گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 76
لاہور کے عوام کو مارشل لاء کا پہلا تجربہ تھا۔ جنرل اعظم خاں، مارشل لاء کے ناظم اعلیٰ تھے اور اگرچہ فوج افراتفری کو روکنے اور امن وقانون کو بحال کرنے میں بہت مددگار ہوئی تھی، تاہم میں دو مہینے کے بعد مارشل لاء اٹھوانے میں کامیاب ہوگیا۔
میں نے اپنی وزارت میں نواب مظفر علی قزلباش کو بھی شامل کیا۔ وہ ایک بڑی اخلاقی شخصیت تھے اور یونینسٹ کابینہ میں سرخضر حیات کے زبردست دوستوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ میں نے سوچا کہ وہ چونکہ پارٹی کے رکن ہیں اس لئے ان کی مخالفت نہیں ہوگی لیکن اس انتخاب پر جب مجھے ایک ایسے شخص نے مبارکباد دی جس کی منافقت عالم آشکارا ہے تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ سے کتنی بڑی غلطی ہوئی ہے۔ حصول پاکستان کی جدوجہد کے دوران میں یونینسٹ پارٹی نے اپنی ہٹ دھرمی اور کوتاہ نظری کے باعث مسلمانوں کے جسد ملی پر جوزخم لگائے تھے، وہ ابھی تازہ تھے۔ تاہم اس سے قطع نظر کوئی شخص قزلباش کے خلاف کوئی بات کہہ نہیں سکتا تھا۔ وہ میرے انتہائی وفادار اور بڑے بااثر حمایتی ثابت ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی وہ بڑے بااصول، اچھے اور معقول منتظم بھی تھے۔ ان کے علاوہ میں نے جن لوگوں کا انتخاب کیا وہ مسٹر دولتانہ کی وزارت میں بھی رہ چکے تھے کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا کہ خواہ مخواہ خلفشار کی صورت پیدا ہو۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 75 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پنجاب میں نہ صرف امن عامہ کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہوا بلکہ یہ صوبہ شدید غذائی قلت میں بھی مبتلا تھا۔ سیاست میں عدم تحفظ، بے ثباتی اور بے یقینی کی فضا نے دیہی علاقوں میں بھی شدید انتشار پیدا کردی تھا۔ غلہ اوّل تو کم تھا اور اگر کچھ تھا بھی تو اسے چھپا کر ذخیرہ کرلیا گیا تھا۔ چنانچہ میری بنیادی حکمت عملی یہ تھی کہ عوام میں بالخصوص دیہی علاقوں میں، اعتماد بحال کیا جائے۔
ہم لوگوں نے پاکستان میں نہایت غلط پالیسیوں پر عمل کیا ہے ۔ ماضی کی حکومتوں نے شہری عوام اور شہریوں کے جاری کردہ اخبارات کے زیر اثر گندم کی قیمتوں میں تخفیف کی کوششیں کیں۔ یہاں تک کہ ساڑھے سات روپیہ من قیمت مقرر کرکے دم لیا۔ دنیا کے باقی تمام ملکوں میں گندم کی قیمت کا اوسط اس سے دگنا، بلکہ دگنے سے بھی زیادہ تھا۔ اس کے بعد فطری امر تھا کہ کسانوں نے ان اجناس کے مقابلہ میں گندم کی بوائی کم کردی جن پر حکومت کا کنٹرول نہیں تھا۔ میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ مرکزی وزارت خزانہ معاملہ کی معقولیت کو تسلیم کرلے لیکن اس نے نہایت تاخیر سے کارروائی کی اور بالآخر قیمت ساڑھے بارہ روپے من مقرر کی۔ اس کے بعد حکومت نے گندم جبری خریدنا اور شہروں میں فروخت کرنا شروع کیا اور 90 فیصد آبادی کو فراموش کردیا جو دیہات میں آباد تھی اور جہاں قیمتیں 25 روپیہ من تک چڑھ گئی تھیں۔ حکومت کے اس اقدام سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے حکومت کے واجبات اور دوسرے قرضے اداکرنے کے لئے اپنی فصلیں تیاری کے فوری بعد فروخت کردی تھیں۔ ان دنوں چنا چودہ روپے من کے حساب سے فروخت ہورہا تھا جبکہ حکومت گندم کے ذخائر جبری طور پر ساڑھے بارہ روپے من کی شرح سے خرید رہی تھی لیکن آڑھتی گند م میں مٹی اور جو کی مفروضہ ملاوٹ کے آٹھ آنے کاٹ لیتا تھا اور مزید آٹھ آنے گاؤں سے منڈی تک اناج کی لدائی کے الگ وضع کرتا تھا۔ لہذا کسی کسان کو گندم کی قیمت ساڑھے گیارہ روپے من کے حساب سے وصول ہوتی تو وہ خوش قسمت سمجھا جاتا تھا۔
ایک اور بات یہ کہ رقم آڑھتی سے فی الفور ادا نہیں ہوتی تھی۔ کبھی وہ کہتے کہ حکومت نے ابھی روپے نہیں بھیجے ہیں اور کبھی عذر پیش کرتے کہ گندم کا نمونہ لاہور بھیجا گیا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس میں مٹی کی کتنی ملاوٹ ہے۔ جب یہ نمونہ واپس آجاتا تو وہ سرکاری حیثیت سے کچھ رقم وضع کرلیتے تھے اور اسے ’’ٹچ‘‘ یا چھوٹ کا نام دیتے تھے۔ دیہاتی لوگ اس لفظ سے اچھی طرح آشنا ہیں۔ ساڑھے بارہ روپیہ قیمت غیر ملکی گندم کی درآمدی قیمت سے بھی کہیں کم تھی، جس پر کراچی میں اتارنے کے بعد سولہ روپیہ من لاگت آتی تھی۔(جاری ہے )