بابے بناں بکریاں نئیں چر دیاں
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ یہ وہ نعرہ تھا،جو جونہی ایک جوشیلے ورکر کے منہ سے نکلا لوح محفوظ پر ثبت ہو گیا اور پھر وقت کا پہیہ 14اگست 1947ء کو آکر رکا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان نمودار ہوا۔ ہر سو مسلمانانِ ہند کے گھروں میں شادیانے بجے۔ گلی گلی میں پاک سر زمین کے ترانے سنے گئے۔ اُمید۔اُمنگ اور ترنگ کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی(صبا نے پھر درزنداں پہ آکر دستک دی۔۔۔ سحر قریب ہے۔ دل سے کہو نہ گھبرائے) اس سحر کو سامنے لانے کے لئے حضرت قائداعظمؒ پوری طرح متحرک ہو گئے اور پھر مخالف قوتوں نے بھی کمر کس لی۔اس کے بعد تو خوفناک کھیل شروع ہو گیا۔ہندوستان میں خوش وخرم زندگی بسر کرنے والوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا، بلکہ کیا کیا نہ کیا گیا۔ عصمتیں لوٹی گئیں۔ اَن گنت لوگوں کو راستے میں تہہ تیغ کر دیا گیا، جس کسی کے پاس جو کچھ تھا وہ سارا کچھ لوٹ لیا گیا اور لٹے پٹے یہ قافلے جب پاکستان میں پہنچے تو آگے صرف خواب تھے اور خواب دیکھنے کے لئے گہری نیند کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ ان حالات میں کہاں نیند آتی ہے۔ کشمیر اور حیدر آباد کی ریاستوں میں ہندو انگریز گٹھ جوڑ اپنا کھیل کھیلنے لگا۔ ریڈ کلف ایوارڈ میں پہلے ہی ڈنڈی مار دی گئی تھی۔وسائل کی تقسیم میں پرلے درجے کی بددیانتی کا مظاہرہ کیا گیا۔یہ تھی طلوع صبح اور آفرین قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت۔ مستقل مزاجی اور حوصلہ مندی۔ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے والا بابا۔ آخر کب تک لڑتا اور تقدیر کا بھی ایک اپنا کھیل ہے۔ 11ستمبر 1947ء کو تھک ہار کے ابدی نیند سو گیا (جس گھر دا مالک گھر نہ ہووے اس گھر دے سارے نئیں سوندے) اور بابے بناں بکریاں نئیں چردیاں۔بابا وقت کی اہمیت کو جانتا ہے۔ بابا آنکھیں کھول کے رکھتا ہے۔ بابا گزرے دنوں کو بھی جانتا ہے اور آنے والے دنوں پر بھی اس کی گہری نظر ہے۔ وہ خواب دیکھ چکا ہے اور اس خواب کی تعبیر کے لئے مسلسل برسر پیکار ہے۔ آگے بڑھنے والے منزل پر پہنچ کرہی دم لیتے ہیں اور اگر بابا ہی نہ رہے تو پھر۔ بابے کے وارثوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور ہوشمند وارث ہونے کا ثبوت پیش کرنا ہو گا۔
یہ ہے ہمارا تاریخی پس منظر اور آج ہیں ہم آزاد شہری اور افسوس ہم تاریخ سے کٹ گئے اور پھر ہم نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان عددی لحاظ سے زیادہ ہوتے۔پاکستان اِس لئے بنا تھا کہ انگریز ہندوستان کو توڑنا چاہتے تھے اور قائداعظم گورنرجنرل کیوں بنے، جبکہ ہندوستان والوں نے اپنا گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن بنا لیا تھا وغیرہ وغیرہ۔جب وارث وراثت میں ملنے والی چیزوں کی حفاظت نہ کر سکیں تو ان کی حتیٰ المقدور کوشش یہ ہوتی ہے کہ مدعا بزرگوں پر پھینک کر سرخرو ہو جایا جائے۔ کاش ان کو کوئی سمجھائے کہ سرخی پوڈر کا ایک حد تک اثر ہوتا ہے۔ اصل تو پھر اصلیت ہی ہوتی ہے اور اصلیت نے ایک نہ ایک دن کھل کر سامنے آنا ہے۔اصلیت یہ ہے کہ بلاشبہ انگریز ہندوستان چھوڑنا چاہتے تھے اور ہندو ہندوستان کی تقسیم کو موت سمجھتے تھے اور موخرالذکر اکثریت میں تھے۔ قائداعظمؒ نے 23 مارچ کو تقسیم ہند کا مطالبہ کر کے انگریزوں اور ہندوؤں پر واضح کردیا تھا کہ ہم لے کر رہیں گے پاکستان اور پھر پوری جدوجہد سے ہندوؤں کے عزائم کو خاک میں ملایا گیا اور پاکستان کا نعرہ حقیقت بن گیا۔ متحدہ ہندوستان میں اکثریت نے فیصلے کرنا تھے اور اکثریت بہر حال ہندوؤں کی تھی،جبکہ آزاد ملک پاکستان میں سانس سے لے کر فیصلے کرنے تک سب کام مسلمانوں نے کرنا ہیں۔ مسلم دنیا میں ایک جاندار آواز پاکستان۔ہم ہی یہاں وزیر کبیر بنیں گے اور ہم ہی اپنی نمائندگی کریں گے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن تو کوشش کرے گا کہ پاکستان اور ہندوستان میں ہمارا کسی نہ کسی شکل میں کوئی کردار رہے ایسے تو نہیں وہ گورنر جنرل بننا چاہتا تھا۔ ہمارا بابا اس وقت تک زندہ تھا اور وہ ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا تھا۔افسوس اس کے وارث اور وہ بھی لاوارث جو سارے ثبوت سورج طلوع ہونے سے پہلے غائب کر دیتے تھے۔ وہ آپس میں دست وگریبان ہو گئے۔ انہوں نے اپنی بقاء اور اَنا کی تسکین کے لئے غیروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا، بلکہ غیروں کی گود میں جہاں بیٹھ گئے وہاں بیٹھ گئے، جس کے ہاتھ میں جو آیا زورازوری لے گیا اور اپنی تجوریاں بھر کر اپنے آپ کو جاگیردار اور سرمایہ دار بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ قانون کو ہر کسی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور قانون کے رکھوالوں کے ہاتھ مکمل طور پر باندھ دیئے گئے۔ آئین کو ردی کا ٹکڑا بنا کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق استعمال کیا گیا۔ امیر امیر اور غریب غریب ہوتا چلا گیا اور وسائل کی تقسیم کی بات تقریروں اور تحریروں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ نعروں۔ لاروں اور پھر لاشوں پر سیاست کی عمارت تعمیر کی جانے لگی۔اقتدار کی بھوک نے رہنماؤں کو بالکل اندھا کردیا اور سب نے مل کر ”ان“ مچا دیا۔ ادارے بھی اس گھناؤنے کھیل میں کھل کر سامنے آ گئے اور یوں آج کا دن آ گیا اور ہم باتیں بنانے ”جوگے“ رہ گئے۔ ہماری تو باتیں ہی باتیں ہیں ہمارا بابا کام کرتا تھا۔
ہماری کاہلی،سستی،ہٹ دھرمی، نالائقی اور مجرمانہ غفلت کا اندازہ بھی ہمارے قائد کو تھا شاید یہی وجہ ہے کہ آخری وقت تک کام، کام اور کام کی صدا لگاتا رہا۔ یوں اس کی وصیت بھی کام سے متعلق تھی اور وصیت پر عمل کرنے کے لئے وارث شرعی طور پر پابند ہوتے ہیں۔افسوس عالم فاضل بھی چپ ہو گئے ہیں شاید وہ بھی مصلحت کا شکار ہو گئے ہیں۔اب مصلحت کو زندہ درگور کرنے کا وقت آ گیا ہے۔اب احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب وسائل کی منصفانہ تقسیم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب سیاسی شعور بیدار کر کے جمہور کے دور کے آغاز کا وقت آ گیا ہے۔ اب آئین کے مطابق عوام، قیادت اور اداروں کو اپنی اپنی حدود وقیود میں رکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب نیک نیتی کی اہمیت کو قوم پر واضح کرنے کا وقت آ گیا ہے۔اب غیروں سے جان چھڑانے اور اپنے آپ کی طرف دیکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ اب دھونس اور دھاندلی کے خلاف کمر بستہ ہونے کا وقت آ گیا ہے۔اب ذاتی اختلافات کو مذاکرات کی میز پر لانے کا وقت آ گیا ہے اور سب سے اہم بات ہے کہ بابے کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے سامنے سرخرو ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ آیئے وقت کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک نئی صبح کا آغاز کرتے ہیں پاکستان زندہ باد