سے ہم اتنے دور ہو چکے ہیں کہ لگتا نہیں کہ کبھی ہم اس کے امین تھے اور نہ ہی ارد گرد پھیلی بدتہذیبی کے اندھیروں سے روشنی کی کوئی جھلک ملتی ہے۔ کسی دور میں ، مَیںنے کالج میں پڑھا تھا کہ موازنہ کرنا ایک ناروا عمل ہے اور میراخیال ہے کہ یہ بات ٹھیک ہے ، لیکن ہم میںسے کچھ شاید اس وطن کے انحطاط کا دیگر ممالک ، جن کو ہم غیر مسلم قرار دیتے ہیں، سے موازنہ کرنا چاہیںگے۔ومبلڈن فائنل میچ کے دوران جب حریف کھلاڑیوںکے سکور برابر تھے تو ایک موقع پر شائقین کا جوش و خروش اپنے نکتہ ¿ عروج پر تھا اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ اچانک چیئر امپائر نے مائیک میں ہلکی سی سرگوشی کے انداز میں کہا .... ”خاموشی پلیز“.... تو 20ہزار سے زائد جوش سے نعرے لگاتے ہوئے شائقین یک لخت خاموش ہو گئے۔ذرا سوچیں اگر یہ میچ ہمارے ہاں ہو رہا ہوتا.... ویسے ہمارے ہاں کھیلنے آئے گا کون؟.... اور شائقین شور مچا رہے ہوتے توپتا ہے کہ چیئر امپائر کیا کہتا، سرگوشی میں نہیں، گلا پھاڑ کر....”اﺅے، فوراً چپ ہوجاﺅ، مَیں تمہیں آخری بار کہہ رہاہوں، اور تمام لوگ اپنے اپنے موبائل فون بند کر دیں“....تاہم اس گرجدار آواز، جس کو مرحوم سلطان راہی کی جیتی جاگتی نقل کہا جاسکتا، اس بپھرے ہوئے ہجوم پر ذرا برابر اثر نہ کرتی.... اس کے بعد لاٹھی چارج کی نوبت آتی ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مَیں نے برطانیہ کی مثال کیوں دی، کیونکہ وہاں بھی اخلاقیات روبہ¿ زوال ہیں۔ پاکستانیوں کی تعداد وہاں بھی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور اب کچھ دن ہی جاتے ہیں، جب وہاں پاکستانیوںکی تعداد انگریزوںسے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ اگرہم کسی بھی شعبے میں تھوڑی بہت ترقی دکھارہے ہوتے تو موجود ہ اخلاقی بدحالی کا کچھ جواز پیش کیا جا سکتا تھا کہ ملک اتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہے کہ عوام کے پاس اخلاقی رویوں پر توجہ دینے کے لئے وقت ہی نہیںہے، لیکن ہم بداخلاقی کے کیچڑ میں اس قدر دھنس چکے ہیںکہ لگتا ہی نہیں کہ کبھی ہمارے ہاںبھی شرافت کی قدریں موجود تھیں۔ مشہور مصنف، فوٹو گرافر اور کوہ پیما گیلن روول کا کہناہے....” پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ہر وقت انتہائی جلد بازی میںہوتا ہے، لیکن اسے جانا کہیں نہیںہوتا“۔ ایسا لگتا ہے کہ گیلن روول نے راولپنڈی، جو کبھی ایک قصبہ نما شہر ہوتا تھا ، اور جسے بعد میں ”جڑواں شہر“ کہا گیا، کے راجہ بازار کی منظر کشی کی ہے۔ آج کے پاکستان میں بد اخلاقی ” ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری “ ہے اور یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی سے لفظ ”مَیں معافی چاہتاہوں....جبکہ اس کا مطلب یہی ہو“ سنا ہو۔ تہذیبی گراوٹ ایک چھوت کے مرض کی طرح پھیل رہی ہے اور اس کا تدارک ممکن نظر نہیں آتاہے۔ والدین اپنے بچوں کو ریستورانوں، مارکیٹوں، پارکوں ، ہوائی اڈوں(یہ ہمارے ہاں کیا کررہے ہیں؟) اور دیگر عوامی مقامات پر تہذیب و شائستگی کی دھجیاں بکھیرنے پربھی چیں بہ جبیں نہیں ہوتے، بلکہ جوانوں کی ان ”شرارتوں “ پر ان کے چہروں پر طمانیت بھری مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی ہے ۔ اگر پاکستانی بچوں کو کوئی برقی زینہ نظر آئے.... اب لاہور میں کثرت سے نظر آئیںگے.... تو بندروںکی طرح اچھل اچھل کر اس پر خطرناک طریقے سے چڑھیں گے اور دیگر مسافروں کا بھی ناک میں دم کریںگے۔ شاپنگ کے دوران بھی آپ نے دیکھا ہوگاکہ کوئی فربہ سی خاتون سیاہ عبایا اوڑھے اَن گنت بچوںکے ساتھ دکان میں جب کچھ خریدنے آئے تو بچے بری طرح ہڑبونگ مچانا شروع کر دیتے ہیں، تو مجال ہے کہ وہ عفیفہ انہیں ڈانٹ کر آرام سے بٹھانے کی کوشش کرے اور اگر غریب دکاندار کچھ شکایت کرے تو اُس کی خیر نہیں۔ مختلف تقریبات پر بچے اس طرح اودھم مچاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کوئی رشتے دار یا عزیز اُنہیں سمجھا کر آرام سے بیٹھنے کا نہیں کہتا۔ اب یہ حیرت انگیز ٹیکنالوجی ،موبائل فون،جس نے پیغام رسانی کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے، ہمارے ہاں ہر ہاتھ میں ہمہ وقت نظر آتا ہے، لیکن اس نے بھی ہماری عقل پر پڑے ہوئے پتھروں پر سے مٹی اُڑائی ہے....یعنی اُنہیں مزید واضح کر دیا ہے۔ نئے سے نئے ماڈل کو حاصل کرنا اگر اشرافیہ ہونے کا میعار ہو تو سمجھ لیں کہ ہم سماجی اعتبار سے کس گراوٹ کا شکار ہے۔ اگر کسی فضائی سفر کا اتفاق ہو تو وہاں پاکستانیوںکا رواں تبصرہ سننے کے لائق ہوتا ہے۔ جیسے ہی جہاز کے پہیے زمین کو چھوتے ہیں ، وہ کمنٹری شروع کر دیتے ہیںکہ اُن کا جہاز زمین پر اُتر گیا ہے.... گویا شک تھاکہ کسی اور سیارے پر بھی جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ اس ”علاقے “ کا موسم آج کل کیسا ہے(ہو سکتا ہے کہ موصوف لاہور سے ملتان جارہے ہوں).... اور آنٹی کلثوم کا کیا حال ہے؟جیسے ہی جہاز رکتا ہے تو یہ صاحب اپنا چھوٹا، لیکن بھاری بریف کیس، لیپ ٹاپ، دس کلو مٹھائی کی ٹوکری اور خداجانے کیا نہیں، لے کر برق رفتاری سے دروازے کی طرف لپکتے ہیں ، تاہم وہ اس لپک میں تنہا نہیںہوتے، بلکہ درجنوں افراد اسی کردار کا مظاہر ہ کر رہے ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دروازے پر طویل قطارجمع ہوجاتی ہے اور چند ملی سیکنڈ کی تاخیر سے منہ سے جھاگ اُڑاتے شعلہ بار ہوجاتے ہیں، تاہم 20 منٹ بعد بھی وہ اسی طرح ہی کھڑے رہتے ہیں،پھر اگلے45منٹ تک انہوں نے اپنے سامان کو وصول کرنے میںبھی اسی بے تابی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ، مَیں نے تین خطوط لکھے....ایک کثیر ملکی کمپنی کے سی ای او کو، ایک مشہور ریستوران ، جہاں ہمیں بھاری کرائے کے عوض معمولی سروس دی گئی، کے مالک کو اور ایک صوبے کے حکمران کو۔ تینوں خطوط مختلف شخصیات کو لکھے گئے تھے، لیکن ان پر رد ِ عمل ایک جیسا ہی تھا.... خاموشی، اوریہ ردعمل میرے لئے حیرت ناک نہیں تھا، کیونکہ خط کا جواب دینے کا ہمارے ہاں فیشن نہیںہے۔ کوئی سرکاری یا نجی ادارہ عوام کی فیڈ بیک کا جواب نہیں دیتا،حالانکہ اس میں کچھ بھی وقت نہیں لگتا، تاہم ایسا نہیںہے کہ کوئی بھی جواب نہیں دیتا.... اگر ذراایک گوریلا ٹائپ شخص ، جو جدید بی ایم ڈبلیو میںہو، سے ذرا گاڑی ہٹانے، جو اُس نے غلط پارک کی ہوگی، کا کہیں تو پھر جوجواب سنیں گے، وہ قابل ِ فہم تو ہے ، قابل ِ اشاعت نہیں۔ افسوس بااخلاق ہونے میںکچھ بھی خرچ نہیںآتا ہے.... شایدہم اتنے بااصول ہیں کہ ”مفت “ کے خزانے پر نگاہ ڈالنا مناسب ہی نہیں سمجھتے۔ 
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔     ٭

مزید :

کالم -