مودی کی مسلم دشمن سیاست
بھارتی وزیراعظم نریند ر مودی نے مسلسل تیسری بار وزارت عظمی کا عہدہ سنبھال لیا ہے، اگرچہ مودی تیسری بار وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہو چکے ہیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ ان کی یہ جیت ان کی شکست کے مترادف ہے کیوں کہ گزشتہ حکومت میں مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو سادہ اکثریت ملی تھی لیکن اس بار مودی کو اتحادیوں کا سہارا لینا پڑا ہے۔ انتخابات کے دوران مودی کی ساری انتخابی مہم ہی مسلمان مخالف اور انڈیا میں موجود دلتوں اور نچلی ذات کو لتاڑنے پر مشتمل تھی۔مودی نے اپنی انتخابی مہم میں نعرہ لگایا تھا کہ اب کی بار چار سو پار اور اس نعرے کے ساتھ بنیادی طور پر مودی انڈین آئین کو بدلنے کے خواہاں تھے کہ انڈیا کے آئین میں جو مسلمانوں کو محدود سی آزادی میسر ہے اس پر بھی قدغن لگائی جائے اور مسلمانوں کو بھارت میں سانس بھی نہ لینے دیا جائے۔ مودی مسلمانوں سے کس حد تک نفرت کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مودی کی 72 رکنی کابینہ میں ایک بھی مسلمان وزیر شامل نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا کے ہی مطابق آزادی کے بعد یہ پہلی مرکزی حکومت ہے جس میں کابینہ کی تشکیل میں کسی مسلمان کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ اس طرح نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی کا سلسلہ تین سے شروع ہو کر اب صفر پر آ گیا ہے۔خیر بات ہو رہی تھی کہ مودی کی انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں ہندوتوا جذبات کو ابھارنے کی بھرپور کوشش کی اور ان کی یہ کوشش اس طرح ناکام ہوئی کہ مودی نے رام مندر کے نام پر ہندو انتہا پسندوں کو ابھارنے کی کوشش کی لیکن ایودھیا جہاں رام مندر کو تعمیر کیا جانا ہے وہاں مودی کی جماعت کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے جو بتا رہا ہے کہ معتدل ہندو ووٹرز اور مسلمانوں نے مودی کی ہندو توا کی پالیسی کو اپنے ووٹ کے ذریعے مسترد کر دیا ہے۔ مودی کے ماضی کے دو ادوار میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے، ان کے دور میں ہی بھارت میں مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں قتل کرنے کی واردارتوں کا آغاز ہوا، گائے کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹے گئے اور ابھی تو مودی نے تیسری بار حلف اٹھایا بھی نہیں تھا، خبر تھی کہ بھارت میں دو مسلمانوں کو گائے اسمگلنگ کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ اگرچہ مودی تیسری بار وزیراعظم بن تو گئے ہیں لیکن جس طرح سے وہ انتخابی مہم میں گھمنڈ اور غرور کے ساتھ سب کو روندنے کی بات کر رہے تھے اور انڈیا میں بسنے والے مسلمانوں کو ملنے والے حقوق کو بھی چھیننے کی بات کر رہے تھے ان کا وہ غرور ضرور خاک میں مل گیا ہے۔ مودی اپنی انتخابی مہم میں کہہ رہے تھے کہ مسلمانوں کو جو پسماندہ ہونے کی وجہ سے سہولیات دی جا رہی ہیں وہ ان سے چھین کر ہندوؤں کو دلائیں گے اور ان کا دعوی یہ تھا کہ مسلمان پسماندہ نہیں ہیں بلکہ اکثریت میں ہیں اور نچلی ذات کا حق کھا رہے ہیں تو ان کا یہ دعوی ان کے عمل کی ہی نفی کرتا ہے۔ پورے بھارت میں بیس کروڑ سے زائد مسلمان ہیں اور بھارت کی آبادی کے چودہ فیصد سے زائد بنتے ہیں اور انتخابات کی بات کریں تو زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو 2019ء میں 543 نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 115 مسلم امیدوار کھڑے ہوئے تھے جب کہ 2024ء میں ان کی تعداد 78 تھی۔گزشتہ لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد 26 تھی اس بار دو کم ہو کر 24 رہ گئی ہے۔ 2014 میں یہ تعداد 23 تھی۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی جماعت مسلمانوں کو بھارت میں اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہے اور اس الیکشن میں بھی مسلمانوں کو بہت کم اہمیت دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے لیے کسی اسکیم کا اعلان نہیں کیا جبکہ دلت اور دیگر ہندو برادریوں کیلئے اسکیموں کا اعلان کیا گیا تاکہ اکثریت کی بنا پر ووٹ لے کر مسلمانوں کا استحصال کیا جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مودی کی انتہا پسند جماعت بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ان کی آواز اٹھانے والے کو ملک کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔مودی جو دنیا کو دکھانے کیلئے کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں لیکن ان کے عمل کا جائزہ لیں تو بی جے پی نے بیس کروڑ کی مسلمان آبادی کیلئے 543 حلقوں سے صر ف ایک مسلمان امیدوار کو ٹکٹ جاری کیاجو ظاہر کرتا ہے کہ مودی مسلمانوں کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مودی چونکہ تیسری بار وزیراعظم کے عہدے کا حلف لے چکے ہیں لیکن ایک بات ضرور ہے کہ جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں یا پاکستان کے ساتھ اب وہ شاید اچھے تعلقات کیلئے کوئی قدم اٹھائیں گے تو میرے خیال میں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ مودی کی ساری سیاست ہی مسلمان دشمنی پر منحصر ہے اور مودی کی روز اول سے کوشش رہی ہے کہ ہندوؤں کے جذبات کو ابھار کر اور ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے کر اقتدار حاصل کیا جائے اور اس میں وہ ہر بار کامیاب ہوئے ہیں۔ اس بار اگرچہ مودی کو مطلوبہ تعداد میں سیٹیں نہیں مل سکیں لیکن اس کے باوجود ان کی مسلم دشمنی میں یا ان کی حکومت کی پالیسی میں میرے خیال میں کوئی فرق نہیں آئے گا، اب یہ بھارتی کی معتدل عوام کا فرض ہے کہ وہ مودی کی انتہا پسندانہ سیاست کو ناکام بنانے کیلئے ایک ہوں تا کہ مودی جیسے انتہا پسند سیاست دان کی سیاست کا خاتمہ ہو سکے۔