علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر5
تحریر: پیر ابو نعمان
توکل اللہ۔۔۔وللہ کسی صوفی یا راہ سلوک کے مسافر کا رازق و خالق مطلق پر کامل و مکمل بھروسہ اعتماد کمزور ہوتو اس کی نیت و عمل سے کھوٹ ظاہر ہوتی ہے۔ راہ سلوک میں اصل کامیابی ہی اللہ کریم پر توکل میں مضمر ہے۔ حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی کی زندگی اس وقت کڑی آزمائش سے دوچار ہوگئی جب مرشد کریم حضرت پیر محمد عابد سیفی نے انہیں تلونڈی سے لاہور ہجرت کرنے کا حکم دیا۔
’’رمضان لاہور پہنچو اور دین حق کی خدمت کا کام شروع کر دو۔۔۔لاہور تمہارا منتظر ہے،فوراً لاہور پہنچو ۔اب تمہارا یہاں ٹھہرنا نامناسب ہے‘‘
’’جی حضور۔۔۔آپ دعا فرمائیں۔۔۔تاکہ میں بندوبست کرلوں‘‘ پیر محمد رمضان نے ادب و احترام سے عرض کی۔
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر4 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بندوبست کس بات کا۔اللہ کی راہ میں ہجرت کررہے ہو،کیا تم مشائخ اور اولیا کرام کی تاریخ بھول گئے۔کتنی کریم ہستیوں نے خالی ہاتھ ہجرت فرمائی اور اللہ کریم نے خود اسکا بندوبست کردیا۔‘‘
مرشد کا حکم تھا ،کڑی آزمائش تھی،گھر سے خالی ہاتھ نکلنا تھا۔گھر والوں سے بات کی تو سب نے بخوشی اجازت دے دی لیکن جس روز کرایہ کی ایک گاڑی میں وہ اپنی بیگم،چار بیٹیوں ،تین بیٹوں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ کوئی سامان ساتھ لئے بغیر سوار ہو کر الوداع کہہ رہے تھے تو والدین بہن بھائیوں سمیت سب رشتہ داروں کی چیخیں نکل گئیں۔ایک اچھے بھلے گھرانے کا فرد یوں خالی ہاتھ اپنے مرشد کے حکم پر ہجرت فرما رہا تھا کہ جیب میں صرف ایک سو روپیہ تھا،سخت سردیاں تھیں ،نہ کمبل ،نہ بچھونا،چھوٹے چھوٹے بچے تھا اور بس ۔۔۔ ایک ایمان اور توکل کی دولت دل میں لئے وہ حسنین آباد لاہور اپنا قافلہ لے کر پہنچ گئے تھے۔
مرشد کے حکم کی تعمیل ہو گئی تھی لیکن مرشد نے جس غرض سے اپنے اطاعت گزار مرید کو لاہور طلب کیا تھا، اس کا مرحلہ بھی آپہنچا۔ اس امتحان میں بھی وہ اپنے شیوخ کی دعاؤں سے کامیاب ہو گئے۔ مرشد نے حکم دیا ’’رمضان تم دین اور طریقت کی اشاعت کیلئے لاہور بلائے گئے ہو۔ اب تمہارا سونا، جاگنا، کھانا، پینا اور چلنا پھرنا سب دین کی خدمت سے وابستہ ہو چکا ہے۔ اللہ کا ولی جب نیت کر لیتا ہے تو قادر مطلق اس کے ہر عمل کو عبادت سے معمور فرماتا ہے۔ پس یہ جان لو۔ جسم و روح کی طہارت و پاکیزگی برقرار رکھنی ہے، لذتِ باطن سے آسودگی حاصل کرنی ہے تو میرے مبارکؒ کے صدقے اُن کے مشن کو لیکر آگے چلنا ہے تمہیں‘‘ ۔
صرف تن کے کپڑوں میں ٹھٹھری راتوں میں حسین آباد گلبرگ لاہور میں ہجرت کے بعد قیام کرنے والے پیر محمد ر مضان رضوی سیفی نے کرایہ کے گھر میں ہی قرآن کا درس شروع کیا اور بچّوں کو پڑھانا شروع کیا ۔ جب شیخ و مربّی حضرت پیر محمد عابد سیفی نے باقاعدہ جامعہ بنانے کی ہدایت فرمائی تو پیر محمد رمضان رضوی سیفی کے پاس ان دنوں دو وقت کی روٹی کا بھی سامان میّسر نہیں تھا۔ آپ کے شیخ مستجاب الدعوت ہیں۔ لہٰذا آپ نے شیخ سے دعا کی درخواست کی تو انہوں نے ولولہ آمیز انداز میں اپنا عصازمین پر مارتے ہوئے تین بار کہا۔ ’’یہیں اور اسی جگہ جامعہ بنے گا۔ اللہ کریم اپنے فضل سے عطا فرمائے گا اور یاد رکھنا جو لوگ اللہ کی رضا کیلئے کام کرتے ہیں، اللہ کی مدد ان کیلئے آ پہنچتی ہے۔ اللہ اپنے خاص بندوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھا دیتا ہے کہ جاؤ ہمارا فلاں جگہ پر فلاں بندہ دین کا کام کر رہا ہے، اس کی مدد کرو۔ ربّ ذوالجلال اولیاء کا ولی و نصیر ہے۔ وہ ذات کبریا تمہیں مایوس نہیں کرے گی‘‘
یہی ہوا۔۔۔۔۔۔ مشیّت الہٰی، حکمت الہٰی کے اسباب و اسرار کون جان سکتا ہے۔ پیر محمد رمضان اپنے اس پُرآشوب دور میں اپنے شیخ کی دعائیہ لمحات کو یاد کرتے ہوئے دلگیر ہو جاتے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں ’’میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ میری اپنی کوئی کاوش بھی نہیں تھی۔ یہ سب میرے مرشد کی دعا کا فیض تھا کہ دوست احباب اور انجان لوگ بھی دین کے کام کیلئے والہانہ بھاگتے ہوئے مدد کو آن پہنچتے۔ یہ جگہ خریدی گئی، طلبا کیلئے یہاں یہ چار منازل قائم ہیں۔ اس کی تعمیر کا ہر لمحہ مجھے یاد ہے۔ جامعہ کا کام ہو رہا ہوتا تو پیسے ختم ہو جاتے اور کام رک جاتا۔ ہم دعاؤں کیلئے ہاتھ اٹھاتے، شیخ کی بارگاہ پہنچتے اور دعا کیلئے عرض کرتے اور یوں ہمارے شیخین کے صدقے غیب سے امداد آجاتی اور جامعہ تعمیر ہوتا چلا گیا۔ یہ میرے شیخ کی زندہ کرامت ہے کہ طلبا کے جامعہ کے بعد اسی گلی میں طالبات کیلئے بھی چار منزلہ عمارت تعمیر ہو رہی ہے۔ میرے داد مرشد حضرت اخندزادہ مبارکؒ کے فیض کے چشمے ان جامعات میں رواں ہیں اور بچّے بچیاں دین کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں‘‘۔(جاری ہے )