شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 28
دس منٹ۔۔۔بیس منٹ ۔۔۔ایک گھنٹہ۔۔۔دو گھنٹے۔۔۔حتیٰ کہ رات کے دو بج گئے۔۔۔نہ کوئی آواز آئی نہ شیروں کا کچھ پتہ چلا۔
میں بیٹھے بیٹھے اکتا کرپیر کو ذرا جنبش دینے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ چٹان کے نیچے جھاڑیوں میں خفیف سی آواز ہوئی ۔جیسے کسی وزنی پیر تلے کوئی سوکھی شاخ چٹخ کر رہ گئی ہو۔۔۔اور اس آواز کے ساتھ ہی مجھے خطرے کا شدید احساس ہوا۔۔۔یقیناً شیرچٹان کے عین نیچے تھے ۔۔۔اور ان کے آنے کا مطلب تھا کہ انھوں نے مجھے دیکھ لیا ہے ۔۔۔ممکن ہے،چٹان پر چڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
تین خونخوار آدم خور ۔۔۔چالاک درندے ۔۔۔اس حال میں کہ ہم اندھیرے میں رائفل کی نال تک نہیں دیکھ سکتے اور وہ آدم خور اسی اندھیرے میں چیونٹی کو بھی دیکھنے کی طاقت رکھتے تھے۔۔۔دلاور کو بھی خطرے کا احساس ہوگیا۔۔۔اور وہ میری طرف پشت کیے بغیر عقب اور دائیں بائیں جانب دیکھنے کی ناکام کوشش میں لگا رہا۔۔۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پھر ایک اور بلا نازل ہوئی ۔۔۔اگرچہ فی الواقعہ اس بلا کو ابررحمت سمجھنا چاہیے۔وہ یہ کہ اچانک مغربی گھاٹ سے کالی گھٹا اٹھ کر چھاگئی۔بادل تو دیر سے جمع ہورہے ہوں گے لیکن میں چونکہ کئی گھنٹے سے ہمہ تن گوش وچشم بنا آدم خور وں کا منتظر تھا،اس لیے ادھر توجہ نہ دی ۔۔۔ہوا تیز ہوگئی اور عین اس وقت جبکہ مجھے خطرے کا بہت شدید احساس ہورہا تھا،بجلی کا ایک کوندا ہوا۔۔۔ایک ثانیے کے لیے جنگل کا وہ قطعہ روشن ہوا اور اس ثانیے کے ایک حصے میں میری نظر ان چمکتی ہوئی آنکھوں پر پڑی جو مجھ سے چند ہی فٹ پر ہوں گی۔۔۔میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔۔۔یہ شیر تھا ۔۔۔آدم خور شیر ۔۔۔اس نے میرے مقابل زمین پر پچھلے دوپیروں سے کھڑے ہوکر اگلے دونوں پنجے چٹان پر لٹکا دیے تھے اور اس کا سر چٹان سے ملا ہوا تھا۔۔۔اس ثانیے ہی میں مَیں نے ان خونخوار آنکھوں کی بھوک ،حرص اور عیاری بھی دیکھی ۔۔۔مشکل یہ تھی کہ اس جگہ چٹان بہت ڈھلوان تھی اور ٹارچ کا رُخ نیچے کی طرف کرنا ممکن نہیں تھا،کیونکہ وہ بھینسے پر روشنی ڈالنے کے لیے رکھی گئی تھی۔۔۔
فوراً ہی دوبارہ کوندا ہوا،لیکن شیر اپنی جگہ پر نہیں تھا۔۔۔تیسری دفعہ کوندا ہوا اورساتھ ہی زورکی گرج بھی۔۔۔شیر اس دفعہ بھی نظر نہیں آیا۔۔۔اب بوندیں پڑنے لگیں ۔۔۔بجلی مسلسل چمکنے لگی اور گرج کی شدت بھی بڑھتی گئی۔یہ حالت بڑی تشویشناک تھی۔۔۔اگر موسلا دھار بارش شروع ہوگئی تو ہم کس مپرسی کے عالم میں تمام رات بھیگنے پر مجبور ہوں گے۔
بجلی کے مسلسل چمکنے سے بھینسا صاف نظر آرہا تھااور موسم یا شیروں کی موجودگی سے بے نیاز کھڑا جگالی کر رہا تھا۔۔۔اس دفعہ بجلی بڑے خوف ناک طریقے پر چمکی ۔۔۔بالکل ہمارے سر پر ۔۔۔اور ایسازبردست دھماکہ ہوا کہ چٹان لرزنے لگی ۔۔۔اسی وقت میری نظر جامن کے درخت کے نیچے پڑی اور پھر وہیں جمی کی جمی رہ گئی۔
درخت کے نیچے ایک نہیں ،اکٹھے تین شیر منہ اوپر اٹھائے چٹان کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔بجلی پھر چمکی اور اب کے دلاور نے بھی انہیں دیکھا ۔۔۔میں نے رائفل اٹھائی ۔۔۔نشانہ لیا اور دوبارہ بجلی چمکی تو فائر کرنے کو ہی تھا کہ ایک دل دہلانے والی گرج ہوئی اور یکبارگی جیسے آسمان کے سوتے کھل گئے۔۔۔بارش ہونے لگی ۔۔۔ایسی شدید کہ جسم کے جس حصے پر بوند گرتی ،وہاں چوٹ لگتی معلوم ہوتی تھی۔
بارش شروع ہوتے ہی بجلی کی چمک زیادہ شدید اور لرزہ خیز ہوگئی اور ہواکے جھونکے درختوں کو تھپیڑے مارنے لگے۔۔۔دو سیکنڈ ہی میں ہم دونوں بھیگ کر چوہیا بن گئے اور مارے سردی کے دانت بجنے لگے۔
کبھی دل چاہتا کہ چٹان سے اتر کر گاؤں کی طرف چل دیں لیکن پھر خیال آتا کہ شیر قریب ہی کہیں چھپے گھات میں ہوں گے۔چٹان سے نیچے قدم رکھا اور ان کا لقمہ بنے ۔۔۔ساتھ ہی یہ سوچ سوچ کر وحشت ہوتی کہ نجانے بارش کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔
صبح چار بجے بارش کی شدت میں کچھ کمی ہوئی۔۔۔طوفان گزر گیا۔لیکن ہم دونوں کی یہ حالت تھی کہ بھیگے ہوئے جسم کو سرد ہوا نے بالکل یخ کردیاتھا۔۔۔روئیں روئیں میں سردی سرایت کر گئی تھی اور جسم میں جنبش کرنے کی سکت نہیں تھی ۔۔۔میں نے دلاور سے کہا کہ تھرمس سے کافی نکال کر مجھے دے ۔۔۔لیکن زبان ایسی ٹھٹھری ہوئی تھی کہ الفاظ ٹھیک سے ادا ہی نہیں ہوسکے۔پھر میں نے تھرمس کی طرف اشارہ کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی انگلیاں اکڑکر بندوق کے کندھے پر جم گئی ہیں اور فی الفورکندے پر سے ہاتھ ہٹانا ممکن نہیں ۔۔۔
صبح تک شیروں کا خطرہ موجود رہا ۔۔۔اور ہم دونوں اسی چٹان پر بیٹھے رہے ۔شیر نہ تو نظر آئے نہ کوئی آواز ہی سنائی دی۔دھوپ نکلنے سے پہلے ہی جسم کی گرمی سے کپڑے کافی خشک ہوگئے تھے۔دھوپ نکلنے کے بعد جو کچھ نمی رہ گئی تھی،وہ بھی غائب ہوگئی۔۔۔ساتھ ہی مجھے سر میں درد محسوس ہوا اور جسم بخار سے پھنکنے لگا۔
نو بجے کے قریب گاؤں سے دس بارہ آدمی شوروغل کرتے ہوئے آئے اور بڑی دِقّت سے ہمیں نیچے اتارا۔۔۔دلاور کو بخار تو نہیں معلوم ہوا تھا،لیکن سردی کا کافی اثر تھا ۔میں سیدھا گاؤں واپس ہوا۔۔۔اور تین دن تک بے سُدھ پڑا رہا۔۔۔چوتھے روز طبیعت سنبھلی اور حواس درست ہوئے۔۔۔۔ان تینوں دنوں میں کبھی کبھی بارش ہوتی رہی تھی اور جنگل میں جا بجا کیچڑہوگئی تھی۔
پانچویں روز میں بیل گاڑی میں بیٹھ کر کراریہ روانہ ہوا۔راستے میں شیر وں سے دوچار ہونے کا امکان تو بہرحال تھا ہی ۔اسی لیے میں نے اپنی رائفلیں اوپر رکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر اٹھائی جا سکیں ۔۔۔لیکن راستے میں چند سانبھروں ،ایک دو چیتوں اور ہر نوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔زمین نم ہونے کی وجہ سے ماگھ کا خیال ہی بیکار تھا۔۔۔دوپہر کے بعد ہم لوگ کراریہ پہنچے اور شام کو میں بھوپال میں اپنے گھر بیٹھا جھولا بن کے آدم خور وں کی خونخواری کے قصے بیان کر رہا تھا۔
بہار کا موسم شروع ہوتے ہی میرے صحیح شکار کا زمانہ آجاتا ہے۔اس زمانے میں نہ سردی ہوتی ہے نہ گرمی اور جانوروں پر بھی مستی چھائی ہوئی ہوتی ہے۔چیتل کے سینگ آخر مارچ یا اپریل میں انتہا کو پہنچ چکے ہوتے ہیں ۔سانبھر کے سینگ بھی اسی زمانے میں مکمل ہوتے ہیں ۔شیر اور چیتے کی کھالوں کے رنگ بہت شگفتہ ہوجاتے ہیں ۔علاوہ ا زیں ان دنوں میں جنگلی پھل بکثرت ہوتے ہیں ۔تیندو ،فالسہ ،چرونجی ۔شریفہ،لہسوڑہ،مہوہ اور شہتوت وغیرہ کی بہتات ہوتی ہے۔خوراک کی یہی فراوانی مالوے کے جنگلوں میں جانوروں کی کثرت کا سبب ہے ۔(جاری ہے)