سکولوں کے لئے بسوں کی لازمی شرط، پھر والدین پر بوجھ!
پنجاب حکومت سرمایہ کاری سکولوں کو این جی اوز، انفرادی شخصیت یا ایجوکیشن چینز کے حامل گروپوں کو دینے کے دو مرحلے مکمل کر چکی ہے،سینکڑوں سکولوں کا قبضہ نجی ادارے یاافراد نئے سال میں حاصل کر چکے ہیں آخری مرحلے میں سرکاری پرائیویٹ ہائر سکینڈری تمام سکولز نجی گروپوں کے سپرد ہو جائیں گے، ڈیڑھ لاکھ زائد سکولوں میں عرصہ سے خالی آسامیوں کو پُر کرنے کی پریشانی سے بھی حکومت نجات پا لے گی،ہزاروں اساتذہ اربوں روپے مالیت کے حامل سکولوں کو من پسند افراد اداروں اور گروپوں کو دینے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی جو ٹھان لیتی ہے کر کے چھوڑتی ہے، مبارکباد دینا چاہوں گا ورلڈ بنک،آئی ایم ایف اور طاغوتی طاقتوں کو انہوں نے ہمت نہیں ہاری، قرضوں کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہمیں اتنا مجبورکر دیا کہ ہم سرکاری سکولوں کو سرکار پر بوجھ تصور کرتے ہوئے ہنسی خوشی ایجوکیشن مافیا کے سپرد کر رہے ہیں۔گزشتہ دس سالوں میں منصوبہ بندی کے تحت نئے اساتذہ کی بھرتی نہ کر کے ترقیاتی فنڈ روک کر سالہا سال سے کامیابی سے چلنے والے سکولوں کو اس حال تک پہنچا دیا گیا ہے رائے عامہ ہموار کر دی گئی ہے اب کوئی فرد سڑکوں پر دہائی دینے، اساتذہ کی چیخ و پکار سننے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں ہو پا رہا بلکہ بعض کالم نویسوں کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب کے اقدام کو سراہا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے۔حکومت کے اربوں روپے بچیں گے،ورلڈ بنک سے ملنے والے 600 روپے فی بچہ ان اداروں کو دے کر بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ لمحہ فکریہ ہے! جو پرائیویٹ سکولز ہزاروں کی تعداد میں پہلے سے موجود ہیں۔ پنجاب حکومت ان کو کنٹرول کرنے کے لئے ابھی تک اپنی بنائی گئی اتھارٹی کو فعال نہیں بنا سکی ہے۔یکساں نصاب تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے اب اچانک پھر خواب میں تبدیل ہو چکا ہے، تین مرلہ سے پانچ مرلہ،10مرلہ سے کنال، دو کنال کی ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص بڑی تعداد اپنے اپنے نصاب اپنی اپنی یونیفارم اور اپنا اپنا فیسوں کا نظام،اساتذہ کی بھرتی کے اپنے بنائے گئے کرائی ٹیریا میں خود کفیل ہیں۔ رہی بات جو بڑے گروپ چینز کا درجہ پاکر برینڈ بن چکے ہیں اونچی دکان پھیکا پکوان کی مثال پوری طرح صادر آتی ہے۔ان کا نظام ہو سکتا ہے اپنی نیٹ ورکنگ رکھنے کے لئے مثالی ہو مگر جو سکول اعلیٰ ترین تعلیم کے حامل اساتذہ کو چند ہزار روپے دیکر کر رہے ہیں۔ اس پر رونا آتا ہے، ایجوکیشن برینڈ یا تعلیمی اداروں کی چینز کا کیا رونا ررویا جائے جو ایک سے دو اور دو سے تین کے چکر میں ہر تین ماہ،چھ ماہ اور جو رہ جائیں سالانہ بنیاد پر مرضی کے مطابق فیسوں میں اضافہ کرتے ہیں اور ان کو پوچھنے والا بھی کوئی ہے، تمہید میں بات دوسری طرف چلی گئی آج کی نشست میں بات کرنی ہے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی جس نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی مانپلی،من مرضی اپنے اپنے نصاب، یونیفارم،مرضی کی فیسوں کا نوٹس لینے کی بجائے سکولوں میں آتے جاتے بچے بچیوں کے لئے ٹرانسپورٹ کے نہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں 13 جنوری تک ہر صورت اپنی بسیں خریدنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے، مکمل ہوتے سال کے آخری دِنوں میں دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں سیکرٹری ایجوکیشن خالد وٹو نے تمام بڑے سکولز اور چینز کو30روز میں اپنی بسیں خریدنے کی ہدایت کی ہے۔بات یہاں تک نہیں ہے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تمام سکولوں کی رجسٹریشن اُس وقت تک معطل تصور کی جائے گی جب تک تمام سکول بسیں خریدنے کی رپورٹ جمع نہیں کراتے تو اس کے لئے تمام سکولوں کو نئے سرے سے رجسٹریشن کرانے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔لاہور ہائی کورٹ نے بگڑتے تعلیمی نظام کو درست سمت ڈالنے کے لئے بڑے اقدام نہیں اٹھائے،بلکہ لاہور کی بڑھتی ہوئی ٹریفک جام کی صورتحال پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے لاہور کی تمام سڑکوں کی ری ڈیزائننگ کے لئے ٹیپاکو خصوصی ہدایت جاری کی ہے اس کے ساتھ ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ، ویگنوں،رکشوں کو سمجھتے ہوئے سکولوں کو اپنے اپنے بچے بچیوں کی پک اینڈ ڈراپ کی ذمہ داری لینے کا حکم دیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد نذیر نے ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے بھی24 ستمبر کو احکامات جاری کئے تھے کہ ہر سکول کے پاس اپنی بس ہونی چاہئے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت عالیہ کو یقین دلایا تھاکہ اس حوالے سے ایس او پیز بنائے جا رہے ہیں۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم کی طرف سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی، جام رہتی ٹریفک کا حل سکولوں کی اپنی بسوں میں قرار دیا جا رہا ہے اس حوالے سے نہیں سوچا گیا جو بچے بچیاں رکشے، ویگن کے ذریعے آتے ہیں،ہزاروں افراد کا روزگار ہے ان کیا بنے گا؟اس سے بھی اہم نقطہ جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے لاہور ہائیکورٹ اگر محکمہ تعلیم سے اس سوال کا جواب مانگ لیتی،محکمہ تعلیم کس حد تک بچے بچیوں کو ٹرانسپورٹ فراہم کر رہا ہے یا اس میں کردار ادا کر رہا ہے ان کا جواب یقینا یہ ہونا تھا ہم تو سالہا سال سے نمایاں کارکردگی دکھانے والے سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ چینز کے سپرد کر رہے ہیں وہ جانیں عوام جانیں، ہم پیسہ بھی بچائیں گے آئندہ پنشن میں ادا کئے جانے والے کروڑوں روپے بھی بچیں گے، زمینی حقائق کے مطابق اگر دیکھا جائے تو عدالت عالیہ کا فیصلہ کتنا درست کتنا غلط کی بحث میں پڑھنے کی بجائے پرائیویٹ سکولوں کی مانپلی کی بات کرتے ہیں جن کی یکساں فیسوں اور یکساں نصاب کا نظام آج تک نہیں بن سکا۔ پنسل سے یونیفارم تک کے سکول بچوں سے پیسے وصول کر رہے ہیں،ماہانہ فیسوں کے علاوہ سپورٹس، لائبریری، سکیورٹی، تعمیراتی فنڈ، یونیفارم، کے بعد اب بس کی فیس کا بوجھ بھی غریب والدین پر آئے گا جو نہ چاہتے ہوئے بھی من مرضی کی فیس وصول کرنے والے اداروں میں اپنے مستقبل کے نونہالوں کو پڑھانے پر مجبور ہیں،افسوس عدلیہ سمیت محکمہ تعلیم اور دیگر ادارے کوئی دیکھنے سمجھنے کے لئے تیار نہیں، پرائیویٹ اداروں کی کہانی کیا رُخ اختیار کرتی جا رہی ہے، سکولوں کی مانپلی اور بلیک میلنگ اس حد تک بڑھ چکی ہے آج تک مانیٹرنگ کے لئے بنائی گئی اتھارٹی کو فعال نہیں ہونے دیا گیا،ہماری پرائیویٹ اداروں میں تیار ہونے والی نسل آدھا تتر آدھا بٹیر بن رہی ہے،سکولوں کو بسوں کی لازمی شرط لگا کر والدین پر مزید بوجھ ڈالنے کے ساتھ تعلیمی نصاب، فیسوں کے نظام اور مرضی سے فیسوں میں اضافے کی پالیسی اخلاقی قدروں کی پامالی کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭