ہائیڈ روجن بم بنانے کا اعلان ، شمالی کوریا دشمنوں کو ڈرانا چاہتا ہے
تجزیہ: آفتاب احمد خان
شمالی کوریا نے جہاں ہائیڈروجن بم بنانے کا اعلان کیا ہے وہیں جنوبی کوریا کے ساتھ اتحاد یا پھر سے ایک ملک بن جانے سے متعلق مذاکرات کا ایک اور دور بھی کیا ہے۔ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ کی اس حکمت عملی کا مقصد معلوم ہوتا ہے ’’باہر بیر، اندر پیار‘‘۔ ہائیڈروجن بم بنانے کے اعلان اور خود کو ایٹمی طاقت قرار دینے کے ذریعے وہ امریکہ سمیت اپنے تمام مخالفوں کو دھمکانا چاہتے ہیں اور جنوبی کوریا کے ساتھ الحاق سے متعلق مذاکرات سے کوریا کے دونوں حصوں کے باشندوں کو پرسکون رکھنا چاہتے ہیں، جن کا تعلق ایک ہی نسل سے ہے۔
دوسری عالمی جنگ ختم ہونے پر جزیرہ نما کوریا کے ایک حصے پر امریکہ اور دوسرے پر روس کا قبصہ تھا۔ دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہونے کے بعد شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں الگ الگ حکومتیں قائم ہوگئیں۔ شمالی کوریا روس کا اتحادی بنا جبکہ جنوبی کوریا پر ابھی تک امریکہ کا اثر و رسوخ ہے۔ 1950ء میں شمالی نے جنوبی پر حملہ کر دیا جس میں روسی ٹینک اور ہتھیار استعمال کیے گئے۔ اس تین سالہ جنگ میں بیس لاکھ افراد ہلاک جبکہ بیشتر شہر تباہ ہوگئے۔ اس جنگ سے دونوں کوریاؤں کے درمیان دشمنی کی لکیر کھنچ گئی۔
اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان غیر فوجی علاقہ موجود ہے جو سرحد کی حیثیت رکھتی ہے۔ شمالی کوریا کو سرکاری طور پر ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک کا نام دیا گیا جبکہ جنوبی کوریا جمہوریہ کوریا کہلاتا ہے، شمالی کوریا کا امریکہ کے خلاف رویہ ابھی تک بہت سخت ہے، وہ اسے دھمکیاں بھی دیتا رہتا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ دھمکی ہائیڈروجن بم بنانے کا اعلان ہے تاہم شمالی کوریا اپنے جنوبی کوریاؤں بھائیوں کے ساتھ دونوں ملکوں کے اتحاد کی غرض سے مذاکرات کرتا رہتا ہے، ان مذاکرات کا تازہ ترین دور گزشتہ روز ہوا۔
دونوں کوریاؤں نے اتحاد کی غرض سے وزارتیں بنا رکھی ہیں، ان کے نائب وزراء کے درمیان مذاکرات کا تازہ دور کم جونگ کی طرف سے ہائیڈروجن بم بنائے جانے کے اعلان سے اگلے روز ہوا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے نمائندوں کی ملاقات شمالی کوریا کے ایک سرحدی قصبے کائیسونگ میں ہوئی۔ اس میں اگرچہ کسی بڑی پیشرفت کی توقع نہیں تھی تاہم اسے اس لیے بامعنی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس سے مصالحت کی کوششوں کا تسلسل ضرور پیدا ہوا ہے۔
شمالی کوریا کی کوشش ہے کہ 1950ء سے 1953ء تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد کوریا کے دونوں حصوں میں منقسم معمر لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کا موقع دیا جائے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ خوبصورت تفریح گاہ کوہ ہیرا کی مشترکہ سیاحت شروع کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری چیزیں ایک ساتھ طے نہیں ہوسکتیں اس لیے دونوں ملک مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہیں، یہ مذاکرات کئی برسوں سے جاری ہیں اور دونوں فریق اپنے اتحاد تک اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ آخری نکتہ سب سے اہم ہیں اور سب سے زیادہ رکاوٹیں بھی اسی میں ہیں۔