چین امریکہ تجارتی جنگ: چین کا پلہ بھاری ہے؟

   چین امریکہ تجارتی جنگ: چین کا پلہ بھاری ہے؟
   چین امریکہ تجارتی جنگ: چین کا پلہ بھاری ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 چین عالمی پیداوار کے پاور ہاؤس کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پوری دنیا کی پیداوار کا حجم 162لاکھ ملین ڈالر کے مساوی ہے یعنی پوری دنیا میں ہر سال جو مینوفیکچرنگ ہوتی ہے اس کی مالیت تقریباً 162 لاکھ ملین ڈالر ہے۔ یہ اعدادو شمار ورلڈ بینک کی شائع کردہ رپورٹ سے لئے گئے ہیں۔ اس  میں چین کا حصہ 47لاکھ ملین ڈالر جبکہ امریکی پیداوار کی مالیت 25لاکھ ملین ڈالر کے مساوی ہے۔ پاکستان کا حصہ 46ہزار ملین ڈالر کے برابر ہے۔ انڈیا 4لاکھ 56 ہزار ملین ڈالر مالیت کی پیداوار دیتا ہے۔ گویاچین عالمی پیداوار میں سپرطاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین ایک ابھرتی ہوئی عالمی معیشت ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان سلطنت ہے۔ چین نے عالمی منظر پر چھا جانے سے پہلے اندرون ملک بیداری و شعور پیدا کیا۔ اقوام مغرب کی طرف سے افیون وار کا مقابلہ کیا چینی عملاً افیونی قوم بن چکے تھے۔ ماؤزے تنگ اور چواین لائی نے قوم کی بیداری کا بندوبست کیا، خوابیدہ قوم کو بیدار کیا، آمادہ پیکا رکیا، سوشلزم کے ذریعے صف بندی کی اور پھر بڑی خاموشی سے قوم کو ایک منظم اور متحرک مشین بنا ڈالا۔ پھر جب چین عالمی منظر پر ظاہر ہوا تو تھوڑے ہی عرصے میں عالمی تجارت اور سفارت پر چھا گیا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہو یا ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی دوڑ ہو یا کسی بھی شعبے میں مقابلہ،چین نے جاری عالمی نظام کا حصہ بن کر، اسی نظام کے ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اس نظام کے بانیوں مبانیوں کوپچھاڑا۔نعرے بازی سے نہیں،ٹھوس حکمت عملی پر عمل پیراہو کر، اقوام مغرب کو ساتھ ملا کر۔ چین نے جو نظام ترتیب دیا ہے وہ اس قدر پرکشش ہے کہ اقوام مغرب ہوں یا مشرق اور افریقی اقوام سب اس میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ چین عالمی معیشت و تجارت پر چھا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عالمی برتری کا سنگھاسن ڈول چکا ہے۔ چینی معیشت میں خالصتاً سرکاری کنٹرول میں کام کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ خالصتاً نجی شعبے کے قوی البحثہ پیداواری ادارے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نجی و سرکاری مشترکہ کنٹرول میں چلنے والی کارپوریشنز بھی کام کررہی ہیں۔ قومی پیداوار کا 60فیصد خالصتاً  نجی شعبہ پیدا کرتا ہے اور نئے روزگار کے مجموعی مواقع کا 90 فیصد یہ شعبہ پیدا کرتا ہے۔ شہری زندگی میں پیدا کردہ ذرائع روزگار کا 80فیصد خالصتاً نجی شعبے کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ چینی معیشت کس قدر متنوع اورمضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے۔ چینی معیشت نے 2024ء میں 5فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ 18.9 ٹریلین ڈالر کی اشیاء و خدمات پیدا کیں جبکہ امریکی معیشت نے 2.8فیصد گروتھ کے ساتھ 29.2ٹریلین ڈالر کی اشیاء خدمات پیدا کیں۔ چینی معیشت تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ اس کا حجم بہت زیادہ ہے، اس کی کارکردگی بہت اعلیٰ ہے لیکن امریکہ کیونکہ 200 سالوں سے تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور عالمی معیشت  میں کلیدی اور رہنما کردار ادا کرتا رہا ہے۔ چین ابھی اس مقام سے دور ہے لیکن جس رفتار سے اس کی معیشت پھل پھول رہی ہے وہ مقام اب اس کی پہنچ سے زیادہ دور نظر نہیں آ رہا۔ چین عالمی سطح پر نمبرون بننے جا رہا ہے۔ اب یہ صرف وقت کی بات ہے۔

چینی برآمدات یعنی ایکسپورٹ میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ چین کی امریکی برآمدات میں 2024ء میں 10.7فیصد بڑھوتی ہوئی 2024ء میں چینی برآمدات کا حجم 525ارب ڈالر تھا جبکہ امریکہ سے چینی درآمدات 2018ء میں 21.2 فیصد سے گھٹتے گھٹتے 2024ء میں 13.85فیصد ہوگئی ہیں۔گویا چینی برآمدات سے جو کماتا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ امریکہ سے خریداری پر جو خرچ کرتا ہے وہ کم۔ ایکسپورٹ آمدن اور امپورٹ خرچ کے فرق کو تجارتی خسارہ کہتے ہیں اس شعبے میں امریکہ خسارے میں ہے اور چین منافع میں ہے اس تجارت سے چین خوب کمائی کر رہا ہے جبکہ امریکہ کے لئے یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر ٹیرف بڑھا کر انہیں مہنگا کرنے کی کوشش کی ہے اس طرح امریکہ میں چینی امپورٹس مہنگی ہونے کے باعث پرکشش نہیں رہیں گی اور توقع کی جا رہی ہے کہ  امریکی تجارتی خسارہ بھی کم ہوگا اور چینی مصنوعات کی مانگ میں کمی واقع ہوگی۔ اس ٹیرف سے امریکی خزانے میں زیادہ سے زیادہ ڈالرز جائیں گے ویسے ابھی تک یہ صرف حساب کتاب ہی ہے عملاً کیا ہوگا وہ تو ہمارے سامنے نہیں آیا لیکن عالمی سٹاک مارکیٹ میں بھونچال ضرور آ گیا ہے، ہلچل مچی ہوئی ہے، عالمی نظام زر میں کجی کا زور ہے، بے یقینی کی صورت حال نے عالمی سطح پر منفی اثرات مرتب کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ چین نے امریکی ٹیرف کا جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ چین نے امریکی درآمدات پر بھی ٹیکس لگا دیاہے،اس طرح امریکہ سے چین جانے والی امریکی برآمدات چینی مارکیٹ میں مہنگی ہو جائیں گی ان کی طلب/ کھپت میں کمی ہوگی۔ چین ایک بڑی معیشت ہے اس کے پاس زرمبادلہ کے وسیع و عریض ذخائر ہیں اس کی اشیاء اس کے اپنے نظام کے ذریعے تین براعظموں کے 129سے زائد ممالک میں پہنچتی ہیں اس لئے چین کو اس جنگ میں کسی بڑے نقصان کا احتمال نہیں ہے۔ اگر یہی بات ہم دوسرے طریقے سے کریں تو اس جنگ کے نقصانات برداشت کرنے میں  چین کی صلاحیت امریکہ کے مقابلے میں زیادہ ہے یہ جنگ وہ فریق جیتے گا جس کی نتائج قبول کرنے / برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوگی۔ یہ ایک طرح کی اعصابی جنگ بھی ہے۔ اس حوالے سے امریکی قیادت  میں وہ صلاحیت نہیں ہے جو چینی قیادت کی ہے۔ ٹرمپ اس جنگ میں اکیلے نظر آ رہے ہیں، اس کی ریاستی قوتیں بھی شاید ان کے ساتھ نہیں ہیں، ان کے یورپی حلیف بھی ان کی حرکات کے باعث ان سے ناراض ہیں جبکہ چینی قیادت منظم اور مستحکم ہے تجربہ کار ہے اور متانت کے ساتھ عالمی نمبرون پوزیشن کی طرف محو سفر ہے۔

سب سے اہم بات: سفید انسان کی عظمت کا دور بیت رہا ہے۔سفید انسان کی مغربی تہذیب کا غلبہ، تاریخ کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ تہذیبوں کے عروج و زوال میں ایک انتہائی اہم بلکہ فیصلہ کن چیز اخلاقی برتری ہوتی ہے جس نظریے میں اور اس پر قائم ہونے والے معاشرے میں عمومی فلاح و بہبود کا عنصر جس قدر زیادہ ہوتا ہے وہ معاشرہ اسی قدر پھیلتا ہے انسانیت کی فلاح و بہبود میں حصہ لیتا ہے اور اس طرح اس کی قبولیت عام میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔اسلام ایک عظیم الشان مذہب ہے جب تک مسلمانوں نے اسے اخلاقی بنیادوں پر اپنایا اس کے محاسن کو نافذ کیا، فلاحی معاشرہ تشکیل دیا اسے غلبہ حاصل ہوا، لیکن جونہی مسلمان اسلامی بنیادوں سے ہٹے ان کا غلبہ بھی اسی رفتار سے گھٹتا چلا گیا۔ آج ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہونے کے باوجود مسلمانوں کی کوئی اوقات نہیں ہے۔ مغربی تہذیب اور اس کے علمبردار امریکہ کی بھی ایسی ہی حالت ہے۔ مغربی تہذیب کے مہاسن کہیں گم ہو گئے ہیں۔ عسکریت کے باعث، معاشی لوٹ کھسوٹ کے باعث مغربی تہذیب کا اخلاقی پہلو غائب ہوا چاہتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -