گورنر کی برطرفی کے باوجود پنجاب میں بحرانی کیفیت ختم نہیں ہوئی؟

گورنر کی برطرفی کے باوجود پنجاب میں بحرانی کیفیت ختم نہیں ہوئی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:سعید چودھری 

     وفاقی حکومت کی طرف سے عمر سرفراز چیمہ کو گورنر پنجاب کے عہدہ سے ہٹائے جانے کے باوجود پنجاب حکومت کی مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ ایک نیا آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے،کیا وفاقی حکومت کا اقدام آئین کے عین مطابق ہے؟اور کیا اب بال پھر صدر کے کورٹ میں چلی گئی ہے؟حکومت کا موقف ہے کہ کے آئین کے آرٹیکل48کے تحت صدر وزیراعظم /کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں وہ 15دن کے اندر ٹھوس وجوہات کے ساتھ سمری دوبارہ جائزہ کے لئے وزیراعظم / کابینہ کو واپس بھیج سکتے ہیں اگر صدر کو وہی سمری دوبارہ بھیجی جائے تو وہ آئینی طور پر اسے منظور کرنے کے پابند ہیں۔عدالتی فیصلے اس موقف کی تائید کرتے ہیں،سردار لطیف کھوسہ کیس میں اعلیٰ عدلیہ قراردے چکی ہے کہ اگر دوسری مرتبہ بھیجی گئی سمری کو 10دن میں منظور نہیں کیاجاتا تو وہ سمری منظور کی گئی تصور ہوگی اور حکومت کو اس کے مطابق نوٹیفکیشن کا اختیارہوگا،اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے جس کے تحت صدر کا کردار وہی ہے جو برطانیہ میں ملکہ کا ہے،غیر تحریری آئین ہونے کے باجود ملکہ نے کبھی کابینہ کی کسی ایڈوائس کو مستردنہیں کیا،آئین کے آرٹیکل 101میں واضح ہے کہ گورنر کا تقرر وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہوگا،اس آرٹیکل کی منشا یہی ہے کہ گورنر کے تقرر اور برطرفی کے اختیارات وزیراعظم کے پاس ہیں جس کی رسمی منظوری صدر سے لی جاتی ہے تاہم اب پی ٹی آئی والوں کا کہناہے کہ اسی آرٹیکل کے ذیلی آرٹیکل(3)میں لکھا ہے گورنر صدر کی خوشنودی تک کام کرے گا، عدالتی فیصلے اس موقف کی تائید نہیں کرتے،حال ہی میں گورنر پنجاب چودھری سرور کو برطرف کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان نے ہی ایڈوائس بھیجی تھی جسے صدر نے فوری طور پر منظور کرلیا اگر ایڈوائس کی ضرورت نہیں تو پھر چودھری سرور کے معاملے میں سمری کیوں بھیجی گئی؟اب آتے ہیں اس معاملے کے دوسرے پہلو کی طرف،آئین کے آرٹیکل104کے تحت اگر گورنر موجود نہ ہو یا پھر وہ کسی وجہ سے فرائض منصبی اداکرنے سے قاصر ہو تو ان کی جگہ سپیکر صوبائی اسمبلی قائم مقام گورنر کے طور پر کام کریں گے،اگر سپیکر بھی دستیاب نہ ہو تو پھر صدر قائم مقام گورنرکے طور پر کوئی نمائندہ مقررکریں گے جو گورنر کی دستیابی تک کام کرے گا،زیرنظر کیس میں اب سپیکر پنجاب اسمبلی نے مبینہ طور پر قائم مقام گورنر کے طور پر کام کرنے سے انکارکردیاہے،اس سلسلے میں مسلم لیگ (ق)کی طرف سے پریس ریلیز بھی جاری کی گئی ہے،سپیکر نے ایڈووکیٹ جنرل کی سمری کی منظوری کے لئے آنے والے گورنر ہاؤس کے سٹاف کو بھی واپس بھجوا دیاہے تاہم آخری اطلاع تک سپیکر نے تحریری طور پر بطور گورنر کام کرنے سے انکار نہیں کیا،اگر ایساہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ قائم مقام گورنر موجود ہے تاہم وہ وزیراعلیٰ کے ساتھ تعاون نہیں کررہا اور ایڈوائس فوری طورپر قبول کرنے سے انکاری ہے،واضح رہے کہ قائم مقام گورنر کے طور پر سپیکر کے لئے بار بار حلف اٹھانا ضروری نہیں،اس بابت قانون موجود ہے کہ ایک مرتبہ بطور قائم مقام گورنر حلف اٹھانے کے بعد دوبارہ حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں،صدر کو سپیکر کی طرف سے بطور قائم مقام گورنر عدم دستیابی کی تحریری اطلاع نہ دینے کی صورت میں معاملہ آئینی طور پر گھمبیرنظر نہیں آتا تاہم اگر سپیکر صوبائی اسمبلی باضابطہ طور پر قائم مقام گورنر کے طورپر کام کرنے سے انکار کردیں اور تحریری طور پر اس بابت صدر کو آگاہ کردیں تو پھر گورنر اور قائم مقام گورنر دونوں عہدے خالی تصور کئے جائیں گے،آئینی طور پر صوبہ کے تمام معاملات گورنر کے نام پر چلائے جاتے ہیں اور یہ عہدہ ایک منٹ کے لئے بھی خالی نہیں چھوڑا جاسکتا،اب اگر نمائندہ مقررکرنے کا مرحلہ پیش آتا ہے تو ایک مرتبہ پھر معاملہ صدر کے پاس ہی جائے گا اور صدر کو اس بابت کابینہ کی سمری 15دن تک روکنے اور دوسری بار بھیجی گئی سمری کو10دن تک روکے رکھنے کا اختیارہے جبکہ نئے گورنر کے تقرر کے لئے بلیغ الرحمن کی سمری جاچکی ہے جسے صدر کی نامنظوری کے باجود25دن بعد بلیغ الرحمن کو گورنر پنجاب مقررکیاجاسکتاہے،آئینی ماہرین کا کہناہے کہ آئین کے آرٹیکل104کے تحت قائم مقام گورنر کے طور پر کام کرنا سپیکر صوبائی اسمبلی کی آئینی ذمہ داری ہے جس سے وہ انکار نہیں کرسکتے تاہم بیماری یا بیرون ملک ہونے کے باعث وہ ایسا کرسکتے ہیں،اگر سپیکر چودھری پرویز الہٰی بطور قائم مقام گورنر چارج سنبھال بھی لیتے ہیں تو بھی موجود بحران نئے مستقل گورنر کے تقرر تک برقراررہنے کا امکان ہے کیونکہ یہ بات ناممکنات میں سے نہیں ہے کہ وہ پنجاب کابینہ کی منظوری اور پھر اس سے حلف لینے سے انکار کردیں۔
سعید چودھری 

مزید :

تجزیہ -