وزیراعظم کا دورہ بیلا روس
وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ بیلاروس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کے تبادلے ہوئے۔ اِس دورے میں مسلم لیگ(ن) کے صدر سابق وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور وفاقی کابینہ کے ارکان بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بیلاروس کے مالی تعاون کے فنڈ برائے کاروبار اور سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا)، بیلاروسی ایوانِ صنعت و تجارت اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان، دونوں ممالک کے داخلی وزارتوں کے علاوہ ری ایڈمیشن اور دفاعی وزارتوں کے درمیان فوجی تعاون کے معاہدے ہوئے، 2025ء سے 2027ء کا روڈ میپ بھی پیش کیا گیا جو بیلاروس کی فوجی صنعت اور وزارتِ دفاعی پیداوار پاکستان کے درمیان طے ہوا تھا۔ معاہدوں کے علاوہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے ”جے ایس سی ایم کوڈور“ اور ”او جے ایس سی ماز“ کے درمیان بھی مفاہمتی یادد اشتوں پر دستخط ہوئے جبکہ اِس موقع پر ماحولیاتی تحفظ کی مفاہمتی یادداشت پر عملدرآمد کا روڈ میپ بھی دیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیلاروس کے صدر نے کہا کہ اُن کا ملک پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے وسیع مواقع موجود ہیں، شہباز شریف کے دورے سے دو طرفہ تعلقات کو نئی جہت ملے گی۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور بیلاروس بزنس فورم کا انعقاد تجارت کے فروغ کے لئے اہم ہے، دو طرفہ تجارت اور اقتصادی تعاون کے مواقع سے حقیقی معنوں میں استفادہ کرنا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ صدر بیلا روس کے گزشتہ دورہ پاکستان نے دوستی کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا،اُن کی قیادت میں بیلا روس نے نمایاں ترقی کی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں،بیلاروس کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مو اقع اور سازگار ماحول سے فائدہ اُٹھانا چاہئے،دونوں ممالک کو زرعی اور صنعتی شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
وزیراعظم شہباز شریف وفد کے ہمراہ دو روزہ سرکاری دورے پر بیلاروس کے دارالحکومت منسک پہنچے تو وزیراعظم الیگزینڈر تورچن نے اُن کا ائیرپورٹ پر استقبال کیا۔ شہباز شریف نے منسک کے وکٹری سکوائر کا دورہ بھی کیا،اُن کی ایوانِ آزادی آمد پرشاندار خیر مقدم کیا گیا، بیلا روس کی مسلح افواج کے چاق و چوبند دستے نے وزیراعظم شہباز شریف کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ وہ استقبالیے کی تقریب میں پہنچے تو بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اُن کا پُرتپاک استقبال کیا جبکہ اِس تقریب میں دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے۔ بیلا روس کے ایوانِ آزادی میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات بھی ہوئی جس میں اتفاق کیا گیا کہ پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تربیت یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو بیلا روس بھیجنے سے متعلق لائحہ عمل جلد ترتیب دیا جائے گا، غذائی تحفظ یقینی بنانے کے لئے زرعی شعبے اور زرعی مشینری کی تیاری پر مشترکہ طور پر کام کرنے کے علاوہ الیکٹرک گاڑیوں اور بسوں کی تیاری، دفاعی تعاون اور بزنس ٹو بزنس تعاون بڑھانے کا اعادہ بھی کیا گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں بیلا روس کے صدر تین روزہ دورہ پر پاکستان آئے تھے، اِس وقت دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے لئے مفاہمت کی 15 یادداشتوں پر دستخط کے علاوہ چند معاہدے بھی کیے گئے تھے،اِس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان جامع تعاون کے روڈ میپ 27- 2025ء پر دستخط کئے گئے تھے جس پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے پاکستانی وفد بیلا روس کے دورے پر گیا۔ دونوں ممالک کا تجارتی حجم محض 35ملین ڈالر کے قریب ہے جسے ایک ارب ڈالر تک بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے سابق دورِ حکومت کے دوران نئی منڈیوں کی تلاش کے دوران پاکستان نے بیلا روس کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ اُس وقت کے بیلا روس کے وزیراعظم آندرے کوبیاکوف نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کر کے دونوں ممالک کے درمیان کثیرالجہتی شعبوں پر محیط ٹھوس فریم ورک کے حامل ”روڈ میپ برائے اقتصادی تعاون“ پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا سلسلہ پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں رک گیا تھا اور پھر جب بیلا روس کے صدر کے پاکستان دورے کا وقت تھا تو اسی سیاسی جماعت نے اسلام آباد میں احتجاج کا بازار گرم کر رکھا تھا لیکن اب ایک بار پھر کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں، جلد از جلد معاملات کو آگے بڑھائیں تاکہ پاکستان کو بیلا روس کی شکل میں ایک نئی منڈی دستیاب ہو سکے۔ دونوں ممالک تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے اور نجی شعبے کی شمولیت کو فروغ دینے کے لئے پُرعزم نظر آتے ہیں، دونوں کے پاس ٹیکسٹائل مشینری، زرعی پراسیسنگ، دوا سازی، قابل ِ تجدید توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ای کامرس جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ بیلا روسی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے سپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی گئی ہے،یہ زون پُرکشش مراعات کے علاوہ تین ارب سے زائد آبادی پر مشتمل منڈیوں تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔
اِس دورے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں میاں نواز شریف بھی وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ہیں، اگر دونوں ممالک کے دوران ”روڈ میپ برائے اقتصادی تعاون“اِسی طرح جاری رہتا تو حالات شاید تھوڑے مختلف ہوتے۔ برسراقتدار آنے والوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ملکی مفاد میں بننے والی پالیسی اور ترقی کی طرف لے جانے والے منصوبوں کو ہر صورت جاری رہنا چاہئے، اِن میں کسی قسم کی رکاوٹ یا تعطل آنے سے مالی نقصان تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ باہمی تعلقات پر بھی اثر پڑتا ہے۔ بہر حال اب سلسلہ پھر شروع ہوا ہے، وزیر اعظم نے جب سے حکومت سنبھالی ہے وہ بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، کسی حد تک انہیں کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے، بہت سے ممالک سرمایہ کاری پر تیار نظر آ رہے ہیں لیکن اِس کے لئے لازم ہے کہ سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کیا جائے جس کی ذمہ داری سب پر یکساں عائد ہوتی ہے۔اہل ِ اختیار کو اِس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اگر آگے بڑھنا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، خود کفیل ہونا ہے تو سب کو ایک ہی سمت میں چلنا ہو گا۔اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے لئے سوچیں،سب اپنی آئینی حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنا اپنا کام کریں، معاشرے میں جو گہری تقسیم کر دی گئی ہے اُسے کم کرنے کا اہتمام کریں، صرف اور صرف ملک کے بارے میں سوچیں۔