دیسی جمہوریت

دیسی جمہوریت
دیسی جمہوریت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جمہوریت کی اصطلاح عربی زبان میں اجتماع کے معنی میں استعمال ہوتی ہے، جبکہ مقامی اصطلاح دیسی جمہوریت سے مراد ایک ایسی مافوق الفہم جمہوریت ہے، جس کے سر کا پتہ ہے نہ ہی پیر کا، ایک عجیب و غریب کنفیوڑن ہے، جسے ہمارے ہاں جمہوریت سے تعبیر کیا جاتا ہے، جمہوریت کی جامع تعریف کرتے ہوئے معروف سیاہ فام سیاسی رہنما ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ سے عوام پر گویا اس میں سکہ عوام ہی کے پاس رہنا ہے انتقالِ اقتدار کا موجودہ تصور ہمیں سب سے پہلے خدا اور خدا کی عالمگیر بصیرت سے توڑ دیتا ہے، انا پرستی کے جال میں پھنسا ہوا نفس پرست انسان جب اقتدار پر قابض ہوتا ہے تو جو کچھ وہ کر سکتا ہے،اس کا کماحقہ مشاہدہ ہم آج ملکِ خداداد میں کر رہے ہیں جمہوریت چاہے ولایتی ہو یا دیسی اس میں سب سے پہلے خدا کے وجود کو چیلنج کیا جاتا ہے کیونکہ جمہوریت کا تصور اپنی اصل میں انسان کو مختارِ کل بنانے کا پْرتعیش واہمہ ہے ہم جانتے ہیں کہ یہاں سکندر و دارائے اعظم بھی رسوا ہو کر رخصت ہوئے تو پھر یہ نام نہاد جمہوری مقتدر کیا کچھ پا لیں گے مغرب میں جمہوریت ایک باشعور معاشرے کے لئے انتقالِ اقتدار کا سب سے محفوظ اور مطمئن ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری اور مغربی جمہوریت میں زمین آسمان کا فرق ہے، ہماری جمہوریت میں بنیادی عنصر اسلامائزیشن ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہم خالص جمہوریت کی بجائے اسلامی جمہوریہ کی اصطلاح پر تکیہ کرتے ہیں تاکہ ہم جدید دنیا کی غیر اسلامی جمہوریت سے الگ ہو جائیں۔
میرے نزدیک اسلامی جمہوریت سے زیادہ معقول اصطلاح دیسی جمہوریت ہے کیونکہ اسلام اور جمہوریت میں ایک زبردست منطقی بْعد پایا جاتا ہے قرآن کا یہ واضح اعلان ہے کہ علم والے اور لاعلم برابر نہیں ہو سکتے اسلام کے نزدیک حفظِ مراتب ایک بنیادی اصول کے طور پر پریکٹس کیا جاتا رہا ہے، مگر جمہوریت میں ایک عالم، صوفی، ولی، بزرگ کی رائے اور ایک افیمی اور آوارہ گرد کی رائے برابر ہے ریاست جب اپنے شہریوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کر پائی ہو جہاں عوام اور خواص بدترین اخلاقی بحران سے گزر رہے ہوں، وہاں جس قسم کی جمہوریت پروان چڑھتی ہے اس کا ادنی سا مشاہدہ مملکتِ خداداد میں بخوبی کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت نے انسان کے اندر خود غرضی اور ہوس کی مسلسل آبیاری کی آخر وہ کون ساانسان ہے جسے تمنائے سروری نہیں ستا رہی سبھی مقتدر بننا چاہ رہے ہیں کوئی ضابطہ ہی نہیں جس کا دل چاہے کاغذات جمع کرا کر اقتدار کی دوڑ میں حصہ لے لے حقیقت تو یہ ہے کہ نظمِ جمہوریت انتقالِ اقتدار کا کوئی حتمی معیار ہی نہیں ہے باشعور ہے یا لاشعور دھڑلے سے اپنے آپ کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے پیش کر سکتا ہے پھر جو طاقتور ہوا وہی صاحبِ اقتدار چنانچہ ہمارے جمہوری لیڈر بھی وہی ہیں جو پہلے کسی طاقتور کے غلام تھے اور اب خود طاقتور بن کر آگے مزید غلاموں کی کھیپ پیدا کرنے میں مصروف ہیں اقتدار کی دھکم پیل غریب کے بس کا روگ ہی نہیں غریب روٹی پیدا کرے یا ملکی سیاست میں حصہ لے وہی چند ایک لوگ جو کبھی مقتدر حلقوں کے غلام تھے، آج خود آقا بن کر نئے غلام پیدا کر رہے ہیں اور یہی سلسلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے شاطر اذہان نے اسلام کا سابقہ لگا کر جمہوریت کو بھی مطہر کر دیا چنانچہ اب اگر کوئی دیوانہ اعتراض کرے کہ بھئی جمہوریت اسلامی روش نہیں تو اس کا منہ جھٹ سے بند کر دیا جائے کہ اجی یہ مغربی جمہوریت تھوڑی ہے دیسی جمہوریت کا اعجاز یہ بھی ہے کہ یہاں لوگوں کی رائے پیسوں سے بھی خریدی جا سکتی ہے۔

غریب عوام بیچارے کیا جانیں کہ ان کی رائے کیا حیثیت رکھتی ہے، ان کے نزدیک ہرے اور نیلے نوٹ ہی حقیقی وقعت رکھتے ہیں، کیونکہ اندھا کیا مانگے صرف دو آنکھیں، دیسی جمہوریت کو اسلامی جمہوریت سمجھنے والے اسلام کا یہ بنیادی اصول نہیں جانتے کہ اسلام میں اقتدار کی طلب ہی اخلاقی جرم ہے اسلام میں سیاست عبادت کی ایک قسم ہے، بلکہ اگر سیاست کو اسلام کا مرکز کہہ لیں تو زیادہ بہتر ہو گا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معاشرے کی نہ صرف اخلاقی تربیت کی بلکہ اپنے لوگوں کے لئے ایک ایسی خدائی ریاست کا بھی بندوبست کیا، جس میں کوئی غریب تھا نہ ہی امیر، چھوٹا تھا نہ بڑا، بادشاہ تھا نہ ہی وزیر، سب برابر کے معزز، صالح اور اعلی اخلاقیات کے حامل شہری تھے اور جن کی جان و مال اور دولت خدا کی غیر مشروط امانت تھی جب بھی خدا کا پیغام ملتا وہ اپنا تن من اور دھن سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیتے ایسی عدیم النظیر اور رفیع الامثل ریاست کے نظمِ الوہی کو موجودہ متعفن جمہوریت سے تشبیہ دینا نہ صرف صریح حماقت ہے بلکہ بدترین جہالت، جس معاشرے میں اْستاد اور شاگرد، عالم اور لاعلم، ولی اور بدقماش کی رائے برابر ہو وہ معاشرے کیونکر ترقی یافتہ ہوسکتے ہیں پس جمہوریت کا راگ الاپنے سے پہلے جہالت سے جنگ ضروری ہے اخلاقی بحران سے نجات لابدی ہے بعد میں کہیں جا کے ایک شہری کی رائے کو اہمیت دی جا سکتی ہے، اقتدار زمین پر خدا کی سب سے حساس ترین امانت ہے، ایسی بھاری بھرکم امانت کہ جس کی موجودگی سے حضرت عمر فاروقؓ جیسے جلیل القدر اور فقید المثل سیاسی رہنما پْرملال تھے کہ مبادا کہیں مجھ سے جانے انجانے میں شہریوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی ناانصافی نہ ہو جائے، مگر یہاں تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے سب سے آسان ترین شغل حصولِ اقتدار ہی ہے کہیں سے کوئی ایک آدھ کرسی ہی مل جائے ٹوٹی پھوٹی ہی سہی، بلاشبہ اقتدار خدا کی امانت ہے اور اس کے وہی عظیم نفوس اہل ہو سکتے ہیں، جن کے دلوں میں خدا کا نور ہے، جن کے دلوں میں خدمتِ خلق کا غیر مشروط جذبہِ صادق ہے اور وہ جو صادق ہیں امین ہیں بہادر ہیں اور عادل ہیں اقبال نے یہی درس دیا تھا برصغیر کے مسلمان کو کہ حصولِ اقتدار سے قبل اپنے اندر اصحابِ اقتدار کے اوصاف پیدا کر لے:
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

مزید :

رائے -کالم -