آئین کی اہمیت!

  آئین کی اہمیت!
  آئین کی اہمیت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگر انسان غور کر سکے تو اسے یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ اللہ کی تخلیق کردہ یہ کائنات کسی آئین کے مطابق ہی چل رہی ہے ویسے تو ابھی تک کسی انسان کی یہ پہنچ نہیں کہ وہ اللہ کی کائنات کا علم تو درکنار اس کائنات کی وسعت کا اندازہ بھی کر سکے، ہم مسلمانوں کو تو ویسے ہی علم سے چڑ ہے اور ہم اپنی کنواں نما دنیا پر ہی نازاں ہیں لیکن جو لوگ اس کائنات کا کھوج لگانے میں مصروف عمل ہیں ان کا خیال ہے کہ اس کائنات کے اندر کروڑوں سورج ہو سکتے ہیں جو اپنے گرد گھومنے والے سیاروں کو روشنی اور حرارت دیتے ہیں، ابھی تک زمین پر رہنے والے ان کھوجیوں کا علم جہاں تک پہنچ سکا ہے اس کے مطابق سورج، پانی اور ہوا کے بغیر کسی بھی سیارے پر زندگی کا تصور نہیں ہے، اگر سورج چمکنا بند کر دے تو تمام سیاروں کی مخلوق اور نباتات کی حرکت بھی بند ہو جائے، اس طرح اگر زمین پانی کی فراہمی روک دے تو زمین پر سے زندگی مفقود ہو جائے، صرف کچھ گھنٹوں کے لئے ہوا (آکسیجن) رک جائے تو کوئی ذی نفس سانس نہ لے سکے، ابھی تک انسانوں کے علم کے احاطے کے مطابق ہر شے اپنے اپنے مدار میں اپنے فرائض پورے نظم و ضبط سے ادا کر رہی ہے اسی کو ہم رب کائنات کا آئین سمجھتے ہیں اس رب کا فرمان ہے کہ میری تخلیق کردہ ہر چیز توازن کے ساتھ مسلسل اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے پھر انسان کیوں اس کے احکامات کی عدولی کرتا ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے افضلیت کا درجہ عطا فرما کر اپنا نائب بنا دیا تو انسان سمجھتا ہے کہ مجھے اپنی مرضی بھی کرنے دی جائے؟

لیکن ہمیں اس چیز کا بھی ادراک کرنا چاہئے کہ ہم جس کے نائب ہیں اس کی پیروی کرنا بھی فرض ہے اس کے آئین کے اندر رہتے ہوئے ہم پوری طرح بااختیار ہیں، مگر اس کے آئین کی خلاف فرضی اس مالک کی کائنات میں خلل ڈالنے کا سبب بنتی ہے۔

جب سے دنیا میں ریاست کا تصور سامنے آیا ہے تب سے ہی انسانوں نے اپنی اپنی سرحد کے اندر نظام کو چلانے کے لیے آئین سازی کا تصور بھی اپنایا ہے شاید پہلے پہل یہ تصور بھی اس کائنات کے آئین سے ہی لیا گیا ہو گا۔ اللہ کی کائنات اور اس کا آئین مکمل ہے، لیکن انسان چونکہ مسلسل سیکھنے کے مراحل سے گزرتا ہے اس لئے جہاں اور جب ضرورت پیش آئے وہ اجتماعی فراست اور کھلی مشاورت سے اپنے آئین میں ترامیم بھی کرتے ہیں۔

اب تک یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دنیا کی ہر وہ ریاست جس نے عوامی امنگوں کے مطابق اپنا آئین بنایا اور اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا وہ نہ صرف ترقی کی منازل طے کر گئی،بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی اپنا مقام بلند کر کے دنیا کے فیصلوں میں اپنا حصہ وصول کیا، دوسری طرف ان تمام پسماندہ ریاستوں کی کہانی بھی طشت از بام ہے جنہوں نے یا تو کوئی متفقہ آئین بنایا ہی نہیں اگر بنایا تو اس پر عمل نہیں کیا، ایسی ریاستوں میں پھر ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ اور عوام کی حالت بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف رہتی ہے۔

پاکستان کے معرض وجود میں لانے کی تحریک کی بنیاد ہی آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے پر رکھی گئی تھی، کیونکہ قائد اعظم نے ہندووں کے رویوں کو دیکھتے ہوئے یہ بھانپ لیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو حقوق ملیں گے نہ ملکی آئین بنانے میں ان کی مشاورت شامل ہو گی اس لئے ہمیں الگ ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہے، جس میں رہنے والے ہر انسان کو اس کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو اور قانون سب کے لئے برابر ہو، پھر اسی منشور کے تحت پاکستان تو حاصل کر لیا،مگر پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی ہم نے اپنے منشور کو بھاری بوٹوں تلے مسل دیا اور پاکستان کے ٹوٹ جانے تک ایک متفقہ آئین نہ بنا سکے، آدھا پاکستان گنوا دینے اور باقی ماندہ ملک کے 95 ہزار نفوس کو دشمن کی قید میں چلے جانے کی برکت سے ہم نے عقل کے ناخن لیتے ہوئے 1973ء میں ایک متفقہ آئین تو بنا لیا،مگر جن پر یہ آئین بھاری پڑا (جن کے ہاتھ کی لاٹھی آئین نے لے لی اور ان کو بھینس ہاتھ سے نکلتی محسوس ہوئی)۔

انہوں نے بھی یہ تہیہ کر لیا کہ ہم اس آئین کو کسی الماری تک ہی محدود رکھیں گے یا پھر اسے اپنے پاؤں تلے روندتے رہیں گے اس کے لئے انہیں سب سے پہلے اس آئین کے بڑے محرک کو ٹھکانے لگانا تھا سو وہ 1979ء میں کام تمام ہوا اور اس کے بعد پھر انہی کا آئین چلتا آ رہا ہے اور نہ صرف ملک،بلکہ ملک کی ہر سیاسی جماعت، مذہبی، سماجی اور فلاحی تنظیمیں سب ہی بغیر آئین چل رہی ہیں، لیکن یہ چلنا وہ نہیں جسے ہم گاڑی کا چلنا کہتے ہیں یا یہ کہ چلتی کا نام گاڑی،بلکہ یہ وہ چلنا ہے جسے آخر میں کہا جاتا ہے کہ ”چل بسے“۔

جس طرح کائنات بغیر آئین کے نہیں چل سکتی اسی طرح دنیا کی کوئی ریاست بغیر آئین کے بہت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی، ملک پاکستان کا المیہ ہے کہ اس ریاست کے آئین سے کہیں زیادہ طاقتور شخصیات ہوتی ہیں،حالانکہ آئین ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے اور شخصیات چند برس تک رہنے والی ہوتی ہیں پھر جب ایک شخصیت کے بعد دوسری شخصیت طاقت میں آتی ہے تو پچھلا سب کچھ بدل جاتا ہے جس سے ہم ایک قدم آگے جانے کے بعد دو قدم پیچھے کو لڑھک جاتے ہیں ریاستی آئین پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ اس ملک میں کوئی ایک بھی ادارہ اپنی حدود میں درست کام نہیں کر رہا،کوئی ایک بھی جماعت یا تنظیم آئین کے ساتھ نہیں چل رہی، ہماری کرکٹ کی تباہی کرکٹ بورڈ کے آئین کے مطابق نہ چلنے کی وجہ ہے. اور عوام کی یہ حالت ہے کہ انہیں آئین کا علم ہی نہیں کہ یہ کس چڑیا کو کہتے ہیں عام عوام تو عام ہیں سیاسی جماعتوں کے عہدیدار اور کارکن بھی آئین کے جھنجھٹ سے آزاد اپنے مفادات کے اسیر ہیں ان کو تو آئین اور منشور کے فرق کی بھی تمیز نہیں ہے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی سیاسی جماعتوں کے بہت متحرک کارکن آئین کو منشور یا منشور کو آئین سمجھ رہے ہوتے ہیں ان کے لیے ایک مثال دیتا ہوں جس بنیاد پر پاکستان بنایا تھا اسے منشور کہتے ہیں اور جس پر ملک چلانا تھا اسے آئین کہتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -